مسئلہ جہاد
’’ان ہی وجوہ کی بناء پر مرزاغلام احمد جہاد کا تیرا سو سال پرانا اصول منسوخ کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ اب سے جہاد بالسیف ممنوع قرار پایا۔ اب جہاد صرف یہ ہے کہ اپنے مخالف کو دلائل سے مطمئن کیا جائے۔‘‘
جہاد کے بارے میں قرآن کریم میں یہ آیات موجود ہیں:
۱… ’’جن سے جنگ کی جارہی ہو انہیں اجازت دی جاتی ہے لڑنے کی۔ اس لئے کہ ان پر ظلم کیاگیا ہے اور پس اﷲ ان کی مدد کرنے کے لئے بڑا طاقتور ہے۔ جو لوگ اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے۔ محض اتنی بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے۔ اگر اﷲتعالیٰ ایک دوسرے کے ہاتھوں لوگوں کا زور نہ گھٹاتا رہتا تو لاتعداد خانقاہ ہیں اور کلیسے، گرجے اور مسجدیں جن میں اﷲ کا نام لیا جاتا ہے۔ تباہ وبرباد ہو جاتے۔ بے شک اﷲ ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتے ہیں۔ تحقیق اﷲ بڑی طاقت والا اور بہت قدرت والا ہے۔‘‘
(سورہ۲۲، آیت۳۹،۴۰)
2287۲… ’’اﷲ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ لیکن حد سے نہ بڑھو کہ اﷲ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور ان کو قتل کرو جہاں ان کو پاؤ اور انکو نکال باہر کرو۔ جہاں سے انہوں نے تم کو نکال باہر کیا ہے اور شرارت قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ لیکن مسجد حرام میں ان سے جنگ نہ کرو۔ جب تک کہ وہ وہاں تم سے لڑنے میں پہل نہ کریں۔ اگر وہ تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو کہ حق کا انکارکرنے والوں کی یہی سزا ہے۔ پھر اگر وہ لوگ باز آجائیں تو اﷲ بخشنے والا مہربان ہے اور ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ فتنہ وشرارت باقی نہ رہے اور دین اﷲ ہی کا ہو جائے اور اگر وہ لوگ باز آجاویں تو بے انصافی کرنے والوں کے سوا سختی کسی پر نہیں ہوتی۔ حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینہ کے عوض میں ہے اور یہ حرمتیں تو عوض معاوضہ کی چیزیں ہیں۔ پس جو تم پر زیادتی کرے اس پر تم بھی زیادتی کرو۔ جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے۔ اﷲ سے ڈرتے رہو۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
(سورہ۲، آیت۱۹۰تا۱۹۴)
۳… ’’اﷲتعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ انصاف اور احسان کا برتاؤ کرنے سے نہیں روکتا۔ جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑتے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔ بے شک اﷲتعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔‘‘
(سورہ۶۰، آیت۸)
۴… ’’اس شخص کو چاہئے کہ اﷲ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑے جو آخرت کے بدلے دنیوی زندگی کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جو شخص اﷲ کی راہ میں لڑے پھر جان سے مارا جائے یا غالب آجائے تو ہم اسے اجر عظیم دیں گے اور تم کو کیا ہوا ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں اور ان کمزوروں کی خاطر جہاد نہیں کرتے۔ جن میں کچھ مرد ہیں۔ کچھ عورتیں اور کچھ بچے ہیں اور جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس 2288بستی سے نکال جس کے رہنے والے سخت ظالم ہیں اور اے خدا ہمارے لئے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کھڑا کر اور اپنی طرف سے کوئی مددگار روانہ فرما۔‘‘
(سورہ۴، آیت۷۴،۷۵)
۵… ’’پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو اور پکڑو اور انہیں گھیر لو اور ان کی تاک میں ہر جگہ بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
(سورہ۹، آیت۵)
۶… ’’پس کافروں کا کہا نہ مان اور اس (قرآن) کے ساتھ بڑے زور سے ان کا مقابلہ کر۔‘‘
(سورہ ۲۵، آیت۵۲)
جہاد کے بارے میں احمدی نظریہ یہ ہے کہ جسے ’’جہاد بالسیف‘‘ کہا جاتا ہے اس کی اجازت صرف اپنی حفاظت کے لئے ہے۔ نیز یہ کہ اس مسئلہ پر اپنی رائے پیش کرتے ہوئے مرزاغلام احمد نے صرف قرآنی آیات پر مبنی اصولوں کی وضاحت کی ہے اور انہوں نے کسی قرآنی حکم یا ہدایت کو منسوخ نہیں کیا۔
دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ مرزاصاحب نے اس مسئلہ پر اپنی رائے جن الفاظ میں ظاہر کی ہے۔ اس سے بالکل صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ محض ایک قرآنی اصول کی وضاحت نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ قرآن کے ایک مسلمہ قانون کو منسوخ کر رہے تھے۔
