(مرزا بشیر الدین محمود کی گواہی)
جناب یحییٰ بختیار: یہ مرزا بشیرالدین محمود صاحب جو ہیں، اُنہوں نے اُن کی ایک بائیوگرافی لکھی تھی:
"Ahmad, the Messanger of the latter days" (احمد، آخری دنوں کا پیغمبر) یہ اُردو میں لکھی تھی۔ اُس کا یہ ترجمہ ہوا ہے۔ تو یہ تو میں نہیں کہتا کہ جو کہہ رہے ہیں، دُرست کہہ رہے ہیں، مگر وہ موقع پر موجود رہے ہیں اور وہ یہ لاہور میں جو لیکچر دیا، اُس وقت وہ سین Describe (پیش) کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں:
"Sinse it had been known by experience that wherever he went, people of every religion and sect displayed a keen animosity towards him....."
(یہ بات تجربے میں آئی تھی کہ وہ جہاں کہیں بھی گیا ہر طبقے اور مذہب کے لوگوں نے اس کی دُشمنی کا مظاہرہ کیا)
"...... especially the so-called Musalmans."
خاص طور پر وہ جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
"The police authorities had on the occasion made very admirable arrangements for his safety."
(اس موقع پر پولیس حکام نے اس کی حفاظت کے لئے قابلِ تعریف اِنتظامات کئے تھے)
اب میں وہ Arrangements (اِنتظامات) آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں، جب وہ جلسے سے خطاب کرکے نکل رہے ہیں، وہ کہتے ہیں:
"They had, therfore, taken special precaution to ensure the safety of the Promised Messiah on his return journey from the lecture hall. First rode a number of mounted plice. Then came the carriage bearing the Promised Messiah. This was followed by a member of policemen on foot. After them there rode a number of mounted men. Thereafter walked another party of the policemen. Thus was the Promised Messiah escorted back to his residence with the greatest possible care."
(۔۔۔۔۔ چنانچہ انہوں نے مسیحِ موعود کی لیکچر ہال سے واپسی پر اس کی حفاظت کے لئے خصوصی اِحتیاطی تدابیر اِختیار کی تھیں۔ سب سے آگے پولیس گھڑسواروں کا دستہ تھا، اس کے پیچھے مسیحِ موعود کی بگھی تھی، جس کے پیچھے بہت سارے پیدل پولیس والے تھے، پھر ان کے پیچھے گھڑسواروں کا ایک اور دستہ تھا، اور آخر میں پیدل پولیس کی ایک اور پارٹی تھی۔ اس طرح مسیحِ موعود کو اپنی جائے رہائش تک انتہائی اِحتیاط کے ساتھ واپس پہنچایا گیا)
1604تو آپ دیکھیں گے کہ جہاں بھی مرزا صاحب گئے ہیں، وہ دہلی ہو، امرتسر ہو، اُس میں یہی حالت رہی ہے کہ جہاں وہ لیکچر دیتے رہے ہیں، وہاں پر بہت ہی زیادہ پولیس والے ہوتے اور خاص طور پر اُن کو ایک شکوہ مرزا بشیرالدین صاحب کو ہے: ’’جہاں یوروپین پولیس والے نہیں ہوتے، باقی پولیس والے اتنا اِحتیاط نہیں کرتے تھے۔‘‘ تو میں یہ آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وجہ تھی کہ مسلمان اتنے زیادہ اُن کی مخالفت کررہے تھے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا، ایک محدث تھے، اور یہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ دعویٰ کرنے سے پیشتر مسلمان اُن کی عزت کرتے تھے اور انہوں نے کافی خدمت کی۔ مگر جب اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا مہدی کا اور مسیحِ موعود کا، یا نبی کا، تو اتنی سخت مخالفت ہوئی، اور آپ کہتے ہیں وہ دعوے کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی، نہ اُس پر کوئی جھگڑا تھا، نہ اُس پر کوئی شک تھی، یہ سب ۱۴-۱۹۱۳ء کے بعد شروع ہوا۔
جناب عبدالمنان عمر: میری گزارش یہ ہے، میں عرض یہ کر رہا تھا کہ جب کسی شخص کی مخالفت ہو تو ضروری نہیں ہوتا کہ اُس مخالفت کے اسباب اُس شخص کی طرف سے پیدا کئے گئے ہوں، اور یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کوئی ایسا دعویٰ کر رہا ہو جو صحیح نہ ہو۔ اِس کے بعد میں نے یہ گزارش کی تھی کہ مرزا صاحب نے جب یہ دعویٰ کیا تو اس کی ایک ہسٹری ہے ہمارے پاس، اس کی ایک تاریخ ہے ہمارے سامنے۔ جنابِ والا! مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی ایک کتاب کا حوالہ میرے سامنے رکھا ہے۔ میں بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ میں اُن کو کسی جہت سے بھی اس قابل نہیں سمجھتا ہوں کہ ان کی باتوں پر اِعتماد کیا جائے یا ان کی کسی کتاب کو بطور ریفرنس کے ایک مُسلّمہ……!
