(مرزا کی موت کے دن کیا ہوا؟)
’’انتقال کے نصف گھنٹہ کے اندر لاہوری عوام کا ہجوم اس مکان کے سامنے جمع ہوگیا۔ جس میں اس کی میت رکھی ہوئی تھی اور خوشی کے ترانے گانے شروع کر دئیے۔ اس طرح اپنے دلوں کی تاریکی کا مظاہرہ کیا۔ کچھ لوگوں نے بھونڈے طور پر ناچنا شروع کر دیا۔ جس سے ان کی فطری کمینگی ظاہر ہوتی ہے۔‘‘
جناب والا! مجھے افسوس ہے کہ میں نے ان جلسوں کا جسے مرزاغلام احمد نے خطاب کیا۔ ذکر کرنے میں کافی وقت لیا ہے۔ سوائے ایک حد کے جس میں اس نے اسلام کے تحفظ کے لئے عیسائیوں سے مناظرہ کیا۔ مرزاغلام احمد نے جب کبھی بھی اپنے دعویٰ نبوت کا پرچار کرنا چاہا یا کوشش کی تو اسے شدید مخالف قسم کے عوام کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پولیس حفاظت کے بغیر ایک جلسہ کو بھی خطاب نہ کر سکا اور پولیس بھی وہ جو کہ یورپین افسروں اور جوانوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ جب میں نے مرزاغلام احمد کی موت کے موقع پر خوشی کے ترانوں کا ذکر کیا تو میرا مقصد معزز اراکین کی توجہ اس پیش گوئی کی طرف دلانا تھا۔ جو مرزاغلام احمد نے مولوی ثناء اﷲ کے متعلق کی تھی۔ لوگوں نے جان لیا کہ مرزاغلام احمد کی بددعا کا اثر اس کی اپنی ذات پر ہی ہوا۔