اس سلسلہ میں ان کے حسب ذیل اعلانات پیش کئے جاتے ہیں:
۱… ’’میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے۔‘‘
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۱۵)
۲… ’’آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیاگیا۔‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص ت، خزائن ج۱۶ ص۱۷)
۳… ’’مسیح کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص ز، خزائن ج۱۶ ص۲۸)
2289۴… ’’میں نے جہاد کی ممانعت کے بارے میں مؤثر تقریریں لکھیں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۶۲)
۵… ’’ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور شائع کی ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔‘‘
(ستارہ قیصرہ ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
۶… ’’مسیح موعود کے وقت جہاد کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔ اب زمین کے فساد بند کر دئیے گئے۔‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ)
۷… ’’اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا ہے اور اپنا غازی نام رکھتا ہے۔ وہ رسول کا نافرمان ہے۔‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص ذ، خزائن ج۱۶ ص۲۸)
۸… ’’میرے فرقہ میں جس کا خدا نے مجھے امام اور رہبر مقرر فرمایا ہے۔ تلوار کا جہاد بالکل نہیں۔ یہ فرقہ اس بات کو قطعاً حرام جانتا ہے کہ دین کے لئے لڑائیاں کی جائیں۔‘‘
(ضمیمہ نمبر۵تریاق القلوب، اشتہار واجب الاظہار ص۱، خزائن ج۱۵ ص۵۱۷، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۵۷)
۹… ’’اسلام میں جو جہاد کا مسئلہ ہے میری نگاہ میں اس سے بدتر اسلام کو بدنام کرنے والا اور کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۲۲، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۸۴)
۱۰… ’’مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۷، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)
مرزاصاحب کی ان تحریروں اور ان کے دعویٰ سے کہ: ’’میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۶،خزائن ج۱۷ ص۴۳۶)
یہ بات شدت کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ یہ اعلان قرآن کریم کے ایک مسلمہ قانون کی تنسیخ یا ترمیم کے مترادف ہے۔
اپیل کنندگان کی طرف سے اس کا جواب یہ دیاگیا ہے کہ ان الفاظ اور فقروں میں کوئی تنسیخ نہیں ہے۔ بلکہ محض قرآن کے ایک ایسے اصول کی وضاحت ہے جس کے متعلق صدیوں سے غلط فہمی تھی اور بہرحال دوسروں نے ان عبارتوں کا جو بھی مطلب سمجھا ہو احمدیوں نے ہمیشہ اس کا 2290یہ مطلب سمجھا کہ مرزاغلام احمد نے محض یہ کیا کہ اصل اصول کو گرد وغبار سے پاک کر کے اس کو اصل حالت میں پیش کر دیا۔ احمدیوں کی طرف سے اس سلسلہ میں ’’یضع الحرب‘‘ کی حدیث کا بھی حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ مرزاغلام احمد نے کسی قانون کو منسوخ کرنے کی بجائے صرف اس حدیث کے مطابق جنگ کو معطل کیا تھا۔ یہ نقطہ بہت اہم ہے۔ کیونکہ اگر یہ طے ہو جائے کہ مرزاغلام احمد کی ان آراء کا مقصد ایک مسلمہ قانون کی جگہ پر ایک نیا قانون نافذ کرنا یا جزوی طور پر ترمیم کرنا بھی تھا اور ان کے معتقدین بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو پھر وہ تشریعی نبی ہوئے۔
اس صورت میں خود احمدیوں کے یہاں آیت خاتم النّبیین کی اپنی تفسیر بھی غلط ہو جائے گی۔ یہ صورت واضح تر ہو جائے گی۔ اگر یہ اصول کسی وحی یا الہام کی بناء پر طے کیاگیا ہو۔
غیراحمدی فریق نے اس دلیل کو یہ کہہ کر مزید آگے بڑھایا کہ ان تحریروں میں جو رائے ظاہر کی ہے وہ اگر سابقہ اصول کا اعادہ یا اعلان کرنے والے کی حیثیت سے پیش کئے گئے ہیں۔ جب بھی مرزاصاحب اصول کے تحت تشریعی نبی بن جاتے ہیں کہ اگر قانون کا اعلان کرنے والا اپنے لئے وضاحت کرنے کی بجائے اعلان کرنے کا حق مختص سمجھے تو قانون کا اعلان بجائے خود اصل قانون بن جاتا ہے۔ احمدی ان تحریروں کی وضاحت کے لئے قرآن کی وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کا حوالہ اوپر دے چکا ہوں اور آیۃ سیف کے عام طور پر جو معنی سمجھے جاتے ہیں اسے وہ تسلیم نہیں کرتے۔