(مرزاناصر حوالہ دینے میں دیانت…)
جناب یحییٰ بختیار: مجھے یقین ہے۔ مگر ایک دو دفعہ ایسی باتیں ہوئی ہیں جس سے اسمبلی کے ممبران کو یہ شک ہوتا ہے کہ جو جواب آپ کے حق میں ہوتا ہے، اس کے حوالے آپ ضرور لے آتے ہیں، پورا جواب دیتے ہیں۔ جو جواب آپ کے حق میں نہیں ہوتا، آپ ان کو ٹالتے ہیں۔ معاف کیجئے، میں اس واسطے کہہ رہا ہوں کہ میں نے آپ سے ایک سوال پوچھا کہ ’’کیا ، یہ مرزا بشیر الدین محمود صاحب نے یہ بات کہی یا مرزا غلام احمد صاحب نے یہ بات کہی؟‘‘ آپ نے کہا: ’’نہ میں تردید کرتا ہوں اور نہ میں تائید کرتا ہوں‘‘…
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: … پھر میں نے آپ کو حوالہ پڑھ کے…
مرزا ناصر احمد: میں نے کہا: ’’جب تک میں نہ دیکھ لُوں۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، ہاں، میں…
مرزا ناصر احمد: ٹھیک۔
934جناب یحییٰ بختیار: پھر میںنے کہا: ’’مرزا صاحب! یہ ہے حوالہ ’’آپ نے کہا: ’’ہاں، یہ جواب ہم سے پوچھا گیا تھا، منیر کمیٹی میں بھی، ہم نے یہی جواب دیا۔‘‘ You have prepared answer, but still you say. (آپ نے جواب پہلے سے تیار کررکھا ہے، مگر پھر بھی آپ کہتے ہیں)’’ میں تردید بھی نہیں کرتا، میں تائیدبھی نہیں کرتا۔ ‘‘
Mirza Nasir Ahmad: No. (مرزا ناصر احمد: نہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: This is on the record.
(جناب یحییٰ بختیار: یہ تو ریکارڈ پر موجود ہے)
Mirza Nasir Ahmad: This is on record. but the inference is not on the record, and this is not true.
(مرزا ناصر احمد: یہ تو ریکارڈ پر موجود ہے، مگر نتیجہ ریکارڈ پر موجود نہیں ہے اور یہ درست بھی نہیں ہے)
Mr. Yahya Bakhtiar: No, but this is the only inference that could be drawn from it that you had the answer prepared.
(جناب یحییٰ بختیار: نہیں، لیکن اس سے صرف یہی نتیجہ نکالا کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے جواب تیار کررکھا تھا)
مرزا ناصر احمد:بالکل نہیں۔
Mr. Yahya Bakhtiar: You said you cannot verify snd you cannot deny.
(جناب یحییٰ بختیار: آپ کہتے ہیں آپ تصدیق نہیں کرسکتے اور نہ آپ تردید کرسکتے ہیں)
مرزا ناصر احمد: بات یہ ہے… میں واضح کردیتا ہوں، ماننا یا نہ ماننا آپ کی بات ہے… بات یہ ہے کہ میں نے کہا: ’’میرے علم میں نہیں‘‘…
جناب یحییٰ بختیار: اور آپ کے پاس جواب تیار تھا!
مرزا ناصر احمد: اور میرے پاس جواب تیار نہیں تھا۔ (وفد کے ایک رکن کی طرف اشارہ کرکے) ان کے پاس جواب تیار تھا، انہوں نے کہا: ’’یہ ہے اور یہ اس کا جواب ہے۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے یہ کہا: ’’منبر کمیٹی کے سامنے بھی پوچھا گیا تھا۔ منیر کمیٹی کی رپورٹ…‘‘
مرزا ناصر احمد: منیر کمیٹی کی کتاب یہاں تھی(وفد کے ایک رکن کی طرف اشارہ کرکے) ان کے پاس تھی۔ انہوں نے منیر کمیٹی کی کتاب مجھے دی اور پھر میں نے اسی وقت… اگر میں نے غلط بات…
935جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے، آپ نے Clarify (واضح) کردیا۔ مرزا صاحب! میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ایسی چیز جو ہو تو اس کے Inference (نتیجہ) کی وجہ سے، میری ڈیوٹی ہے…
مرزا ناصر احمد: اور جو یہاں غلط حوالے پیش ہوگئے ہیں، اور کتاب ہی کوئی نہ تھی!
