مسئلہ صاف ہوگیا
یہاں تک لکھا گیا تھا کہ آٹھ اگست ۱۹۷۴ء کو مرزاناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ ربوہ نے خصوصی کمیٹی کے سامنے بیان دے دیا کہ سرور عالم ﷺ کے بعد تیرہ سو برس تک کوئی نبی نہیں آیا نہ مرزاغلام احمد قادیانی کے بعد کوئی نبی آئے گا۔ 2422چاہے امتی نبی ہی کیوں نہ ہو۔ جب محترم اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ ابوالعطاء صاحب جالندھری نے لکھا ہے کہ آپ ﷺ کی خاتمیت نے وسیع دروازہ کھول دیا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کے لئے آپ کی پیروی کے طفیل وہ تمام انعامات ممکن الحصول ہیں جو پہلے منعم علیہ لوگوں کو ملتے رہے ہیں تو کیا حضور ﷺ کے اس فیضان سے پہلے تیرہ سو برس میں کوئی نبی یا امتی نبی آیا ہے یامرزاغلام احمد کے بعد آئے گا؟ اس کا جواب مرزاناصر احمد صاحب نے قطعاً انکار میں دیا اور ابوالعطاء صاحب کی بات کو صرف امکان عقلی پر حمل کیا۔ یعنی ہو تو سکتا ہے لیکن ہوگا نہیں اور اس سلسلہ میں مرزاناصر احمد صاحب نے مولانا اسماعیل شہیدؒ کا قول نقل کیا کہ اﷲتعالیٰ کو قدرت ہے کہ ایک آن میں کروڑوں فرشتے جبرائیل اور محمد جیسے پیغمبر پیدا کر دے۔ حالانکہ ان کا ایمان تھا کہ ایسا کبھی نہ ہو گا۔ کوئی بھی محمد رسول اﷲ کی طرح پیدا نہیں ہوگا۔ بلکہ آپ ﷺ خاتم النّبیین ہیں صرف خد اکی قدرت کا بیان ہے۔
مرزاناصر احمد صاحب کے اس بیان کے بعد سارا مسئلہ صاف ہوگیا۔ بقاء نبوت اور اجزاء نبوت کی ساری بحثیں فضول ہیں۔ حضور ﷺ پر نبوت ختم ہو گئی ہے۔ نہ تیرہ سو برس میں پہلے کوئی نبی آیا، نہ مرزاغلام احمد کے بعد آئے گا۔ بقول مرزاناصر احمد کے ایک ہی مرزاغلام احمد امتی نبی بنایا گیا۔ کیونکہ مسلم شریف میں چار جگہ آنے والے کو نبی کہا گیا۔ حالانکہ مسلم شریف اور سینکڑوں احادیث میں ایک مسیح کے نزول کی خبر ہے جو آسمان سے نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے۔ چالیس سال دنیا میں رہیں گے۔ ساری دنیا مسلمان ہو جائے گی۔ پھر وفات ہوگی۔ دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کا ابتداء ہی سے یہی عقیدہ رہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ اٹھائے گئے ہیں اور قرب قیامت کو وہی دوبارہ نازل ہوں گے اور مرزاجی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مر چکے ہیں اور آنے والا مسیح میں ہوں۔