(مرزا صاحب کا ذکر نہیں ہونا چاہئے)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، تو اُس زمانے میں جب اُن کو کہا گیا کہ مرزا صاحب کا ذِکر نہیں ہونا چاہئے تو اُنہوں نے کہا: پھر تو وہ بات ہی نہیں ہوئی۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، میں عرض کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: کوئی ایسی بات ہوئی تھی کہ نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، وہ لاہور کے ایک مولوی انشاء اللہ صاحب تھے، اُنہوں نے کہا کہ: ’’ہم آپ کو روپے کی اِمداد دیتے ہیں، ہم آپ کو۔۔۔۔۔۔ آپ باہر مشن 1592قائم کیجئے، اور اس طرح ہم اور آپ مل کر اِشاعتِ دِین کا کام کرتے ہیں۔‘‘ اَب اگر وہ بات ہوتی، جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے، تو ہمیں یہ Offer (پیشکش) اُس وقت قبول کرلینی چاہئے تھی۔ ہمیں مالی اِمداد بھی ملتی تھی، ہماری شہرت بھی ہوتی تھی، ہمارے لئے راستے بھی کھلتے تھے۔ ہم نے اُس سے اِنکار کردیا۔ کیا وجہ؟ معلوم ہوا کہ ہمارے سامنے نہ سستی شہرت حاصل کرنا مقصود تھا، نہ روپیہ لینا مقصود تھا۔ کیا وجہ ہوئی کہ ہم نے اس کا اِنکار کیا؟ وہ واقعہ یہ ہے… چھپا ہوا واقعہ ہے، خفیہ نہیں ہے۔ "Review" کی فائلوں میں وہ بحث موجود ہے… ہم نے اس لئے کہا، اُنہوں نے کہا کہ: ’’جناب آپ وہاں جاکے قرآن کی وہ تشریح نہ پیش کیجئے جو کہ مرزا صاحب نے آپ کو دِی۔ تشریح وہ پیش کیجئے جو ہم بتاتے ہیں۔‘‘ تو یہ تو عجیب بات تھی کہ ہم ایک شخص کو خدا کا ایک مقرب سمجھتے ہیں، اُس کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ اُس کو خداتعالیٰ رہبری کرتا ہے، وہ قرآن مجید کے معارف جانتا ہے، وہ قرآن شریف کی ایسی تفصیلات اور تشریحات دیتا ہے جو دُوسروں کے ہاں نہیں ہیں، اور ہم یہ عہد کرکے چل پڑیں کہ ہم نے وہاں اُن کا نام پیش نہیں کرنا! میں نے جو گزارش کی ہے وہ یہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ جو کہتے ہیں: ’’ہم۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے کہا کہ مرزا صاحب نے یہ اِعتراض کیا تھا، یا کسی اور نے اِعتراض کیا تھا۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ مرزا صاحب کی زندگی ہی کا واقعہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اُنہوں نے خود اِعتراض کیا تھا کہ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ اُن کے ساتھ تو یوں گفتگو نہیں چل رہی تھی، یہ گفتگو خواجہ صاحب، مولانا محمد علی صاحب اور مولوی انشاء اللہ خان صاحب کے درمیان تھی۔
جناب یحییٰ بختیار: اور خواجہ صاحب اور مولانا محمد علی راضی تھے اس بات پر کہ۔۔۔۔۔۔
1593جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، مولانا صاحب کا چھپا ہوا بیان موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ کہ ہم اس کے لئے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ضمناً میں نے سوال پوچھا۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔ تو میں گزارش جو کر رہا تھا یہ تھی کہ ہم لوگوں نے وہاں قرآن کی وہ تشریح جو ہم سمجھتے ہیں… مثال میں دیتا ہوں، کوئی راز نہیں ہے ہمارا… میں مثال یہ دیتا ہوں کہ ہم حضرت نبی کریمa کے بعد کسی قسم کے نئے یا پُرانے نبی کی آمد کے قائل نہیں ہیں۔ اب یہ تشریح ہے ہماری جو بعضے لوگوں کو پسند نہیں ہے۔ بعضے لوگ کہتے ہیں کہ پُرانا نبی آسکتا ہے، نیا نہیں آسکتا ہے۔ اب یہ تشریح میں ہمارا اور اُن کا اِختلاف ہے۔ ہم وہاں جاکر کبھی یہ نہیں کریں گے کہ جناب چار پیسے ادھر سے مل گئے ہیں، چلوجی! وہاں جاکے کہہ دوں پُرانا آسکتا ہے۔ ہم تشریح وہ کریں گے جو ہم سمجھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ نبی کریمa کامل طور پر خاتم النّبیین تھے، اور کلیۃً ہر قسم کی نبوّت، کوئی شکل نہیں نبوّت کی جو نبی کریمa کے بعد جاری ہو۔ اس لئے ہم وہاں جاکے نئے اور پُرانے والی بات نہیں کرتے ہیں، ہم ہر قسم کی نبوّت کو ختم کرنے کا وہاں اِعلان کرتے ہیں۔
