• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(مرزا کی عیاری)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا کی عیاری)
جناب والا! پیشتر ازیں کہ میں اس دعوے کے اثرات کی تفصیل میں جاؤں میں مختصراً یہ عرض کروں گا کہ مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد کن حالات میں جلسوں وغیرہ کو خطاب کیا۔ جناب والا! اس سے مرزاغلام احمد کے دعویٰ نبوت کا ایک اور پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس کی زندگی تین مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلا، دوسرا، تیسرا! ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاغلام احمد کی زندگی کے تیسرے مرحلے میں بھی ایک ایسا بیان ملتا ہے جس کی مثل پہلے مرحلہ میں بھی موجود ہے۔ جس میں وہ نبوت کے دعوے کا انکاری ہے اور کہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ تھا اور یہ نہیں تھا۔ وغیرہ، وغیرہ! میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی مرزاغلام احمد کی مخالفت شدت اختیار کر جاتی تھی یا جب بھی وہ اپنے آپ کو لاجواب پاتا تھا تو وہ اپنی بات تبدیل کر لیتا تھا۔ لیکن بعد میں پھر نہایت ہوشیاری اور مکاری سے (بات کو بدل کر) اپنی نبوت کا اعلان کر دیتا تھا۔
جناب والا! نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد ۱۸۹۱ء میں وہ دہلی جاتا ہے۔ یہاں میں مرزابشیرالدین احمد محمود کی کتاب ’’احمد یا آخری دنوں کا پیغامبر‘‘ کے ص۳۲تا۳۴ کا حوالہ دوں گا۔ ممکن حد تک میں اختصار سے کام لوں گا۔ تاہم عرض کرنا ضروری ہے کہ ایسے جلسوں میں کیا ہوتا رہا۔ جس کی وضاحت میں بعد میں کروں گا: ’’بحث مباحثہ کے لئے جامع مسجد بطور جائے مناظرہ مقرر کی گئی تھی۔ یہ تمام امور مخالفین نے خود طے کئے تھے اور احمد کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی۔ جب بحث مباحثہ کا وقت آیا، دہلی کا حکیم عبدالمجید خان گاڑی لے کر آیا اور مسیح موعود کو جامع مسجد جانے کی درخواست کی۔ مگر مسیح موعود نے جواب دیا کہ لوگوں کے جوش اور ولولہ کے مدنظر نقص امن کا خطرہ ہے۔ اس لئے جب تک پولیس انتظامات نہ کرلے وہ (مسیح موعود) وہاں نہیںجائے گا۔ مزید کہا کہ بحث مباحثہ کے متعلق اس سے پہلے مشورہ کیا جانا چاہئے تھا اور بحث مباحثہ کی شرائط پہلے طے ہونا فریقین کے مابین ضروری تھیں۔ مرزاغلام احمد کی جامع مسجد سے غیرحاضری کے باعث عوام کا جوش وخروش اور زیادہ ہوگیا۔ اس لئے مرزاغلام احمد نے اعلان کیا کہ اگر دہلی کے مولوی نذیر حسین جامع مسجد کے اندر قرآن پر حلف لے کر کہیں کہ قرآن مجید کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور وفات نہیں ہوئی اور ایسی قسم لینے کے ایک سال کے اندر اندرمولوی نذیر حسین پر عذاب الٰہی نازل نہ ہوا۔ تب مرزا غلام احمد جھوٹا قرار پائے گا اور وہ اپنی تمام کتابیں جلا دے گا۔ اس نے حلف لینے کی تاریخ بھی مقرر کر دی۔ مولوی نذیر حسین کے حمایتی اس تجویز سے بہت پریشان ہوگئے اور راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ لیکن عوام بضد تھے۔ عوام کا کہنا تھا کہ مولوی نذیر حسین، مرزاغلام احمد کی تجویز سن لیں اور قسم لے لیں کہ وہ جھوٹا ہے۔ جامع مسجد میں ایک جم غفیر جمع تھا۔ لوگوں نے مسیح موعود کو مشورہ دیا کہ وہ مسجد میں نہ جائیں۔ کیونکہ شدید ہنگاموں کا خطرہ موجود تھا۔ تاہم وہ اپنے بارہ ’’حواریوں‘‘ کے ہمراہ وہاں گیا۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھی بارہ حواری تھے۔ یہ بارہ کی تعداد بذات خود ایک اشارہ تھا۔ جناب والا! اس کا نوٹس لیا جائے) جامع مسجد کی بہت بڑی عمارت اندر اور باہر سے آدمیوں سے بھری پڑی تھی۔ حتیٰ کہ سیڑھیوں پر بھی عوام کا ہجوم تھا۔ انسانوں کے اس سمندر سے جن کی آنکھوں میں غم وغصہ کے سبب خون اترا ہوا تھا۔ مسیح موعود اور اس کی مختصر سی جماعت گذر کر محراب تک پہنچے اور اپنی جگہ سنبھال لی۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور دیگر افسران بمعہ تقریباً ایک سو سپاہیوں کے امن قائم کرنے کی خاطر وہاں آئے ہوئے تھے۔ ہجوم کے اندر بہت سے لوگوں نے اپنی قمیصوں کے اندر پتھر چھپا رکھے تھے اور ذرا سے اشارہ پر یہ پتھر وہ احمد اور اس کے ساتھیوں کو مارنے کے لئے بالکل تیار بیٹھے تھے۔ اس طرح مسیح ثانی کو مکاری سے شکار کرنا مقصود تھا۔ وہ مسیحا ثانی کو سولی پر لٹکانے کی بجائے سنگسار کرنا چاہتے تھے۔ زبانی بحث مباحثہ میں جو اس کے بعد ہوا وہ ناکام رہے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے مسئلے پر بحث کرنے پر رضامند نہ ہوئے۔ ان میں سے کوئی بھی مجوزہ حلف لینے کو تیار نہ تھا اور نہ ہی مولوی نذیر حسین کو حلف لینے کی اجازت دے رہے تھے۔ اس مرحلہ پر خواجہ محمد یوسف پلیڈر علیگڑھ نے مسیح موعود سے اس کے ایمانی عقائد کے بارے میں ایک تحریری بیان لیا اور (عوام کے سامنے) پڑھنے کے لئے تیار ہوا۔ لیکن چونکہ مولویوں نے عوام سے کہہ رکھا تھا کہ مسیح موعود نہ قرآن نہ فرشتوں اور نہ ہی نبی کریم ﷺ کو مانتا ہے۔ اس لئے ان کو خطرہ تھا کہ مذکورہ بالا تحریری بیان پڑھنے سے ان کا فریب ظاہر ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے عوام کو اکسایا۔ فوراً ہی ایک قطار بنادی گئی اور اس طرح خواجہ یوسف کو بیان پڑھنے سے روک دیا گیا۔ افسران پولیس نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سپاہیوں کو ہجوم منتشر کرنے کا حکم دے دیا اور اعلان کر دیا کہ کوئی بحث مباحثہ نہیں ہوگا۔ اس پر ہجوم منتشر ہوگیا۔ پولیس نے مسیح موعود کے گرد گھیرا ڈال دیا اور (حفاظت سے) اسے مسجد سے باہر نکالا۔‘‘
جناب والا! یہ اقتباس تفصیل کے ساتھ پڑھنے کے میرے دو مقاصد ہیں۔ ابھی میں کچھ اور حوالہ جات بھی پڑھوں گا۔ سب سے پہلے یہ کہ اس (مسیح موعود) نے کیا کہا اور کیا لکھ کر دیا تھا۔ جب کہ اسے مخالف عوام کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ۲۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کا ذکر ہے۔ الفاظ یہ ہیں: ’’ان تمام امور میں میرا وہی مذہب ہے جو دیگر اہل سنت والجماعت کا ہے… اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا جامعہ مسجد دہلی میں کرتا ہوں اور میں خاتم الانبیاء کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۵۵)
 
Top