• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(مزید تنقیحات مقدمہ)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مزید تنقیحات مقدمہ)
۱… کیا مدعا علیہ کی سکونت بوقت دائری دعویٰ ہذا حدود ضلع ہذا میں تھی۔ یا یہ کہ بناء دعویٰ حدود ضلع ہذا میں پیدا ہوئی۔ اس لئے دعویٰ قابل سماعت عدالت ہذا ہے۔
۲… اگر تنقیح بالا بخلاف مدعیہ طے ہوتو کیا عدالت ہذا کے اختیار سماعت کا سوال اس مرحلہ پر جب کہ مقدمہ پہلے عدالت ہائے اعلیٰ تک پہنچ چکا ہے اور مدعا علیہ برابر پیروی کرتا رہا ہے۔ نہیں اٹھایا جاسکتا۔
۳… کیا ڈگری ملک غیر کی بناء پر جو بحق مدعا علیہ برخلاف مدعیہ صادر ہوئی ہے۔ سماعت مقدمہ ہذا میں دفعات ۱۳،۱۴ ضابطہ دیوانی عارض نہیں ہیں۔ ان تنقیحات کے وضع کرنے سے قبل مدعا علیہ کی طرف سے محکمہ معلی وزارت عدلیہ میں پیش گاہ حضور سرکار عالی دام اقبالہ وملکہ میں پیش کئے جانے کے لئے ایک درخواست مشتمل برعذرات مذکورہ بالا موصول ہوئی جو بمراد غور 2126عدالت ہذا میں بھجوا دی گئی۔ اس درخواست کے مطالعہ سے یہ ضروری خیال کیاگیا کہ مدعا علیہ کی طرف سے بحث پیش ہونے سے قبل ان قانونی عذرات مذکورہ بالا کو طے کر لیا جاوے۔ اس لئے ۳؍نومبر ۱۹۳۳ء کو فریقین کے نام نوٹس بایں اطلاع جاری کئے جانے کا حکم دیاگیا کہ وہ تاریخ مقررہ پر اپنے علماء کو ہمراہ نہ لاویں۔ بلکہ خود حاضر ہوں تاکہ ان قانونی سوالات پر غور کیا جاکر انہیں طے کر لیا جاوے۔ مدعیہ کی طرف سے عدالت ہذا کے اس حکم کی ناراضی سے محکمہ معلی اجلاس خاص میں درخواست نگرانی پیش کی گئی ہے اور محکمہ معلی نے بحکم ۷؍نومبر ۱۹۳۳ء یہ قرار دیا کہ فریق مدعیہ پر تعمیل نوٹس درست نہیں ہوئی۔ لہٰذا یہ ہدایت کی گئی کہ سلسلہ بحث اور جدید امور کی دریافت کو ساتھ ساتھ جاری رکھا جاوے اور اگر کسی فریق کے حق میں التواء مقدمہ ضروری خیال کیا جاوے تو دوسرے فریق کو اس فریق سے مناسب ہرجانہ دلایا جاوے۔ باتباع اس حکم کے فریقین کو جدید تنقیحات کے متعلق اپنا اپنا ثبوت پیش کرنے کی ہدایت کی گئی اور مختاران مدعا علیہ کو حکم دیاگیا کہ وہ اپنی طرف سے سلسلہ بحث کو بھی جاری رکھیں۔ اس کے بعدجب جدید تنقیحات مذکورہ بالا کے متعلق طرفین کی شہادت ختم ہوچکی تو مدعا علیہ نے پھر ۲؍جنوری ۱۹۳۴ء کو ایک درخواست کے ذریعہ یہ عذر برپا کیا کہ امور ذیل کو بھی زیر تنقیح لایا جاوے۔
کہ کیا مدعا علیہ کی وطنیت ریاست بہاول پور میں واقع ہے؟
اگر تنقیح بالا مدعیہ کے خلاف ثابت ہو تو پھر بھی عدالت ہذا کو اختیار سماعت حاصل ہے۔ اس درخواست کو اس بناء پر مسترد کیاگیا کہ مدعاعلیہ کی طرف سے اس قسم کا پہلے کوئی عذر نہیں اٹھایا گیا۔ حالانکہ وہ پہلے قانونی مشورہ حاصل کر کے پیروی کرتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں جہاں تک اس کے اس جدید عذر کا قانونی پہلو ہے۔ اس کے متعلق وہ اپنی بحث کے وقت قانون پیش کر سکتا ہے۔ واقعات کے لحاظ سے فریقین کی طرف سے مسل پر جو مواد لایا جاچکا ہے وہ اس سوال پر بھی بحث کرنے کے لئے کافی ہے۔ لہٰذا کسی مزید تنقیح کے وضع کرنے کی ضرورت خیال نہیں کی جاتی۔
