(مرزا کے دعویٰ نبوت کی بناپر مسلمان ان کے مخالف ہوگئے)
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں، دیکھیں، صاحبزادہ صاحب! ایک معمولی سی بات ہے، ایک کتاب لکھتا ہے ایک شخص بڑی محنت سے، چار سال لگتے ہیں، چار پانچ ان کے Volume ہیں، عام ملک میں ہمارے جو مسلمان ہیں، وہ پڑھے لکھے لوگ نہیں ہوتے۔ بہت کم لوگ پڑھتے ہیں۔ ویسے بھی اتنی بڑی کتاب کون پڑھیں گے؟ پانچ پڑھیں گے، دس پڑھیں گے، سو پڑھیں گے۔ تو لوگوں کو علم نہیں ہوتا تمہارا۔ ایک شخص یہ اِشتہار جاری کردیتا ہے کہ: ’’میں نبی ہوں!‘‘ تب لوگوں کو خیال آجاتا ہے کہ بھئی! کیا بات ہوگئی؟ تو میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کیا بات ہوگئی کہ ایک دم ۔۔۔۔۔۔ ایک شخص نے خدمت بھی کی، میں آپ سے اِتفاق کرتا ہوں کہ عیسائیوں کے خلاف، آریہ سماجیوں کے خلاف مناظرے کئے، پمفلٹ لکھے، اِشتہار لکھے، خدمت کی انہوں نے اور مسلمان ان کی بڑی قدر کررہے تھے اور اچانک ایک دَم اتنے ان کے مخالف ہوگئے کہ ہر جگہ اُن کو گالیاں 1608پڑرہی ہیں، پولیس کی Protection (حفاظت) کیوں؟ اگر اُس شخص نے نبی کا دعویٰ نہیں کیا، ایسی کون سی بات تھی کہ جس سے مسلمان اتنے سیخ پا ہوگئے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش یہ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ناراض نہیں ہوئے، تو اور بات ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی مخالفت نہیں ہوئی تو اور بات ہے۔ اگر آپ مانتے ہیں کہ اُس زمانے سے شروع ہوگئی اور بڑے زور سے شروع ہے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں جو گزارش کر رہا ہوں وہ یہ نہیں ہے کہ میں ان کی کتاب ’’براہینِ احمدیہ‘‘ کی کسی عظمت کا ذِکر کر رہا ہوں۔ میرا یہ موقف نہیں ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ شروع سے لے کر آخر تک ’ملہم من اللہ‘ ہونے کا تھا، مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ کا تھا۔ اِس دعوے پر وہ پہلے دن آئے، اِس دعوے پر وہ ساری عمر رہے اور اِس دعوے پر انہوں نے اپنی زندگی کو ختم کیا۔ میرے گزارش کرنے کا منشا یہ ہے کہ اگر وہ معتقدات، اگر وہ دعوے، اگر وہ وحی، اگر وہ اِلہام، اگر وہ مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ جس کا انہوں نے دعویٰ کیا تھا، اِس قدر اِشتعال انگیز تھا تو کم سے کم عوام نہ سہی… آپ کہتے ہیں کہ عوام نے نہیں پڑھا… میں تو اُس زمانے کے چوٹی کے علماء کا ذِکر کرتا ہوں، چوٹی کے لیڈروں کا ذِکر کرتا ہوں، اُس زمانے کی فعال جماعت کا ذِکر کرتا ہوں، کہ اُن لوگوں نے اُس کتاب کو دیکھا اور یہ نہیں کہ نظرانداز کردیا۔ اُس کتاب کو دیکھ کے انہوں نے اس پر تبصرے کئے، اُس کتاب کو دیکھ کر اپنے خیالات کا اِظہار کیا اور میں گزارش کروں کہ یہ وہ کتاب ہے جس کا ہزارہا کی تعداد میں اُس زمانے میں… اندازہ کیجئے ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۴ء تک کا زمانہ… اُس زمانے میں اِس کتاب کا ہزارہا کی تعداد میں انگریزی زبان میں اِشتہار شائع کیا گیا اور اُردو زبان میں شائع کیا گیا ہے اور اِس کے نسخے، مجھے پیچھے جب جانے کا اِتفاق ہوا، وہاں امریکا اور انگلینڈ 1609میں، تو وہاں کی لائبریریوں میں اُس زمانے کے بھی رکھے ہوئے نسخے موجود تھے۔ تو یہ چیزیں جو ہیں، یہ نہیں کہ یہ کتاب Unknown (غیرمعروف) رہی ہے، یہ نہیں کہ عوام کو اس کا علم نہیں ہوا ہے۔ یہ بڑے بڑے رُؤسا سے لے کر عام آدمی تک اور معمولی پڑھے لکھوں سے لے کر بہت بڑے علماء تک کی نظروں سے یہ کتاب گزری ہے، اور ان کا یہ دعویٰ، اور اِلہام اور وحی کا، اُس میں موجود ہے اور اس کو انہوں نے پڑھا ہے، اور اُس وقت اُن کو اِشتعال پیدا نہیں ہوا۔
اس کے بعد میں گزارش یہ کروں گا جناب! کہ ۱۸۹۳ء میں پنجاب کی سب سے بڑی دِینی جماعت انجمن حمایتِ اسلام اپنا ایک اِجلاس منعقد کرتی ہے، اور اس کی صدارت کے لئے کس کو چنتی ہے؟ انہی مرزا صاحب کے سب سے بڑے مرید مولانا نورالدین کو۔ وہ اُن کے جلسے کی صدارت کرتے ہیں، وہ اس میں قرآن مجید کی تفسیر بیان فرماتے ہیں۔ اُس میں وہ ایک بڑا تفصیلی لیکچر دیتے ہیں۔ اگر اُن کے خلاف یہی بات تھی کہ یہ لوگ کوئی جلسہ کرہی نہیں سکتے تھے یا عوام کو خطاب ہی نہیں کرسکتے تھے، اُن کی اتنی شدید مخالفت تھی کہ ان کے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے! میں مرزا صاحب کا کہہ رہا ہوں، آپ دُوسری طرف چلے جاتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: یعنی میں مرزا صاحب کی زندگی کی بات عرض کر رہا ہوں۔ اُن کے سب سے بڑے مرید کی بات کر رہا ہوں۔