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی ہم تو جب ہی آپ سے Clarify (واضح) کرارہے ہیں آج کل۔ اگر یہ ضرورت نہ ہوتی تو میں نے صبح عرض کیا، جہاں تک اسپیشل کمیٹی کا تعلق ہے، ان کے لئے کوئی پابندی نہیں کہ کسی کو بلائیں، کسی سے بات کریں، اور پھر بعد میں کوئی قانون بنائیں۔ نیشنل اسمبلی ہو،کوئی لیجسیلچر دنیامیںنہیں… عدالتوں میں بلایا جاتا ہے۔ نہ آپ ملزم ہیں اور نہ کوئی اور ملزم ہے جو بلانے کا…
مرزا ناصر احمد: یہ تو بڑی مہربانی ہے آپ کی!
جناب یحییٰ بختیار: مگر یہ چاہتے تھے کہ جو بھی حوالے ہوں، اگر وہ انحصار کریں تو وہ Verify (تصدیق) کریں۔ اس پر Clarification (وضاحت) ہونی چاہئے۔ جب ہی آپ نے آنے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا: ’’ٹھیک ہے، ہونا چاہئے‘‘ اس وجہ سے ہم Clarify (واضح) کررہے ہیں۔ کئی حوالے غلط ہوسکتے ہیں۔ میں خود دیکھتا ہوں، چیک کرتا ہوں، باوجود اس کے پھر بھی ہم سمجھتے ہیں کہ ممکن ہے غلط ہو۔ آپ سے اتنی گزارش کرتا ہوں کہ اگر آپ کے علم میں ہو…
مرزا ناصر احمد: اس وقت میں نے بتایا کہ اگر میرے علم میںہو…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب! علم کے علاوہ آپ کے پاس جو ڈاکو منٹس Documents (دستاویزات) ہیں وہ اور کہیں نہیں ہیں۔ بعض …
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، بات سنیں ناں، آپ شام کو کہتے ہیں کہ یہ پانچ چیزوں کو Verifyکرو…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ میں ٹھیک کہتا ہوں…
936مرزا ناصر احمد: اور میں صبح نہیں کرتا…
جناب یحییٰ بختیار: بعض دفعہ ٹائم نہیں ہوتا وہ اور بات ہے۔ ابھی اس دفعہ تو دس دن کا ٹائم بھی تھا بیچ میں۔ کئی حوالے آپ نے ڈھونڈلئے…
مرزا ناصر احمد: بہت سارے۔
جناب یحییٰ بختیار: اگر میں نے… یہی عرض کررہا ہوں ، اگر بیچ میں کوئی چیز ایسی ہوئی اور آپ کہتے ہیں کہ: ’’نہیں، نہیں ہے بالکل۔‘‘
مرزا ناصر احمد: میں یہ کبھی نہیں کہتا کہ ’’یہ نہیں ہے‘‘ میں پھر کہتا ہوں کہ ’’میرے علم میں نہیں ہے‘‘ اور جو چیز میرے علم میں نہیں ہے،اس کے متعلق میں یہ کیسے کہوں کہ میرے علم میں ہے؟ وہ آپ مجھے مشورہ دے دیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، ٹھیک ہے،
مرزا ناصر احمد: ہاں، میرے علم میں نہیں ہے۔ وہ میرے علم میں نہیں ۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں نے پوزیشن Clarify (واضح) اس لئے کرانی چاہی…
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں تو پوزیشن یہ میری ہوئی یہاں کہ جو میرے علم میں نہیں ہے، میں اتنا ذمہ دار ہوں کہ میرے علم میں نہیں ہے، اور … اس کے لئے میںنے اس دن بات کی اور آپ نے اس وقت یہ اتفاق کیا کہ پانچ دس دن پہلے پانچ دس دن بعد کے جو ہیں اخبار، وہ بھی دیکھ لئے جائیں اور میں نے کہا یہ درست ہے اور ان سب کو میں نے تاکید کی کہ اس طرح دیکھیں اور ایک حوالہ مل گیا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب! میں پھر عرض کروں، میں Interrupt (دخل اندازی) نہیںکرنا چاہتا، کیونکہ میں بھی چاہتا ہوں کہ جلدی کام ہو، اور آپ پورا Explain (واضح) کریں۔ آج صبح آپ نے فرمایا کہ: ’’۱۹۰۶ء سے لے کر ۲۲ء تک، ۲۳ سے لے کر ۴۴ تک ان سارے میں کسی جگہ ہمارے لٹریچر میں اس چیز کا سوال ہی نہیں اٹھا‘‘ تو اس غرض سے آپ نے کہا کہ پورا سٹڈی کیا آپ نے سب…
937مرزا ناصر احمد: پورا سٹڈی نہیں، پورا مشورہ کیا۔
جناب یحییٰ بختیار: پوائنٹ پر سٹڈی نہیں کرسکتے…
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں…
جناب یحییٰ بختیار: یا نہیں کرتے؟