اس سے قبل دوران شہادت میں مدعا علیہ کی طرف سے ایک حجت یہ بھی پیدا کی گئی تھی کہ 2127مدعیہ بوقت ارجاع نالش نابالغ تھی۔ اس لئے اب اس سے خود دریافت ہونا چاہئے کہ وہ مقدمہ چلانا چاہتی ہے یا نہ۔ لہٰذا اس سوال کے متعلق بھی یکم؍مارچ ۱۹۳۳ء کو ایک تنقیح بایں الفاظ وضع کیاگیا تھا کہ کیا مدعیہ بوقت ارجاع نالش نابالغ تھی اور اس کا بار ثبوت مدعا علیہ پر عائد کیاگیا۔ کیونکہ مدعیہ کی طرف سے اسے نابالغ ظاہر کیا جاکر بمختاری والدش دعویٰ دائر کیاگیا تھا۔ لیکن بعد میں اس تنقیح کو بحکم ۲۹؍مارچ ۱۹۳۳ء خارج کیاگیا۔ کیونکہ قانوناً مدعا علیہ کا یہ عذر ناقابل پذیرائی تھا۔ ملاحظہ ہو ۷۴؍انڈین کیسز ص۳۰۹، اب ذیل میں دیگر قانونی سوالات پر بحث کی جاتی ہے۔
مدعا علیہ کا اہم عذر یہ ہے کہ اس نے کبھی حدود ریاست ہذا میں سکونت اختیار نہیںکی اور نہ ہی اس نے یہاں احمدی مذہب قبول کیا ہے۔ بلکہ وہ ۵،۶ سال تک شیخوپورہ میں رہا ہے۔ وہاں سے اس نے سال ۱۹۲۲ء میں ایک خط کے ذریعہ مرزاصاحب کے خلیفہ ثانی کے ساتھ بیعت کی تھی اور بیعت کرنے کے ۵،۶ ماہ بعد اس نے اپنے موجودہ مسکن واقعہ علاقہ لودھراں میں آکر سکونت اختیار کی۔ یہاں اس نے آکر ایک مکان تعمیر کرایا اور اس وقت سے یہاں مقیم ہے۔
مدعیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ مدعا علیہ ضلع ڈیرہ غازیخان سے ترک سکونت کرنے کے بعد سیدھا مولوی الٰہی بخش والد مدعیہ کے پاس حدود ریاست ہذا میں آیا اور یہاں بودوباش شروع کی۔ مرزائی مذہب اس نے ایک شخص مولوی نظام الدین کی ترغیب پر قبول کیا جو موضع مہند مسکن والد مدعیہ کے قریب رہتا ہے اور دعویٰ ہذا دائر ہونے کے بعد وہ حدود ریاست ہذا کے باہر چلا گیا ہے۔ ان امور کے متعلق فریقین کی طرف سے جو شہادت پیش ہوئی ہے اس سے حسب ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں۔
مدعا علیہ کی یہ حجت درست نہیں پائی جاتی کہ وہ کبھی ریاست ہذا میں نہیں آیا۔ بلکہ مدعیہ کی پیش کردہ شہادت سے جس کی کہ مدعا علیہ کی طرف سے کوئی خاطر خواہ تردید نہیں کی گئی۔ یہ ثابت ہے کہ مدعا علیہ مولوی الٰہی بخش کے یہاں آنے کے بعد اپنے مسکن واقعہ علاقہ ضلع ڈیرہ غازیخان 2128سے سیدھا حدود ریاست ہذا میں مولوی الٰہی بخش والد مدعیہ کے پاس آیا اور اپنی والدہ اور ہمشیرگان کو اس کے ہاں چھوڑ کر خود حصول معاش کے لئے حدود ریاست ہذا کے اندر مختلف مقامات پر پھرتا رہا اور کچھ عرصہ کے بعد پھر مولوی الٰہی بخش کے پاس آکر ٹھہرتا رہا۔ اس کے بعد جب مدعیہ کے رخصتانہ کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ ترک سکونت کر کے یہاں سے چلا گیا اور غالباً صحیح یہی ہے کہ وہ مقدمہ ہذا دائر ہونے سے قبل ہی چلا گیا ہے۔ کیونکہ خود مدعیہ نے عرضی دعویٰ میں اس کی سکونت بمقام میلسی درج کرائی ہے۔ چنانچہ اس پتہ پر جب سمن جاری کیاگیا تو مختار مدعیہ نے پھر ۱۴؍اگست ۱۹۲۶ء کو منصفی احمد پور شرقیہ میں ایک درخواست پیش کی کہ مدعا علیہ کی سکونت گو دعویٰ میں مقام میلسی لکھی ہوئی ہے۔ لیکن اب مدعا علیہ یہاں احمد پور شرقیہ میں موجود ہے۔ پھر تعمیل نہیں ہوسکے گی۔ اب اس پتہ پر سمن جاری کیاجاکر تعمیل کرائی جاوے۔ چنانچہ اسی روز عدالت سے سمن جاری کیا جاکر مدعا علیہ کی اطلاعیابی کرائی گئی۔ مدعا علیہ کہتا ہے کہ اسے وہاں دھوکہ سے بلوایا گیا۔ لیکن یہ سوال چنداں اہم نہیں۔ وہ چاہے جس طرح احمد پور شرقیہ میں آیا یہ امر واقعہ ہے کہ سمن پر اس کی اطلاعیابی وہاں کرائی گئی۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ دائری دعویٰ کے وقت اس کی رہائش حدود ریاست ہذا کے اندر نہ تھی۔ لہٰذا اس بناء پر مدعا علیہ کی یہ حجت درست ہے کہ دائری دعویٰ کے وقت چونکہ حدود ریاست ہذا کے اندر اس کی عارضی یا مستقل سکونت نہ تھی۔ اس لئے یہاں اس کے خلاف دعویٰ دائر نہیں ہوسکتاتھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مدعیہ کی پھر یہ حجت ہے کہ مدعا علیہ نے اپنا مذہب چونکہ حدود ریاست ہذا کے اندر تبدیل کیا ہے۔ اس لئے اسے مدعا علیہ کے تبدیل مذہب سے بناء دعویٰ پیدا ہوتی ہے اور اس لحاظ سے مدعا علیہ کے خلاف یہاں دعویٰ درست طور پر دائر کیاگیا ہے۔
مدعا علیہ بیان کرتا ہے کہ اس نے احمدی مذہب شیخواہ ضلع ملتان میں قبول کیا تھا اور کہ ابتداً وہ ضلع ڈیرہ غازیخان سے شیخ واہ میں ہی گیا تھا۔ اس کی طرف سے بیعت کا ایک خط پیش کیاگیا ہے۔ جو ڈاکخانہ دنیاپور سے ۲۱؍جنوری ۱۹۲۲ء کو خلیفہ صاحب ثانی کی خدمت میں بھجوایا 2129گیا اور جس پر بغیر کسی ولدیت، قومیت کے صرف عبدالرزاق احمدی لکھا ہوا ہے۔ اس سے یقینی طور پر یہ قرار دیاجاسکتا ہے کہ یہ خط اسی عبدالرزاق مدعا علیہ کا تحریر شدہ ہے۔ شناخت خط کے بارہ میں مدعا علیہ کی طرف سے دو گواہان پیش ہوئے ہیں۔ جن میں ایک اﷲ بخش بالکل نوعمر لڑکا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ وہ شیخ واہ میں مدعا علیہ کے پاس پڑھا کرتا تھا۔ اس وقت وہ مدعا علیہ کو لکھتا ہوا دیکھا کرتا تھا۔ شناخت خط کے بارہ میں پہلے تو اس نے یہ کہا کہ شاید وہ نہ پہچان سکے۔ لیکن پھر بیان کیا کہ وہ شناخت کرتا ہے کہ خط مشمولہ مسل مدعا علیہ کا تحریر کردہ ہے۔ لیکن اوّل تو جس وقت یہ گواہ مدعا علیہ کو لکھتا ہوا دیکھنا بیان کرتا ہے۔ اس وقت خود اس کی اپنی عمر کوئی ۱۳،۱۴ سال کے قریب ہوگی۔ غیراغلب ہے کہ اس عمر میں اس نے مدعا علیہ کی طرز تحریر کو بخوبی ذہن نشین کر لیا ہو۔ دوسرا وہ اس خط کی شناخت کے متعلق کوئی خاص وجوہات بیان نہیں کر سکا۔ علاوہ ازیں جب اس کی مذبذب بیانی کو مدنظر رکھا جائے تو اس کی شہادت بالکل ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے۔ اس طرح دوسرے گواہ کی شہادت بھی سرسری قسم کی ہے اور اس پر بھی پورا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
مدعا علیہ بیان کرتا ہے کہ وہ شیخ واہ میں ۵،۶ سال رہا۔ لیکن وہاں کی سکونت ثابت کرنے کے لئے بھی اس کی طرف سے یہی اﷲبخش گواہ پیش ہوا ہے۔ دیگر گواہان صرف سماعی طور پر بیان کرتے ہیں کہ وہ لودھراں میں وہاں سے آیا تھا۔ لہٰذا اس ضمن میں مدعا علیہ کی طرف سے مسل پر جو مواد لایا گیا ہے۔ اس سے یہ قرار دینا مشکل ہے کہ مدعا علیہ اپنے موجودہ مسکن پر سکونت پذیر ہونے سے قبل شیخواہ میں رہتا تھا اور کہ اس نے احمدی مذہب بھی وہیں اختیار کیا تھا۔ اس کی طرف سے بیعت کا جو خط پیش کیاگیا ہے۔ اس کے متعلق قابل اطمینان طریق پر یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ وہ اسی عبدالرزاق مدعا علیہ کا ہے۔ ان تمام واقعات سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مدعا علیہ نے علاقہ لودھراں میں سکونت اختیار کرنے سے قبل جہاں پہلے سکونت اختیار کی ہوئی تھی۔ احمدی مذہب اس نے وہاں قبول کیا۔ مدعا علیہ حسب ادعا خود یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں رہا کہ اس کی یہ سابقہ سکونت شیخواہ میں تھی۔ برعکس اس کے مدعیہ کی طرف سے یہ ثابت ہے کہ مدعا علیہ 2130اپنی موجودہ سکونت اختیار کرنے سے قبل حدود ریاست ہذا میں سکونت پذیر تھا۔ اس لئے مدعا علیہ کے اپنے بیان سے ہی یہ ثابت قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس نے احمدی مذہب حدود ریاست ہذامیں اختیار کیا اور اس کی تائید مدعیہ کی پیش کردہ شہادت سے بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ کا مذہب تبدیل کرنا چونکہ حدود ریاست ہذا کے اندر اس کی جائے سکونت موضع مہند میں وقوع میں آیا ہے۔ اس لئے اس بناء پر مدعیہ کو ضلع ہذا کے اندر بنائے دعویٰ پیدا ہوئی ہے۔ لہٰذا عدالت ہذا کو اس مقدمہ کی سماعت کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
مدعا علیہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ اس کی چونکہ حدود ریاست ہذا کے اندر سکونت نہیں رہی۔ اس لئے عدالت ہذا کو اس کے خلاف سماعت مقدمہ ہذا کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ مدعیہ کی طرف سے یہ بھی کہاگیا ہے کہ مدعا علیہ نے گوابتدائً یہ عذر اٹھایا تھا۔ لیکن بعد میں عدالت ہائے اپیل میں جاکر اس نے اسے ترک کر دیا اور شروع سے لے کر آخیر تک وہ برابر اس کی پیروی کرتا رہا۔ اس لئے سمجھاجائے گا کہ اس نے عدالت ہذا کے اختیار سماعت کو قبول کرلیا تھا۔ اس لئے اب وہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔ اس بارہ میں فیصلہ ۲۹انڈین کیسز ص۴۵۶ بطور سند پیش کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپیلیں چونکہ مدعیہ کی طرف سے ہوتی رہی تھیں۔ اس لئے اسے اعتراض کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ علاوہ ازیں مقدمہ چونکہ دوبارہ ابتدائی حیثیت میں عدالت ہذا کے زیرسماعت آگیا ہے۔ اس لئے وہ اس سوال پر عدالت کو متوجہ کر سکتا ہے۔ مگر مدعا علیہ کی یہ حجت درست معلوم نہیں ہوتی کہ اسے اپیل میں یہ عذر اٹھانے کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ فیصلہ اس کے خلاف ہونا ممکن تھا۔ اس لئے اسے ہر پہلو سے اپنی جوابدہی کرنی چاہئے تھی اور گو کہ مقدمہ اب پھر ابتدائی حیثیت میں سماعت کیاگیا ہے۔ تاہم اس مقدمہ کے سابقہ مراحل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اگر اس حجت کو درست بھی تسلیم کر لیا جاوے تو چونکہ اوپر یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ مدعا علیہ کے تبدیل مذہب سے بناء دعویٰ حدود ریاست ہذا میں پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے اس سوال پر مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی اور عدالت ہذا سے مدعا علیہ کے خلاف یہ دعویٰ درست طور سماعت کیاگیا ہے۔
