(مرزا صاحب کی متضاد تحریریں)
جناب یحییٰ بختیار: یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ متضاد تحریریں ہوں، آپ ایک پر Depend (اِنحصار) کرتے ہیں، وہ دُوسرے پر Reply کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ یا ایسی بات نہیں ہے؟
1575جناب عبدالمنان عمر: میری گزارش یہ ہے کہ یہ قطعاً قطعاً … میں اپنی ساری عمر کے مطالعے کا خلاصہ عرض کرتا ہوں کہ مرزا صاحب کی نبوّت کے بارے میں تحریرات میں اَز اِبتدا کے اِنتہا کوئی تباین نہیں ہے۔ جو موقف پہلے دن اُنہوں نے اِختیار کیا، وہی موقف اُن کا، اُن کی وفات ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میں وفات کے وقت تک قائم تھا، اور آپ نے جو اپنی وفات سے، وفات والے دن جو اُن کی تحریر شائع ہوئی ہے اخبارِ عام میں، اُس تحریر میں بھی آپ نے وہی موقف اِختیار کیا ہے جو پہلے دن آپ نے ’’اِزالہ اوہام‘‘ یا اُس سے پہلے ’’توضیح مرام‘‘ وغیرہ میں اِستعمال کیا تھا۔ یہ کہنا کہ فلاں وقت آپ نے دعویٰ نہیں کیا، پھر اس میں کچھ تبدیلی کرلی، کچھ اِرتقاء ہوگیا، کچھ آپ نے پڑھ کر اسے کچھ دعوے شروع کردئیے، میری گزارش اس بارے میں یہ ہے کہ ہمارا موقف یوں ہے کہ قطعاً کسی قسم کا نہ اِرتقاء ہوا ہے، نہ تضاد ہے، نہ تبدیلی ہے۔ جو موقف پہلے دن تھا کہ ’’میں خداتعالیٰ جل شانہ سے، مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے۔‘‘ یہی موقف آخری دن تھا۔ جو یہ تعریف کی ’’نبوّت‘‘ کی بعضے لوگ اس کو ظِلّی اور بروزی کہہ دیتے ہیں جو ’’نبوّت‘‘ کی تعریف نہیں ہے، یہی موقف اُنہوں نے آخری دن بھی اِختیار کیا ہے۔ تو جس حد تک ہمارا تعلق ہے، ہم مرزا صاحب کی تحریرات میں نہ تناقض مانتے ہیں، نہ تباین مانتے ہیں، نہ تبدیلی مانتے ہیں اور نہ اُس میں کسی قسم کا اِرتقاء مانتے ہیں۔