مرزا ناصر احمد: دیکھیں نا ں، جو چیز میں صاف کہتا ہوں، اس کو بھی آپ محل اعتراض بنالیں…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،کوئی Imputation نہیں ہے، مرزا صاحب! Imputation نہیں ہے، آپ کی Integrity نہ کریکٹر پر: میں… صرف یہ Clarification (وضاحت) ضرور ہونی چاہئے تاکہ آپ کے دماغ میں یہ خیال نہ ہو…
مرزا ناصر احمد: جس کا مجھے… ہاں، بالکل صحیح ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: کہ اٹارنی جنرل نے مجھے دھوکہ دے کے سوال دلوایا۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، یہ ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ…
مرزا ناصر احمد: ۱۹۰۶ء کا وہ جو تھا مسئلہ ، وہ یہ تھا کہ ۱۹۰۶ء میں ایک نظم چھپی۔ ۱۹۱۱ء میں دیوان چھپا، جس میں وہ شعر نہیں تھا اور ۱۹۳۷ء … ہیں؟ … ۱۹۳۴ء میں اس کا ایک … اس کے متعلق چھپا۔ پھر ۱۹۴۴ء … پھر ۱۹۳۵ئ… پھر ۱۹۴۴ء میں چھپا۔ پھر وہ … ہاں، ہاں، وہ سارا چھپا۔ میں نے یہ کہا، پہلے دن ، اگر ہم نے صحیح سمجھا ہے… میں بھی انسان ہوں، یہ نہ سمجھیں کہ میں اپنے آپ کو کوئی سپر مین سمجھتا ہوں… جو میں نے ، ہم نے سمجھ لیا تھا پہلے دن ، وہ یہ تھا ’’بدر‘‘ ۱۹۰۶ء میں یہ چھپا کہ ’’یہ سنایا گیا اور جزاک اللہ، کہی گئی۔‘‘ لیکن ’’بدر‘‘ میں یہ ہے ہی نہیں کوئی ، صرف نظم ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی نظم ہے، بالکل ، وہ میں نے آپ کو پہلے ہی بتایا تھا۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، وہ تو اس دن ہوگیا معاملہ۔
938جناب یحییٰ بختیار: یعنی میں نے تو یہ کہا، مرزا صاحب! ہماری Presumption (گمان) یہ ہے … اور یہ Presumption (گمان) بالکل صحیح ہوگی، Unless you rebut it.(تاوقتیکہ آپ اس کو رد نہ کریں) کہ مرزا صاحب نے ’’بدر‘‘ ضرور پڑھا ہوگا اور اس میں یہ نظم انہوں نے ضرور پڑھی ہوگی۔ اگر ان کی موجودگی میں نہیں ہوا تو پھر یہ ہوا تھا کہ کیامرزا صاحب نے کسی اور ’’بدر‘‘ کے پرچہ میں اس کو Contradict (تردید) کرایا اور اس کے خلاف کوئی ایکشن لیا؟ یہ Inferences (نتائج) کمیٹی…
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، وہ ٹھیک ہے تو میں نے اس پر یہ جو وثوق کے ساتھ کہا، اور اب بھی کہتا ہوں، کہ اس معاملہ کے متعلق ایک اور چیز ہے، جس کو میں یہاں ذکر نہیںکروں گا۔ وہ میری کچھ ہوجائے گی ذوقی سی، سمجھ لیں کچھ۔ علیحدہ میں اگر کہیں تو میں کچھ بتادوں گا۱؎۔ ہم نے … یہ وقت ، ہمیں تو لوگوں سے پوچھا… ہمارے علماء جو ہیں ناں، وہ مناظرے کرتے رہے ہیں…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ علیحدگی میں ذوق کی تسکین کیا معنی؟ یحییٰ بختیار صاحب اللہ رب العزت کے حضور اب چل دئیے، ورنہ ان سے پوچھ لیتے۔ اب تو وہ چانس بھی نہیں رہا۔ اف! علیحدگی میں ناک رگڑنا، یہ ہر اس شخص کا مقدر ہوگا جو جھوٹ کی وکالت کرے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: ان سے دریافت کیا، تلاش کیا، پوچھ پوچھ کے، ہم نے وہ بھی نکالے ہیں حوالے، اور اس وقت تک تو پوری دیانت دارانہ تحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پہ پہنچا ہوں… اور اس کو پھر دھراتا ہوں… کہ یہ ہمارے کسی لٹریچر میں… ان مشوروں اور علماء سے، جو اس میں پچاس سال سے مناظرہ کررہے ہیں، اور اس کے اوپر بڑے اعتراض ہوئے ہیںپہلے، یہ کوئی نیا اعتراض نہیں، فرسودہ اعتراض ہے۔ تو اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے اپنے اپنے وقتوں میں جب بھی کی، کسی جگہ بھی یہ نہیں آتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ سنائی گئی اور آپ نے جزاک اللہ کہا۔‘‘ ۳۸ سال کے بعد وہ نظم لکھنے والا کہتا ہے… یہ میں نے آج صبح یہاں بیان دیا تھا اور اس پر قائم ہوں۔