2131اس قرارداد سے ان تنقیحات میں سے پہلے دو کا جو ۸؍نومبر ۱۹۳۳ء کو وضع کی گئی تھیں فیصلہ ہو جاتا ہے۔ باقی تیسری تنقیح کے متعلق جو ڈگری ملک غیر کی بابت ہے صرف یہ درج کر دینا کافی ہے کہ عدالت صادر کنندہ ڈگری کے روبرو یہ سوال کہ مدعا علیہ تبدیل مذہب کی وجہ سے مرتد ہو چکا ہے اور اس لئے مدعیہ اس کی منکوحہ نہیں رہی۔ زیربحث نہیں آیا اور نہ ہی پایا جاتا ہے کہ اس عدالت کو یہ جتلایا گیا کہ اس نکاح کے بارہ میں مدعیہ کی طرف سے عدالت ہذا میں بھی مقدمہ دائر ہے۔ اس لئے سمجھا جائے گا کہ وہ فیصلہ صحیح واقعات پر صادر نہیں ہوا اور ڈگری دھوکے سے حاصل کی گئی۔ لہٰذا وہ ڈگری بروئے ضمن (ب) و (ہ) دفعہ۱۳ ضابطہ دیوانی قطعی قرار نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح دفعہ۱۱ ضابطہ دیوانی کا اطلاق واقعات مقدمہ ہذا پر نہیں ہوتا۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر قرار دیا گیا ایک تو وہ ڈگری قطعی نہیں دوسرا وہ کسی عدالت واقع اندرون حدود ریاست ہذا کی صادر شدہ نہیں۔ اس لئے یہ تیسری تنقیح بھی بحق مدعیہ وبرخلاف مدعا علیہ طے کی جاتی ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ فریقین چونکہ درحقیقت اپنی شہریت اور وطنیت کے لحاظ سے برٹش انڈیا سے تعلق رکھنے والے ہیں اور والد مدعیہ نے خود یا اس کے کسی گواہ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے برٹش شہریت اور وطنیت چھوڑ چکا ہے۔ کیونکہ شہریت اور وطنیت کو ترک کرنے کے لئے لازمی ہے کہ یہ فعل علانیہ طور پر اورپبلک اظہار کے بعد قانونی حیثیت سے کیا جاوے۔ اس لئے تاوقتیکہ یہ ثابت نہ ہو، ایسے نکاح متنازعہ کے متعلق قانون بین الاقوامی یہ ہے کہ وہ نکاح جو اس ملک کے قانون کے لحاظ سے جائز ہے جہاں سے وہ منعقد ہوا۔ وہ ساری دنیا میں جائز اور درست ہے، اور کوئی دوسرے ملک کی عدالت اسے ناجائز قرار نہیں دے سکتی اور پھر ایسے نکاح کی تنسیخ کے متعلق بھی قانون بین الاقوامی یہ ہے کہ جس ملک میں ہر دو زوجین کو وطنیت حاصل ہو۔ صرف وہیں کی عدالت تنسیخ کا مقدمہ سن سکتی ہے اور اس قانون کی رو سے بیوی کی وطنیت وہی جگہ تصور ہوگی جہاں خاوند کی وطنیت ہو۔
فریقین کی طرف سے جو شہادت پیش ہوئی ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ فریقین اپنی ابتدائی 2132برطانوی شہریت ووطنیت پر قائم ہیں۔
گو حصول معاش کے لئے ایک فریق نے اپنی رہائش بہاول پور میں رکھی ہوئی ہے۔ مگر محض دوسری جگہ رہائش رکھنے سے اصل وطنیت کا ترک ہونا لازم نہیں آتا۔ مدعیہ کا نکاح علاقہ انگریزی میں ہوا۔ جہاں کی مدعیہ کی بیان کردہ وجہ ارتداد کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس وجہ سے علاقہ انگریزی کے قانون کی رو سے یہ نکاح صحیح اور جائز ہے۔
