(مرزا کی بیعت نہ کرنے والے جہنمی)
جناب یحییٰ بختیار: ضرورت نہیں۔
مرزا ناصر احمد: ہوں، اچھا جی! یہ ۳؍ جولائی کا میں نے کردیا۔
میرے پاس کوئی ہیں بیس (۲۰) پچیس (۲۵) لکھے ہوئے۔ تو سب اس میں… اگر کہیں آپ تو تین جو آپ نے… میں… اس میں جو دیئے ہوئے… یہ ہے ’’تشحیذ الاذہان‘‘ مارچ ۱۹۱۴ء ’’بیعت نہ کرنے والے جہنمی۔‘‘ یہ سوال کیا گیا تھا، یہ لکھا ہے۔ ’’تشحیذ الاذہان‘‘ میں جو موضوع زیر بحث ہے، وہ یہ نہیں کہ کون فی النار ہے، کون نہیں۔ بلکہ موضوع زیر بحث یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو (۲) کلام ہوں، واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور ان میں تضاد پایا جائے۔ تو موضوع ہی دوسرا ہے۔ وہاں یہ لکھا ہے کہ:
’’الہامات کا باہمی تناقض اور اختلافات اسلام کو سخت ضرر پہنچاتا ہے۔‘‘ یعنی اگر یہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دو (۲) الہام ہیں، واقعہ میں اور ان کے اندر تضاد پایا جاتا ہے تو یہ تو اسلام کو بڑا نقصان پہنچانے والا ہے، کیونکہ قرآن کریم کی واضح ہدایت862 کے خلاف ہے یہ بات سورۂ ملک میں، تفصیل میں نہیں جاتا--- اس میں بڑی وضاحت سے یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات اور ان کے جو ظہور ہیں ان کے اندر کبھی کوئی اختلاف تمہیں نظر نہیں آئے گا۔ بہرحال، یہاں یہ موضوع ہے زیربحث:
الہامات کا باہمی تناقض اور اختلافات اسلام کو سخت ضرر پہنچاتا ہے اور اسلام کے مخالفوں کو ہنسی اور اعتراض کا موقع ملتا ہے اور اس طرح پر دین کا استخفاف ہوتاہے، حالانکہ یہ کیونکر ہوسکے کہ ایک شخص کو خدا تعالیٰ یہ الہام کرے کہ تو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ اور اس زمانہ کے تمام مؤمنوں سے بہتر اور افضل اور مسیح الانبیاء اور مسیح موعود اور مجدد چودھویں صدی اور خدا کا پیارا اور اپنے مرتبہ میں نبیوں کے مانند اور خدا کا مرسل اور اس کی درگاہ میں وجیہ اور مقرب اور مسیح ابن مریم کے مانند ہے اور ادھر دوسرے کو یہ الہام کرے کہ یہ شخص فرعون اور کذاب اور مسرف اور فاسق اور کافر ہے اور ایسا اور ایسا ہے، اس شخص کو تو یہ الہام کرے کہ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیںہوگا اور تیرا مخالف رہے گا، وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور اس وجہ سے جہنمی ہے اور پھر دوسرے کو الہام کرے کہ جو اس کی پیروی کرتے ہیں وہ شقاوت کا طریق اختیار کرتے ہیں۱؎۔‘‘
تو یہاں بات ہورہی ہے الہاموں کی، اپنی طرف سے کسی اعلان کی بات نہیں اور اصل جو سوال ہے زیر بحث وہ یہ ہے کہ جو دو (۲) الہامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے نازل ہوں، ان کے اندر تضاد جو ہے وہ نہیں ہوسکتا۔ (تشحیذ الاذہان اگست،۱۹۱۷ء ص۵۸،۵۷)
اس میں ، سوال میں --- جہاں تک ہم نے نوٹ کیا --- یہ تھا کہ یہاں یہ لکھا ہے کہ: ’’صرف ایک ہی نبی ہوگا۔‘‘ تو جہاں تک اس فقرے کا --- اگر نوٹ صحیح کیا گیا ہو--- تعلق ہے تو یہ فقرہ کہیں نہیں لکھا ہوا۔ جو لکھا ہوا ہے، وہ ایک دوسری بات ہے۔ وہ یہ ہے، میں پڑھ دیتا ہوں:
