(مرزاناصر احمد کا طویل جواب)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی!
1247مرزا ناصر احمد: ایک ہماری تاریخ کا اہم زمانہ ۱۹۳۰ء کے قریب کا ہے، جب سائمن کمیشن یہاں آیا تھا اور اس نے اپنی رپورٹ ایک تیار کی تھی۔ اس میں گول میز کانفرنس کا اِعلان کیا گیا تھا، اور اس موقع پر ہمارے خلیفہ المسیح الثانی نے اس پر بھی اپنی طرف سے مسلمانوں کو اِکٹھا ہوکے اور سیاسی، متحد سیاسی محاذ قائم کرنے کی اپیل کی تھی، او راس پر ایک جامع اور مانع تبصرہ لکھا گیا تھا آپ کی طرف سے۔ اس میں جو یہ تاریخ کا ایک ورق ہے، تبصرہ بھی ہوگا، یا میں بھجوادُوں گا۔ میں نے جو حوالے لکھے ہیں، ان میں ایک ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا وقت بچانے کے لئے، کیونکہ کچھ ایسے عنوان ہیں جن میں وقت زیادہ خرچ ہوگا۔
’’سیاست‘‘ لاہور نے لکھا: ’’اس وقت کے مذہبی اِختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب بشیرالدین محمود احمد صاحب نے میدانِ تصنیف وتالیف میں جو کام کیا ہے، وہ بلحاظ ضخامت وافادہ پر تعریف کا مستحق ہے۔ (یہ تو ویسے ہی ہے) اور سیاسیات میں اپنی جماعت کو عام مسلمانوں کے پہلوبہ پہلو چلانے میں آپ نے جس اُصول، عمل کی ابتدا کرکے، اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے، وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حق شناس انسان سے خراجِ تحسین وصول کرکے رہتا ہے۔‘‘
یہ ’’سیاست‘‘ نے اس پر تبصرہ لکھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت سے اس میں ہیں حوالے، وہ دے دیں گے، میں نے اسی واسطے کہا کہ یہ عنوان ایک مختصر سا ہے۔
یہ قضیۂ فلسطین، یہ ۱۹۳۹ء سے ۸۴۹۱ء تک یہ آیا ہے دُنیا کے سامنے، بلکہ اس سے بھی کچھ پہلے، کیونکہ مجھے یاد ہے کہ آکسفورڈ میں اس مضمون پر، مذاکرات میں بعض دفعہ مجھے بھی حصہ لینا پڑا ہے، اس میں خلیفہ ثانی نے ایک تو لکھا: ’’الکفر ملّۃ واحدۃ‘‘ اس کا عربی کا ہے، اور تمام ان ممالک میں بھجوایا گیا جن کا ان کے ساتھ تعلق تھا اور جو دلچسپی لینے والے تھے، عرب ممالک جو 1248ہیں، انگلستان میں اس کے متعلق کوشش کی گئی، حضرت اِمام جماعت احمدیہ کی قیادت میں، احمدیہ پریس اور مبلغین کی تمام ہمدردیاں مسئلہ فلسطین کے بارے میں مسلمانانِ عالم کے ساتھ تھیں، چنانچہ اخبار "South Western Star"نے ۳؍فروری ۱۹۳۹ء کی اِشاعت میں لکھا:
’’عیدالاضحی کی تقریب پر مسجد احمدیہ لندن میں ایک جلسہ ہوا اور لیفٹیننٹ کرنل سرفرانس ینگ ہسبنڈ کی صدارت میں امام شمس نے حکومت کو اِنتباہ کیا (انگریز حکومت کو) کہ فلسطین میں یہودیوں کا تعداد میں عربوں سے بڑھنا اور ان پر چھاجانے کا خیال سخت خوفناک ہے، یہ کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا، برطانیہ حکومت کو اس کا منصفانہ حل تلاش کرنا ہوگا۔‘‘
