(مرزاقادیانی کے علاوہ آپ کی جماعت میں کسی اور نے نبوت کا دعویٰ کیا؟)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اسی واسطے میں اس کو Verify (تصدیق) کر رہا ہوں۔
اب اسی سے تعلق رکھنے والا ’’کھڑکی‘‘ کا جو معاملہ آگیا ہے، ایک سوال یہ کہ آپ کی جماعت میں کیا کچھ اور لوگوں نے بھی نبوّت کا دعویٰ کیا، مرزا صاحب کے وقت میں یا بعد میں؟
مرزا ناصر احمد: کچھ تھوڑا سا میرا مطالعہ ہے اپنی تاریخ کا، اور میرا خیال ہے کہ اُمتِ محمدیہ میں ہزاروں آدمیوں نے نبوّت کا دعویٰ کیا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، میں آپ کی پوچھتا ہوں، آپ کی جماعت میں!
مرزا ناصر احمد: ہاں، اب میری جماعت میں سے بھی کچھ لوگ پاگل ہوکے اس میں شامل ہوئے۔ لیکن دعویٰ کرنے والے۱؎…
1287جناب یحییٰ بختیار: کھڑکی کھلی تھی!
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، وہ ’’کھڑکی‘‘ کا تو پھر میں سنادیتا ہوں۔ میں نے ایک حوالہ نکالا ہوا ہے۔ ’’کھڑکی‘‘ کا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں جی، میں ۔۔۔ I hope you don't mind ۔۔۔ (مجھے اُمید ہے آپ بُرا نہیں مانیں گے)
مرزا ناصر احمد: نہیں، Mind (بُرا ماننے) کرنے کی کیا بات ہے۔ آپ یہ حوالہ سن لیں۔ یہ بانیٔ سلسلہ کا حوالہ ہے:’’صاحب انتہائی کمال کا جس کا وجود ۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ آنحضرت صلعم کے متعلق ہے ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: کس کے متعلق جی؟
مرزا ناصر احمد: ’’صاحب انتہائی کمال کا ۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ لکھنے والے ہیں بانیٔ سلسلہ احمدیہ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی۔
مرزا ناصر احمد: بیان فرما رہے ہیں نبی اکرمa کے متعلق۔ یہ جو ’’کھڑکی‘‘ ہے ناں، وہ مسئلہ حل ہوجائے گا، اگر غور سے سنا جائے:’’صاحب انتہائی کمال کا جس کا وجود سلسلہ خط خالقیت میں انتہائی نقطئہ اِرتفاع پر واقع ہے، حضرت محمدa ہیں، اور ان کے مقابل پر وہ خسیس وجود جو اِنتہائی نقطئہ اِنخفاف پر واقع ہے اسی کو ہم لوگ شیطان سے تعبیر کرتے ہیں۔ اگرچہ بظاہر شیطان کا وجود مشہود ومحسوس نہیں لیکن اس سلسلۂ خط خالقیت پر نظر ڈال کر اس قدر تو عقلی طور ماننا پڑتا ہے کہ جیسے سلسلۂ اِرتفاع کے اِنتہائی نقطہ میں ایک وجود خیر مجسم ہے (ﷺ) جو دُنیا میں خیر کی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ حضورﷺ کے بعد جو شخص نبوّت کا دعویٰ کرے، مرزا ناصر اُسے پاگل قرار دے رہے ہیں، دیگر مدعیان ’’پاگل‘‘، لیکن مرزاقادیانی ’’نبی‘‘، آخر دادا جو ہوئے، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔۔۔!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
طرف ہادی ہوکر آیا۔ اس طرح اس 1288کے مقابل پر، ذُوالعقول میں (عقل مند، عقل رکھنے والے انسان یعنی) ذُوالعقول میں اِنتہائی نقطئہ اِنفساد میں ایک وجود شر انگیز بھی جو شر کی طرف جاذب ہو ضرور چاہئے۔ اسی وجہ سے ہر ایک انسان کے دل میں باطنی طور پر بھی دونوں وجودوں کا اثر عام طور پر پایا جاتا ہے۔ پاک وجود جو رُوح الحق، جو نور بھی کہلاتا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘ اب یہاں وہ ’’کھڑکی‘‘ کا یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے:
’’۔۔۔۔۔۔۔ پاک وجود جو رُوح الحق اور نور بھی کہلاتا ہے، یعنی حضرت محمد مصطفیa۔ اس کا پاک اثر بہ جذبات قدسیہ، توجہات باطنیہ، ہر ایک دل کو، ہر اِنسان کے دل کو خیر اور نیکی کی طرف بلاتا ہے۔ (یہ ان کی دعوت ہے) جس قدر کوئی اس سے محبت اور مناسبت پیدا کرتا ہے اسی قدر وہ اِیمانی قوّت پاتا ہے اور نورانیت اس کے دل میں پھیلتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسی کے رنگ میں آجاتا ہے اور ظلّی طور پر ان سب کمالات کو پالیتا ہے، جو اس کو حاصل ہیں اور جو وجود شرانگیز ہے (وہ دُوسرا جس کو ’’شیطان‘‘ ہم کہتے ہیں) اس کے اندر بھی ایک جذب ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
میں اس کو یہاں چھوڑتا ہوں کیونکہ ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔۔ یہ چند فقرے جو ہیں، یہ وہ ’’کھڑکی‘‘ کا بتاتے ہیں۔ ہر وجود کو آنحضرتa کی قوت قدسیہ جذب کر رہی ہے۔ کچھ لوگ اس اثر کو قبول کرتے ہیں اور کچھ شیطانی خیالات کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ جو قبول کرتے ہیں وہ اپنی اپنی اِستعداد کے مطابق رُوحانی رفعتوں کو حاصل کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا اہم بنیادی مسئلہ ہے جسے میرے خیال میں اس وسعت کے ساتھ اسلام نے پیش کیا کہ ہر فردِ واحد ایک دائرۂ اِستعداد رکھتا ہے، یعنی جو اس کی فطرت کو قویٰ ملے ہیں۔ یہ نہیں کہ بے حد وحساب ہیں اور ہر فرد اپنے دائرۂ اِستعداد کے اندر ترقی کرسکتا ہے اور اس کے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