863’’وہ لوگ جو بار بار کہتے ہیں کہ اسلام میں ایک ہی نبی کیوں ہوا؟ بہت سے نبی ہونے چاہئیں ، ان کو چاہئے کہ ختم نبوت کے اس امتیازی نشان کو ذہن میں لاویں کہ آنحضرتﷺ خدا کی مہر ہیں۔ خدا نے اپنی مہر کے ذریعہ جس کسی کے نبی ہونے کی تصدیق کی وہی نبی ثابت ہوسکتا ہے۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ کیوں خدا کی مہر نے صرف ایک ہی کو نبی قرار دیا۔ سو یہ اعتراض ہم پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت پر ہے۔ اگر ہماری حکومت خدا پر ہوتی یا اس کی مہر پر ہوتی تو بلاشبہ یہ سوال ہم پر پڑ سکتا تھا۔ خدا اپنی مہر کے ذریعہ بہت سے انبیاء ہونے کی پیش گوئی فرماتا--- تو ہمیں اس کو ماننے سے بھی کوئی چارہ نہ تھا۔ اب جب کہ خدائی مہر صرف
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ مرزا ناصر نے خود تسلیم کیا کہ قادیانی عقیدہ کے مطابق مرزا پر الہام نازل ہوا کہ ’’تیرا مخالف جہنمی ہے‘‘ تمام مسلمان مرزا کو نہیں مانتے، لہٰذا تمام مسلمان، قادیانی عقیدہ کے مطابق جہنمی ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک ہی کو نبی قرار دیتی ہے تو ہم کون ہیں جو کہیں کہ صرف ایک ہی نبی کیوں ہوا؟۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس سوال کا یہی جواب دیا ہے۔‘‘
آگے وہ اقتباس ہے: ’’ایک شخص نے سوال کیا کہ ’’آپ نبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟‘‘فرمایا ’’ہاں، کہ تمام اکابر اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ اس امت مرحومہ کے درمیان سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا ہمیشہ جاری ہے۔ اس معنی سے (مکالماتِ الٰہیہ--- اس معنی سے ) ہم نبی ہیں۔ ورنہ ہم اپنے آپ کو امتی کیوں کہتے؟ (یعنی امتی نبی، یعنی امتی کا پہلو بھاری ہے) ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو فیضان کسی کو پہنچ سکتا ہے--- جو فیضان کسی کو پہنچ سکتا ہے--- وہ صرف آنحضرتﷺ کی پیروی سے پہنچ سکتا ہے۔ اس کے سوائے اور کوئی ذریعہ نہیں۔ ایک اصطلاح کے جدید معنی اپنے پاس سے بنالینا درست نہیں ہے۔ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ آنے والا مسیح نبی864 بھی ہوگا اور امتی بھی ہوگا۔ امتی تو وہ ہے کہ جو آنحضرتﷺ سے فیض حاصل کرکے تمام کمال حاصل کرے--- آنحضرتﷺ سے فیض حاصل کرکے تمام کمال حاصل کرے --- لیکن جو شخص پہلے ہی نبوت کا درجہ پاچکا ہے، وہ امتی کسی طرح سے بن سکتا ہے۔ وہ تو پہلے ہی سے نبی ہے۔‘‘ سائل نے سوال کیا:
’’اگر اسلام میں اس قسم کا نبی ہوسکتا ہے تو آپ سے پہلے کون نبی ہوا ہے۔‘‘ حضرت نے فرمایا: ’’یہ سوال مجھ پر نہیں، بلکہ آنحضرتﷺ پر ہے۔ انہوں نے صرف ایک کا نام نبی رکھا ہے۔ اس سے پہلے کسی آدمی کا نام نبی نہیں رکھا۔ اس سوال کا جواب دینے کا اس واسطے میں ذمہ دار نہیں ہوں۱؎۔‘‘
تو اس سے یہ بات ساری ہوگئی ہے۔ ’’صرف ایک ہی نبی ہوگا‘‘ یہ بحث ہی نہیں ہے۔ بحث دوسری ہے وہاں۔ ’’الفضل‘‘ ۱۳نومبر، ۱۹۴۴ء کہ: ’’پارسیوں کی طرح---‘‘ (اپنے وفد کے ایک رکن سے) نکالیں ’’الفضل‘‘
