• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا غلام احمد کے زلزلہ کی پیشگوئی

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا غلام احمد کے زلزلہ کی پیشگوئی


یہ پیشگوئی قادیانیوں کیلئے ایک زلزلہ سے کم نہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرزا غلام احمد کو دعوی مسیحیت کئے بہت سال ہو چکے تھے اور دعوی نبوت کئے کو بھی پانچ سال ہو رہے تھے. کہ انہیں معلوم نہیں کیا سوجھی کہ اچانک یہ اعلان کیا کہ ان پر خدا کی وحی اتری ہے کہ یہ دنیا ایک زبردست حادثہ کا شکار ہونے والی ہے جو نمونہ قیامت سے کم نہ ہو گا. سوال کیا گیا کہ یہ زلزلہ کیوں آنے والا ہے؟ مرزا صاحب نے اسکا جواب دیا کہ زلزلہ در حقیقت میری سچائی کا تازہ نشان ہو گا. مرزا صاحب نے 18 اپریل 1905ء کو ایک اشتہار شائع کیا اور رات تین بجے آنے والی وحی اس میں لکھی کہ

”آج رات تین بجے کے قریب خدا تعالیٰ کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئی جو ذیل میں لکھی جاتی ہے : تازہ نشان. تازہ نشان کا دھکہ. زلزلۃ الساعۃ .....مخلوق کو اس نشان کا ایک دھکہ لگے گا . وہ قیامت کا زلزلہ ہو گا.“ (مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 522)

پھر مرزا صاحب نے اپنے مریدوں اور جماعت کے ایک ایک فرد کو تاکید کی کہ اس اشتہار کو زیادہ سے زیادہ شائع کریں اور ایک ایک فرد تک پہنچائیں تاکہ ان کو دھکہ نہ لگے. (ایضاً)

مرزا صاحب کو اس زلزلہ کی اتنی خوشی تھی کہ 18 اپریل 1905ء کو پھر ایک اشتہار شائع کیا اور اس میں لکھا کہ

”النّداء من وحی السّماء یعنی ایک زلزلہ عظیمہ کی نسبت پیشگوئی بار دویم وحی الہٰی سے“ (مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 525)

پھر یہ بھی لکھا

”میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ عظیم الشان حادثہ جو محشر کے حادثہ کو یاد دلاوے گا دور نہیں ہے“ (مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 526)

مرزا صاحب کو اس پر بھی چین نہ آیا، زلزلہ کے قریب آنے کی خوشی میں انکے قدم زمین پر نہیں پڑتے تھے. 29 اپریل 1905ء کو پھر سے زلزلہ کی خبر بارِ سوم کے عنوان سے اشتہار شائع کیا. اور اس میں بھی سخت تباہی کی خبر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ خدا نے اسکا نام بار بار زلزلہ رکھ دیا ہے. (مجموعہ اشتہارات صفحہ 540)

مرزا صاحب نے زلزلہ آنے کی خوشی میں اپنا گھر بار تک چھوڑ دیا اور ایک باغ میں جا کر اپنے خیمے لگا دیں. (مجموعہ اشتہارات صفحہ 540) اور اس انتظار میں لگے رہے کہ کب وہ خوشی کا دن آئے کہ میری سچائی کا نشان ظاہر ہو اور میں آتے جاتے اپنے مخالفوں کو دھکہ لگاتا جاؤں. مگر افسوس کہ زلزلہ نہیں آیا اور مرزا صاحب دھکے پہ دھکے کھاتے رہے. یہ دھکہ ایسا تھا کہ کچھ عرصہ کیلئے مرزا صاحب نے زلزلہ کا اشتہار دینا بھی بند کر دیا اور اسکا نام لینے سے انکی جان نکلنے لگی. دس گیارہ مہینے خیریت سے گذر گئے نہ کوئی زلزلہ آیا نہ کوئی اشتہار شائع ہوا اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا.

ابھی لوگوں کے اس سکھ پر چند دن ہی گزرے تھے کہ مرزا صاحب نے پھر 2 مارچ 1906ء کو ایک اشتہار شائع کیا اور صبح کے وقت آنے والی یہ وحی بیان کی کہ

”آج یکم مارچ 1906ء کو صبح کے وقت پھر خدا نے یہ وحی میرے پر نازل کی جس کے یہ الفاظ ہیں زلزلہ آنے کو ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہے وہ ابھی نہیں آیا بلکہ آنے کو ہے “ (مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 548)

اس پر ایک ہفتہ نہ گزرا تھا کہ 9 مارچ کو پھر ایک منظوم اشتہار از طرف ایں خاکسار دوبارہ پیشگوئی زلزلہ کے عنوان سے شائع کر کے زلزلہ کی آمد کی خبر دی گئی. (مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 550)

اسکے بیس دن بعد 31 مارچ 1906ء کو پھر قادیان سے اعلان کیا گیا کہ زلزلہ آ رہا ہے اور مخالفین کو دھکے لگنے والے ہیں.