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، دیکھیں ناں، مرزا صاحب! میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ میں نے کہا ممکن ہے کہ یہ غلط ہوگیا ہو۔ میں نے یہ کہا اور میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے 1605پاس کوئی اس کے علاوہ اور شہادت نہیں ہے جس کو یہ رَدّ کرے۔ ایک شخص موجود رہا ہے، باپ کے ساتھ جاتا رہا ہے، یہ بھی اپنے باپ کی عزت کرتا تھا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ جہاں بھی میرا والد جاتا گیا، لوگ اُن کو گالیاں دیتے تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں کہ جب اُن کے والد فوت ہوئے، اُن کی عمر زیادہ سے زیادہ صرف اُنیس(۱۹) سال تھی اور جب کا یہ واقعہ بیان فرما رہے ہیں اُس وقت آپ اندازہ کرلیں کہ اُن کی عمر کیا ہوگی؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مگر یہ کہ ایک بچہ اگر آٹھ سال کا بھی ہو، دس کا بھی ہو، جو پولیس ہوتی ہے، پولیس پارٹی ہوتی ہے، اور اس کی اور جگہ بھی Evidence (شہادت) مل جاتی ہے کہ مرزا صاحب جب لیکچر پر جاتے تھے تو بہت ہی زیادہ پولیس کی ضرورت پڑتی تھی۔
جناب عبدالمنان عمر: تو میں گزارش یہ کر رہا تھا کہ جس کا ہمارے سامنے حوالہ دیا گیا، وہ ایک حجت نہیں ہے۔
دُوسری گزارش میں یہ کر رہا ہوں کہ جنابِ والا! حضرت مرزا صاحب ۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو پیدا ہوئے۱؎ اور اس کے بعد یہ ۱۸۶۶ء سے ۱۸۶۸ء تک سیالکوٹ میں مقیم رہے۔ اُس وقت اُن کی پوزیشن یہ تھی کہ ’’زمیندار‘‘ اخبار کے مولانا ظفرعلی خان کے والد مولانا سراج الدین صاحب بھی اُس زمانے میں وہاں تھے۔ اُس کی شہادت اس بارے میں یہ ہے کہ مرزا صاحب نے ایک متقی اور پارسا اور دِین دار اِنسان کی سی زندگی بسر کی۔ مجھے اِجازت دیجئے گا، میں ذرا تھوڑی سی ہسٹری… اُن کی بات آپ نے کی ہے اس لئے مجھے Quote (حوالہ دینا) کرنا پڑ رہا ہے… اور وہیں علامہ اقبال کے اُستاذ شمس العلماء مولانا میرحسن صاحب اُس زمانے میں وہاں تھے۔ اُنہوں نے بھی جو شہادت مرزا صاحب کے کام کے بارے میں دی، وہ یہ تھی کہ وہ نہ صرف یہ کہ متقی، بزرگ اور پاکباز اِنسان تھے، بلکہ یہ کہ انہوں نے، اسلام کی اِشاعت کا اُن کو اتنا درد تھا کہ وہ اپنے اوقات کا بہت بڑا حصہ یا قرآن مجید کے 1606مطالعے میں صَرف فرماتے تھے، اور یا پھر وہ عیسائیوں وغیرہ کے مقابلے میں مناظرے کرکے اور اِسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے میں اپنے اوقات کو صَرف کرتے تھے۔ اِس کے بعد انہوں نے ۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۸۸۴ء تک، یہ ان کی تصنیفی زندگی کا ایک باقاعدہ آغاز ہوتا ہے، اور انہوں نے اس میں وہ اپنی معرکۃالآرا کتاب لکھی جس میں سب سے زیادہ اُن کے اِلہامات اور پیش گوئیاں درج ہیں۔ یہ میں خاص طور پر جناب کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں اُنہوں نے اپنے بہت سے اِلہامات اور اپنی وحی کو بیان کیا ہے۔ یہ ہے جہاں سے نقطئہ آغاز ہونا چاہئے اُس شخص کی مخالفت کا۔ لیکن اس کے مقابلے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ لاہوری اور قادیانی دونوں کا جھوٹ پر اِتفاق ہے، یہ تاریخِ پیدائش غلط بیان کر رہے ہیں۔ خود مرزاقادیانی کتاب البریہ میں لکھتا ہے کہ: ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں میری پیدائش ہوئی۔ خوب تماشا۔۔۔! ’’نبی صاحب‘‘ فرماتے ہیں کہ میں ۴۰-۱۸۳۹ء میں پیدا ہوا، ’’اُمت‘‘ کہتی ہے نہیںجی، آپ ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوئے۔ اچھا تھا پیدا ہی نہ ہوتے نہ اختلاف پڑتا!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میں واقعہ کیا ہے کہ اُس زمانے میں بڑے مقتدر لیڈر مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی، وہ بڑے زور سے… میں آپ کے اوقات کو زیادہ نہیں لوں گا اس میں… وہ اس کتاب کی اتنی تعریف کرتے ہیں اور اُس کو ایک تیرہ سو سال کا ایک کارنامہ بتاتے ہیں۔ اگر وحی اور اِلہام جس پر کہ مرزا صاحب نے، میں نے بتایا کہ اُن کا شروع سے لے کر آخر تک موقف جو رہا، اِس دعوے کا رہا، یہ دعویٰ ہے جو انہوں نے پہلے دِن پیش کیا، یہ دعویٰ ہے جو انہوں نے آخری دن تک پیش کیا۔ یہ دعویٰ اُس وقت موجود ہے، وحی اور اِلہام ہو رہا ہے اُن کے دعوے کے مطابق، اُس کو وہ شائع کر رہے ہیں، لیکن جو ایک بہت بڑا عالمِ دِین ہے، وہ اُس کی تعریف کرتا ہے…