یہ ’’الکفر ملّۃ واحدۃ‘‘ یہ ایک اچھا لمبا ہے، وہ اس کو تو میں اس وقت نہیں لوں گا، یہ اس میں آپ نے فرمایا: ’’امریکا اور رُوس جو ایک دُوسرے کے دُشمن ہیں، اس مسئلے میں متحد اس لئے ہیں کہ وہ اسلام کی ترقی میں اپنے اِرادوں کی پامالی دیکھتے ہیں، (یہ فلسطین کے سلسلے میں کا ہے)۔ فلسطین ہمارے آقاومولیٰ کی آخری آرام گاہ کے قریب ہے، حضورa کی زندگی میں اکثر جنگیں، یہود کے اُکسانے پر ہوئیں۔ اب یہودی، عرب میں سے عربوں کو نکالنے کی فکر میں ہیں، یہ معاملہ صرف عربوں کا نہیں، سوال فلسطین کا نہیں، سوال مدینہ کا ہے، سوال یروشلم کا نہیں، خود مکہ مکرمہ کا ہے، سوال زید اور بکر کا نہیں، سوال محمد رسولa کی عزّت کا ہے، کیا مسلمان اس موقع پر اِکٹھا نہیں ہوگا؟ آج ریزولیوشنز سے کام نہیں ہوسکتا، آج قربانیوں سے کام ہوگا۔ پاکستان کے مسلمان حکومت کی توجہ اس طرف دلائیں کہ ہماری جائیدادوں کا کم سے کم ایک فی صد حصہ اس وقت لے لے، اس طرح اس وقت ایک ارب 1249روپیہ اس غرض کے لئے جمع کرسکتی ہے (یعنی مسلمان کا علیحدہ فنڈ) جو اِسلام کی موجودہ مشکلات کا بہت کچھ حل ہوسکتا ہے۔‘‘
شام ریڈیو نے ’’الکفر ملّۃ واحدۃ‘‘ کا خلاصہ ریڈیو پر شائع کیا۔ اخبار ’’النہضۃ‘‘ زیرعنوان ’’مطبوعات‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں، میں ترجمہ پڑھ رہا ہوں: ’’السیّد مرزا محمد احمد صاحب کا خطبہ ملا، اس خطبہ میں خطیب نے تمام مسلمان کو دعوتِ اِتحاد دِی ہے، اور فلسطین کو یہودیت، صہیونیت سے نجات دِلانے کے لئے ٹھوس اِقدامات کی طرف توجہ دِلائی ہے، نیزا ہلِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطین عربوں کی فوری اعانت کریں۔‘‘
اخبار ’’صوت الاصرار‘‘ نے اس کے اُوپر یہ تبصرہ لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ’’الکفر ملّۃ واحدۃ‘‘ پر:
’’امام جماعت احمدیہ نے اپنے لیکچر میں، پوری قوّت سے عالمِ صہیونیت پر حملہ کیا۔ اس لیکچر کا خلاصہ یہ ہے کہ سامراجی اِستعمار سے آزادی اور نجات، اِتحاد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘
اخبار ’’الثورۃ‘‘ بغداد نے لکھا، ۱۸؍جون ۱۹۴۸ء کو۔
’’حضرت مرزا محموداحمد صاحب کے مضمون کا عنوان ہے: ’’ الکفر ملۃ واحدۃ ‘‘ جن احباب نے یہ مفید ٹیکسٹ شائع کیا ہے، ہم ان کی اسلامی غیرت اور اِسلامی مساعی پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘‘
یہ کچھ ہیں عنوان۔ ایک چھوٹا سا نوٹ (وفد کے ایک رُکن کی طرف اِشارہ کرکے) ان صاحب سے بھی لکھوایا ہے۔ یہ صاحب چھ سال وہاں رہے ہیں، فلسطین میں، تو یہ ایک صفحے کا ہے، ڈیڑھ صفحے کا ہے، چھوٹا سا ایک منٹ کا:
’’جماعت احمدیہ کا فلسطین میں مارچ ۱۹۲۸ء میں تبلیغی مشن قائم ہوا، اس وقت فلسطین میں قریباً تین ہزار پادری عیسائیت کی تبلیغ کر رہے تھے اور اَطرافِ ملک میں ان کے متعدّد مشن موجود تھے۔ احمدیہ مشن کی طرف سے عیسائی پادریوں سے 1250مناظرات ہوئے، ان کے اسلام پر اِعتراضات کے جواب میں کتب واِشتہارات شائع ہوتے رہے، پھر باقاعدہ ایک ماہنامہ ’’البشریٰ‘‘ بھی جاری ہوا، ۱۹۳۳ء میں۔ اس مشن کی طرف سے یہودیوں کو دعوتِ اسلام کے لئے عبرانی میں بھی لٹریچر شائع کیا گیا۔ یہ مشن روزِاوّل سے مقامی مسلمانوں کو اِسرائیل کے آنے والے خطرے سے اِسرائیل بننے سے بھی قبل آگاہ کرتا رہا۔ حضرت اِمام جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک مبسوط مضمون ’’الکفر ملّۃ واحدۃ‘‘ شائع ہوا، جس میں سب مسلمانوں کو متحد ہوکر اس خطرے کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی گئی، اس مضمون کی عرب ممالک کے تمام اخبارات نے تائید کی۔ ۲۶؍مئی ۱۹۴۸ء کو مسلمانانِ عالم کی مخالفت کے باوجود امریکا، انگلستان اور رُوس کی تائید سے اِسرائیل بن گیا، اس موقع پر فلسطین کے چھ، سات لاکھ باشندوں کو شام، اُردُن، لبنان اور دیگر بلادِ عربیہ میں ہجرت کرنی پڑی۔ اس وقت حیفہ، طیدہ اور دیگر دیہات کے ہزاروں احمدیوں نے بھی شام اور اُردُن میں ہجرت کی اور آج تک جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس وقت اِسرائیل میں قریباً تین لاکھ سے زائد عام مسلمان اور ہزاروں احمدی مسلمان موجود ہیں۔ مسلمانوں کی المجلس اسلامی الاعلیٰ بیت المقدس میں ہے، ان کے فیصلے مسلمان قاضی کرتے ہیں۔ جو احمدی اِسرائیل میں ہیں اور ہجرت نہیں کرسکے وہ اپنے خرچ پر احمدیہ مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہود ونصاریٰ کو دعوتِ اسلام دی جارہی ہے۔ احمدیوں کے اِسرائیل میں سارے مسلمانوں سے باہمی تعلقات نہایت اچھے ہیں۔ اس مشن کے پہلے مبلغ…‘‘
چھوڑتے ہیں، یہ بھی اس کے اندر آجائے گا۔
۱۹۴۶ء میں انڈونیشیا کی تحریکِ آزادی کا سوال جب اُٹھا تو اس وقت بھی جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی نے ان کے حق میں آواز اُٹھائی، یہ جو حوالہ ہے اس کو میں چھوڑتا ہوں۔
1251جس وقت آزادیٔ ہند اور قیامِ پاکستان کے لئے حالات پیدا ہوئے تو اس وقت آزادی کے متعلق یعنی انگریزی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کی مساعی اور کوشش میں جماعت احمدیہ نے بڑا کردار اَدا کیا۔ جو آزادیٔ ہند کے متعلق کوشش تھی، اس کے متعلق مشہور اہلِ حدیث عالم جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے یہ الفاظ لکھے: ’’یہ الفاظ کس جرأت اور حیرت کا ثبوت دیتے ہیں کہ کانگریسی تقریروں میں اس سے زیادہ نہیں ملتے، چالیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کا ولولہ جس قدر خلیفہ جی کی اس تقریر میں پایا جاتا ہے، وہ گاندھی جی کی تقریر میں بھی نہیں ملے گا۔‘‘
یہ امرتسر ’’اہلِ حدیث‘‘ امرتسر، ۶؍جولائی ۱۹۴۵ء پر یہ آیا ہے۔
پھر جب مسلم لیگ کے بننے کا سوال پیدا ہوا تو اس وقت مثلاً: جو خضر حیات ٹوانہ تھے، یہ ایک وقت میں ڈھٹائی سی ان کی طبیعت میں پیدا ہوگئی، اور وہ مسلم لیگ کے لئے کام کرنا تو علاوہ، وہ اپنے عہدے کو چھوڑنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے، تو جماعت کے بعض دوستوں کے ساتھ ان کے تعلقات تھے جن میں چوہدری ظفراللہ خان صاحب بھی تھے، ان پر زور ڈال کر ان سے استعفیٰ دِلوایا گیا، اور ہندو اَخباروں نے جماعت کے اُوپر اس وقت یہ اِعتراض کیا کہ یہ اس قسم کی حرکتیں کر رہے ہیں۔