میں جو گزارش کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ ہم لوگوں نے وہاں مرزا صاحب کو ایک مستقل شخصیت کے طور پر پیش نہیں کیا، ہم نے مرزا صاحب کو ایک ایسا انسان پیش نہیں کیا جس کے بعد کفر واِسلام کی نئی تشریحیں سامنے آجائیں، جس کے بعد ایک نیا معاشرہ قائم ہونے لگ جائے، جس کے بعد ایک نیا دِین اور ایک نیا مذہب اور ایک نئی ملت قائم ہونے لگ جائے۔ یہ چیز ہم نے کبھی وہاں پیش نہیں کی۔ میں گزارش کررہا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ: ’’جناب! کاہے کے لئے آپ نے، مرزا صاحب نے یہ جماعت قائم کی؟‘‘ 1594میں نے عرض کیا کہ اُس کے دو(۲) مقاصد تھے۔ ایک یہ کہ انسان کو بدیوں سے نکالا جائے۔ دُوسرا یہ کہ اُس کی، اسلام کی دُنیا میں اِشاعت کی جائے اور اُس کے لئے اُنہوں نے کچھ شرائطِ بیعت مقرّر کئے تھے جو آپ کے ریکارڈ میں موجود ہیں، آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ میں صرف اُس کی دو(۲) چیزوں کی طرف توجہ دِلانا چاہتا ہوں۔ ایک اُس کا یہ ہے کہ مقصد کیا ہے؟ یہ کہ دِین اور دِین کی عزت اور ہمدردیاں۔ اسلام کو اپنی جان، اپنے مال اور اپنی عزت، اپنی اولاد اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ عزیز سمجھے گا۔ ایک مقصد یہ تھا اور یہ دس(۱۰) شرائطِ بیعت ہیں جن میں سے نو(۹) چیزیں وہ اسی قسم کی ہیں۔ صرف دسویں شرط جو ہے، جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم نے مرزا صاحب کی بیعت کیوں کی؟ مرزا صاحب کے ساتھ ہم وابستہ کیوں ہوئے؟ ہم مرزا صاحب کے ساتھ کسی شکل میں وابستہ ہوئے؟ وہ میں آپ کے سامنے الفاظ عرض کردیتا ہوں۔ دسویں شرط یہ ہے کہ:
’’اس عاجز (یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب) سے عقدِ اُخوّت محض للہ، بااِقرارِ تحت در معروف باندھ کر اس پر تاوقتِ مرگ قام رہے گا، اور اس عقدِ اُخوّت میں بھائی کا جو بھائی چارہ ہے، اس عقدِ اُخوّت میں ایسا اعلیٰ درجے کا ہوگا، اُس کی نظیر دُنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‘‘
یہ ہے مرزا صاحب کی بیعت لینے کی غرض! یہ ہے مرزا صاحب کے جماعت بنانے کی غرض! یہ ہے مرزا صاحب کے وہ تنظیم قائم کرنے کی غرض جس کے لئے آپ نے اس جماعت کو قائم کیا! اور اس کے لئے، جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا، کسی قسم کی ڈکٹیٹرشپ کی طرف وہ نہیں جماعت کو لے کر گئے، بلکہ وہی جو مشاورت جس کو ہم کہتے ہیں، شوریٰ جس کو ہم کہتے ہیں، وأمرھم شورٰی بینھمکہ قرآن مجید کی تلقین ہے، اس کے مطابق انہوں نے ایک انجمن کی بنیاد رکھی اور اس انجمن کے قواعد وضوابط گورنمنٹ میں رجسٹرشدہ 1595ہیں، اور ان میں یہی مقاصد لکھے ہوئے ہیں، قرآن کی اِشاعت، دِین کی اِشاعت، محمد رسول اللہa کی اِشاعت، اور خدمتِ اسلام، خدمتِ بنی نوعِ انسان، خدمتِ تعلیم۔ یہ چیزیں ہیں جو ہمارے اغراض ومقاصد ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جس کے گرد، جس کی وجہ سے ہم مرزا صاحب کے گرد جمع ہوئے۔