لیکن مدعا علیہ کی یہ حجت اس لئے وزن دار نہیں کہ اوّل تو یہ ثابت ہے کہ مولوی الٰہی بخش بہت مدت سے اپنے سابقہ مسکن سے ترک سکونت کر کے حدود ریاست ہذا میں رہائش پذیر ہے۔ اس کے کافی مدت کے بودوباش اور دیگر افعال سے یہ بخوبی اخذ ہوتا ہے کہ وہ حدود ریاست ہذا میں مستقل سکونت اختیار کر چکا ہے اور اس کا اپنے سابقہ مسکن پر واپس جانے کا ارادہ نہیں۔ کیونکہ اس بارہ میں جو شہادت پیش ہوئی ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ علاقہ ضلع ڈیرہ غازیخاں میں اب اس کا اپنا کوئی گھر موجود نہیں۔ مدعیہ چونکہ اس وقت نابالغ تھی اور بطور زوجہ مدعا علیہ کے حوالہ نہ کی گئی تھی۔ اس لئے اس کا اپنے والد کے ہمراہ یہاں چلے آنے اور اس کے ساتھ بودوباش رکھنے سے یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے بھی اب بمثل اپنے والد کے یہاں کی وطنیت اختیار کر لی ہے۔ علاوہ ازیں یہ پایا جاتا ہے کہ جب وہ بالغ ہوئی تو اس نے مدعا علیہ کی زوجیت سے انکار کر دیا اور یہ حجت کی کہ ضلع ڈیرہ غازیخان میں اس کا جو نکاح مدعا علیہ سے ہوا تھا وہ بوجہ آنداد مدعا علیہ قائم نہیں رہا۔ اس لئے کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ مدعیہ کی وطنیت بھی اب وہی شمار ہوگی جو کہ مدعا علیہ نے اختیار کی ہوئی ہے۔ کیونکہ وہ وہاں نہ بطور زوجہ اس کے ساتھ آباد رہی اور نہ اب حقوق زوجیت کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ وہاں آباد ہونے کو آمادہ ہے۔ اس لئے لامحالہ یہ قرار دینا پڑے گا کہ مدعیہ نے بھی اب یہیں وطنیت اختیار کی ہوئی ہے اور اگر بفرض محال مدعا علیہ کی اس حجت کو درست بھی مان لیا جاوے تو بھی مدعا علیہ کامیاب نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس مقدمہ کی کارروائی یہاں بھی اس ضابطہ دیوانی کے تحت کی گئی ہے۔ جو علاقہ انگریزی میں جاری 2133ہے اور نکاح زیربحث کا تصفیہ اسی شخصی قانون کے تحت کیا جا رہا ہے کہ جس کی رو سے قانون مروجہ علاقہ انگریزی کی رو سے تصفیہ کئے جانے کی ہدایت سے یعنی بروئے شرع محمدیؐ، اس لئے کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ ریاست ہذا کا قانون جس کے تحت مقدمہ ہذا میں کارروائی کی جارہی ہے وہ برٹش انڈیا کے قانون سے مختلف ہے۔ ہاں قانون کی تعبیر کا سوال دوسرا ہے۔ کسی قانون کی تعبیر اس قانون کا جزو شمار نہیں ہوسکتی۔ اس لئے کسی عدالت کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی خاص قانون کی تعبیر وہی کرے جو دوسری عدالت نے کی ہے۔ تاوقتیکہ وہ اس کی ماتحت عدالت نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی مسئلہ پر مختلف ہائیکورٹوں کی مختلف قراردادیں پائی جاتی ہیں۔ مقدمہ حال میں عدالت معلی اجلاس خاص نے مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ کو معاملہ زیر بحث کے متعلق قطعی نہ سمجھتے ہوئے قابل پیروی خیال نہیں کیا اور عدالت معلی کی یہ قرارداد قانوناً بالکل درست ہے۔ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ قانون بین الاقوامی کی اگر یہ سمجھا بھی جاوے کہ ریاست ہذا اور برٹش انڈیا کے مابین حاوی ہے کوئی خلاف ورزی کی گئی۔ کیونکہ یہاں اسی قانون پر عمل کیا جارہا ہے جو برٹش انڈیا میں مروج ہے اور اگر وطنیت کو ہی معیار سماعت دعویٰ قرار دیا جاوے تو چونکہ مدعیہ کی وطنیت حدود ریاست ہذا کے اندر پائی جاتی ہے۔ اس لئے اس لحاظ سے بھی ریاست ہذا کی عدالتوں کو اس مقدمہ کی سماعت کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا یہ مقدمہ عدالت ہذا میں درست طور رجوع ہوکر زیرسماعت لایا گیا ہے۔
 
Top