یہ منیر کمیٹی نے بہت سارے حوالے میں نے چھوڑ دئیے ہیں۔۔۔ یہ منیر کمیٹی کی جو رپورٹ ہے اس کے یہ دو فقرے، تین فقرے جو ہیں، دِلچسپ ہیں ہم سب کے لئے:
’’عدالتِ ہذا کا صدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ نہ یہ باؤنڈری کمیشن جو تھا اس کا:
’’عدالتِ ہذا کا صدر جو اس باؤنڈری کمیشن کا ممبر تھا۔۔۔۔۔۔۔‘‘
1252نہیں، نہیں، یہ منیر کمیٹی کا ہے، وہ منیر تھے ناں، وہاں یہ اس وقت کی بات کر رہے ہیں: ’’۔۔۔۔۔۔۔ بہادرانہ جدوجہد پر شکر واِطمینان کا اِظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے کہ چوہدری ظفراللہ خان نے گورداسپور کے معاملے میں مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔‘‘
یہ منیر کمیٹی کی رپورٹ میں ہے۔
یہ محمد اِبراہیم صاحب میرسیالکوٹی کا بھی ہے۔ عنوان۔ ایک اِقتباس ہے یہ کتاب ہمارے ایک مشہور ہیں عالم، مولانا محمد اِبراہیم صاحب میرسیالکوٹی، احمدی نہیں، یعنی دُوسرے مسلمانوں میں سے، ان کا یہ اِقتباس ہے دِلچسپ: ’’میرے ایک مخلص دوست کے فرزندارجمند، لیکن گستاخ، حافظ محمد صادق سیالکوٹی نے احمدیوں کے مسلم لیگ سے موافقت کرنے کے متعلق اِعتراض کیا اور ایک امرتسری شخص نے بھی پوچھا ہے، تو ان کو معلوم ہو کہ اوّل تو میں احمدیوں کی شرکت کا ذمہ دار نہیں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
ان ہی پر اِعتراض ہوگیا تھا ناں: ’’۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میں نہ مسلم لیگ کا کوئی عہدے دار ہوں اور نہ ان کے اور نہ کسی دیگر کے ٹکٹ پر ممبری کا اُمیدوار ہوں کہ اس کا جواب میرے ذمے ہو۔ دیگر یہ ہے کہ احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے کے نیچے آجانا، اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ وجہ یہ ہے کہ احمدی لوگ کانگریس میں تو شامل ہو نہیں سکتے، کیونکہ وہ خالص مسلمانوں کی جماعت نہیں ہے، اور نہ احرار میں شامل ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ سب مسلمانوں کے لئے نہیں، بلکہ صرف اپنی احراری جماعت کے لئے لڑتے ہیں، جن کی اِمداد پر کانگریسی جماعت ہے اور 1253حدیث: ’’الدِّین النّصیحۃ‘‘ کی تفسیر میں خود رسولِ مقبولa نے عامۃالمسلمین کی خیرخواہی کو شمار کیا ہے، ہاں! اس وقت مسلم لیگ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو خالص مسلمانوں کی ہے، اس میں مسلمانوں کے سب فرقے شامل ہیں۔ پس احمدی صاحبان بھی اپنے آپ کو ایک اسلامی فرقہ جانتے ہوئے اس میں شامل ہوگئے، جس طرح کہ اہلِ حدیث اور حنفی اور شیعہ وغیرہ شامل ہوگئے اور اس امر کا اِقرار کہ احمدی لوگ اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں، مولانا ابوالکلام کو بھی ہے۔ ان سے پوچھئے، اگر وہ اِنکار کریں گے تو ہم ان کی تحریروں میں دِکھادیں گے۔‘‘
پھر ۱۹۴۷ء میں ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: جی، یہاں آنے کے بعد، Partitionکے بعد!