مرزا صاحب کے مسلسل اشتہارات سے انکے مخالفین پر تو کیا اثر پڑتا خود قادیانیوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگی کے اگر واقعی کسی زلزلے نے آنا ہے اور اس زلزلے نے مرزا صاحب کی سچائی کا نشان بننا ہے تو وہ آتا کیوں نہیں ؟ اگر خدا نے مرزا صاحب کے مخالفین کو دھکے لگانے ہیں تو ایک سال سے وہ زلزلہ کی خبر تو دے رہا ہے زلزلہ آتا کیوں نہیں آتا؟ اور مرزا صاحب کی صداقت پر آسمانی شہادت کیوں نہیں دیتا؟ کی یہ زلزلہ مرزا صاحب کی زندگی میں آ جائے گا؟ اگر نہیں آیا تو مرزا صاحب کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے گی ؟ اور پھر اس زلزلہ سے جو ایک کثیر مخلوق نے راہ ہدایت پانی ہے اسکا کیا ہو گا؟ قادیان کے نادان ان چھبتے ہوئے سوالات کو ایک دوسرے کے سامنے تو پیش کرتے تھے لیکن ان کے جوابات سے عاجز تھے. وہ اندر ہی اندر دھکے کھا رہے تھے. مرزا غلام احمد کو جب اپنے مریدوں کے یہ سوالات پہنچے تو اس نے کہا کہ فکر نہ کرو، زلزلہ میری زندگی میں ہی آئے گا. یہ خدا کی وحی ہے، آسمان و زمین ٹل جائیں گے مگر خدا کی بات اٹل ہے. مرزا صاحب ان دنوں ضمیمہ براہین احمدیہ لکھ رہے تھے. اس میں انہوں نے خدا کی وحی کا ذکر کر دیا. انہوں نے لکھا

”بار بار وحیِ الٰہی نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی ملک میں اور میرے ہی فائدہ کے لئے ظہور میں آئے گی..... ضرور ہے کہ یہ حادثہ میری زندگی میں ظہور میں آ جائے “ (روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 258)


مرزا صاحب کی عمر بڑھتی جا رہی تھی ادھر اس پر چاروں طرف سے بیماریوں نے حملہ کر رکھا تھا. قادیانی عوام پریشان حال تھے اور خود اپنے آپ سے یہ سوال کرنے پر مجبور تھے کہ مرزا صاحب کی ہر خبر کیوں غلط نکلتی ہے؟ خدا تعالی انکی بات کیوں پوری نہیں کرتا؟ جو لوگ حقیقت تک پہنچ جاتے وہ مرزا صاحب کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکتے اور اہل اسلام کی صف میں شامل ہو جاتے اور جو کسی مجبوری کی وجہ سے انکے ہتھے چڑھے ہوئے تھے وہ کسی مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے. رفتہ رفتہ یہ بات جب عام ہو گئی کہ مرزا صاحب کا زلزلہ کیوں نہیں آیا؟ اور اگر انکی زندگی میں نہ آیا تو پھر کیا ہو گا؟ مرزا غلام احمد کو مجبوراً اس کا جواب دینا پڑا. اس نے لکھا اور بڑے یقین کے ساتھ لکھا کہ

”آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں اگر وہ آخر کو معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اُس کاؔ ظہور نہ ہوا تو مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں“ (روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 253)

مرزا صاحب کے اس بیان پر قادیانیوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب بات کسی کنارے لگی. اگر یہ زلزلہ مرزا صاحب کی زندگی میں نہ آیا اور مخالفین کو دھکا نہیں لگا تو پھر قادیانیوں کی خیر نہیں. زلزلہ نہ آنا نہ صرف یہ کہ قادیانیوں کیلئے قیامت کا نمونہ ہو گا بلکہ مرزا غلام احمد کا پرلے درجے کا جھوٹا ہونا اور اللہ پر جھوٹ باندھنا بھی سب پر کھل جائے گا. مرزا صاحب اور انکے اصحاب زلزلہ آنے کیلئے دعائیں کرتے رہے. لیکن زلزلہ کو نہ انا تھا نہ وہ آیا.

مرزا غلام احمد نے براہین احمدیہ حصہ پنجم 1905ء میں لکھنی شروع کی اور اسکا ضمیمہ اسکے بھی بعد لکھا. یہ کتاب 15 اکتوبر 1908ء کو یعنی مرزا صاحب کے فوت ہونے کے تقریباً پانچ مہینے کے بعد شائع ہوئی. آپ کسی بھی قادیانی سے دریافت کریں کہ کیا مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی تھی؟ کیا براہین احمدیہ حصہ پنجم کی مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد مرزا صاحب کی زندگی میں یہ زلزلہ آیا تھا؟ اگر نہیں آیا اور یقیناً نہیں آیا تو آپ بتائیں کہ مرزا صاحب پر آنے والے زلزلہ کی بار بار وحی اختراعی یا شیطانی نہیں تو اور کیا تھی؟ اگر یہ بات رحمانی ہوتی تو خدا تعالی کی یہ بات ضرور پوری ہوتی، اللہ تعالی اپنی بات ہمیشہ پوری کرتا ہے. مرزا صاحب کی یہ بات اسلئے پوری نہیں ہوئی کہ وہ مفتری اور کذاب تھا. سو خدا تعالی نے اسی دنیا میں اسے ذلیل و رسوا کر دیا.
ہم قادیانی عوام سے گزارش کریں گے کہ وہ مرزا غلام احمد کی اس عبارت کو پھر سے پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کہ مرزا غلام احمد اپنی بات میں سچا تھا یا جھوٹا یا یہ جھوٹ کا کاروبار تھا جو اس نے چلا رکھا تھا. مرزا صاحب نے لکھا

”آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں اگر وہ آخر کو
معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اُس کاؔ ظہور نہ ہوا تو مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں“

مرزا صاحب کے دعوی کے مطابق انکی زندگی میں زلزلہ نہیں آیا اور مرزا صاحب بقلم خود کذاب ٹھہرے اور انہوں نے یہ فیصلہ دے سیا کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں. اب بھی اگر قادیانی عوام مرزا صاحب کو خدا کی طرف سے آیا ہوا مانیں تو یہ انکی بد بختی اور بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے؟ فاعتبروا يا أولي الأبصار

___________________________________
 
Top