جناب یحییٰ بختیار: (سیکرٹری سے)کہاں ہے ’’الفضل‘‘؟
مرزا ناصر احمد: ’’پارسیوں کی طرح علیحدہ اپنا مطالبہ کرلیا۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱ ؎ گویا تسلیم کرلیا کہ حضور نبی کریمﷺ کے بعد ایک نبی بننا تھا اور وہ مرزا قادیانی ہے۔ مرزا کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ گویا نبوت آنحضرتﷺ پر ختم نہ ہوئی ، مرزا پر ختم ہوئی۔ مرزا قادیانی خاتم النّبیین ہیں۔ یہ ہیں قادیانی کفریات جس کے باعث امت نے ان کو اپنے سے علیحدہ قرار دیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: ۱۳؍نومبر، ۱۹۴۶ء ۔
مرزا ناصر احمد: ۱۹۴۶ء یہ ہے، ۱۳ نومبر ۱۹۴۶ء یہ جو ہے، اگر یہ خطبہ سارا پڑھ لیا جاتا تو سوال آنا ہی نہ تھا سامنے۔ میں پہلے مختصر بتادیتا ہوں۔
865اس خطبے میں یہ ہے کہ جس وقت یہ بحث چلی کہ کون کون سے علاقے جو ہیں وہ پاکستان میں آئیں گے اور کون سے دوسری طرف جائیں گے تو اس وقت ایک فتنہ یہ کھڑا ہوا کہ احمدی چونکہ اپنے آپ کو علیحدہ سمجھتے ہیں اس لئے ملت اسلامیہ کے دائرہ میں ان کو نہ سمجھا جائے اور تعداد کے لحاظ سے مسلمان کم ہوجاتے ہیں۔ پھر خصوصاً گورداسپور کا علاقہ جو ہے اس میں ۵۱ اور ۴۹ کی نسبت سے مسلم اور غیر مسلم تھے اور یہ ۵۱ کی نسبت، اس میں جماعت احمدیہ، جو گورداسپور میں بہت بڑی تعداد میں تھی، وہ بھی شامل تھا۔ تو یہ ہندوؤں نے ایک چال چلی تھی۔
اس وقت مسلم لیگ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے اس وقت کے خلیفہ جماعت احمدیہ جن کو ہم خلیفہ ثانی کہتے ہیں، انہوں نے مسلم لیگ سے سر جوڑا اور مسلم لیگ کے مؤقف کو مضبوط بنانے کے لئے ایک پلان تیار کیا اور یہ سارا اس خطبے کے اندر ہے سارا، اور مسلم لیگ کے مشورے کے ساتھ یہ سوال اٹھایا کہ ’’تم پارسیوں کو علیحدہ حقوق دیتے ہو تو ہمیں کیوں نہیں دیتے؟‘‘ یعنی مسلم لیگ نے کہا کہ ’’ہمیں فائدہ پہنچے گا کہ تم یہ کرو۔‘‘ تو In collusion with Muslim League, he did what he did. ( اس نے جو کچھ کیا مسلم لیگ سے ساز باز کرکے کیا) اور میںکہیں تو سارا ’’الفضل‘‘پڑھ دیتا ہوں اور کہیں تو اس کو یہ ریکارڈ کے لئے شامل کردیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: اس کو فائل کردیں۔
جناب چیئر مین: شامل کردیں اس کو۔
مرزا ناصر احمد: ہاں! اس میں یہ شروع ہوتا ہے ’’دہلی کا سفر اور اس کی غرض۔‘‘ ’’دہلی کا سفر اور اس کی غرض۔ ‘‘ اس کے اوپر وہ سرخ نشان لگے ہوئے ہیں جہاں سے یہ اصل مضمون شروع ہوا ہے اور مسلم لیگ کی خدمت کے لئے یہ سارا کچھ کیا گیا تھا۔ صرف ایک فقرے سے تو کچھ نہیں ہوتا، لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
866ویسے ہماری تاریخ نے ۲۳؍ جنوری ۱۹۴۶ء میں اس چیز کو ریکارڈ کیا ہے۔ تاریخ Sub-continent (چھوٹا براعظم) کہ اہل حدیث کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ان کو جداگانہ حق ملنا چاہئے ۔ یہ میں بیچ میں ہی رہنے دیتا ہوں۔