مرزا ناصر احمد: لاہور میں پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے، اِمام جماعت احمدیہ، کے چھ لیکچرز ہیں، جو اس وقت بڑے مقبول ہوئے، اس کو پڑھنے کی بجائے میں سارا یہاں رکھ دیتا ہوں۔
اب رہا ۔۔۔بڑا عجیب سا میرے نزدیک ہے وہ سوال۔۔۔ اکھنڈ ہندوستان۔ اس زمانے کے حالات پر بہت سارے ہیں، اور چونکہ میں دے دُوں گا حوالے میں تھوڑی سی، مختصرسی بتانا چاہتا ہوں۔
اس زمانے کے حالات یہ تھے، میرے نزدیک، کہ انگریز ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہوگیا، اور مسلمانوں کی کوئی ایسی تنظیم موجود نہیں تھی جو مسلمانوں کی نمائندگی میں ان کے حقوق کی پوری طرح حفاظت کرسکے۔ مسلم لیگ جو ہے، وہ تو بعد میں اپنے زور پر آئی۔ سوال اکھنڈ ہند ۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک اس زمانے میں، سوال اکھنڈ ہندوستان کا نہیں تھا، نہ پاکستان کا 1254سوال تھا، سوال یہ تھا ۔۔۔۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ صحیح اعداد وشمار میں حاصل نہیں کرسکا، اس شخص کو کہا تھا ۔۔۔۔۔۔ سارے ہندوستان میں، میرا خیال ہے کہ غالباً کوئی بارہ، چودہ کروڑ مسلمان ہوگا۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔میری تصحیح کردیں یہاں۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: کس زمانے کی بات کر رہے ہیں آپ؟
مرزا ناصر احمد: میں، یہی سمجھے کچھ تیس چالیس کے درمیان۔
جناب یحییٰ بختیار: سات آٹھ کروڑ کے لگ بھگ۔
مرزا ناصر احمد: ٹوٹل؟
جناب یحییٰ بختیار: جی ہاں، پاکستان بننے کے کچھ دن کے بعد یہ کہتے تھے: One Hundred Million (دس کروڑ) مسلمان ہیں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، ہم کتنے ملین وہاں چھوڑ کے آئے تھے؟ کتنے کروڑ ہندوستان میں رہ گیا؟
جناب یحییٰ بختیار: ابھی آج کل ۹کروڑ ہیں، اس زمانے میں تین چار کروڑ تھے۔
مرزا ناصر احمد: اس زمانے پانچ، چھ کروڑ تھا، سات کروڑ۔ بس یہی فگرز میرے ذہن میں نہیں تھی۔ ہیں جی؟ چار کروڑ؟
جناب یحییٰ بختیار: چار کروڑ۔
مرزا ناصر احمد: چار کروڑ، تو کل دس کروڑ کے قریب بنے ناں سارے مسلمان دس گیارہ، تو اس وقت سوال یہ تھا کہ یہ دس کروڑ مسلمان جو ہندوستان میں بستے ہیں، جن کا اپنا کوئی مضبوط شیرازہ نہیں، ان کی حفاظت، ان کے حقوق کی حفاظت کس طرح کی جائے؟ اس وقت مسلمان دو School of Thought (مکتبۂ فکر) دو نظریوں میں آگئے۔