مصور پاکستان علامہ اقبال کی رائے
آخر میں شاعر مشرق، مصور پاکستان علامہ اقبال صاحب کے کچھ ارشادات پیش کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے مرزائیت کی اسلام دشمنی محسوس کر کے ساری امت کو اس خطرے سے خبردار کرنے کے لئے بے شمار مضامین لکھے ہیں، ان تمام مضامین کو یہاں پیش کرنا مشکل ہے۔ البتہ چند ضروری اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
وہ اسٹیٹ مین کی ۱۰؍جون کی اشاعت میں فرماتے ہیں:
’’اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے جس کی حدود مقرر ہیں۔ یعنی وحدت الوہیت پر ایمان، انبیاء پر ایمان اور رسول کریمﷺ کی ختم رسالت پر ایمان۔ دراصل یہ آخری یقین ہی وہ ایک حقیقت ہے جو مسلم اور غیرمسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس 1985امر کے لئے فیصلہ کن ہے کہ فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں؟ مثلاً برہمو خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء کے ذریعے وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کر سکا۔ ایران میں بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ ایک الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں… میری رائے میں تو قادیانیوں کے سامنے صرف دو راہیں ہیں، یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں یا پھر ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اس اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کریں ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہو،تا کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۳۶،۱۳۷)
ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں: ’’نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ختم نبوت کے تمدنی پہلو پر کبھی غور نہیں کیا اور مغربیت کی ہوا نے اسے حفظ نفس کے جذبے سے بھی عاری کر دیا ہے۔ بعض ایسے ہی نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو رواداری کا مشورہ دیا ہے۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۲۴)
آگے ہندوستان کی غیرمسلم حکومت سے خطاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حکومت کو موجودہ صورت حالات پر غور کرنا چاہئے اور اس معاملہ میں جو قومی وحدت کے لئے اشد اہم ہے عالم مسلمانوں کی ذہنیت کا اندازہ لگانا چاہئے۔ اگر 1986کسی قوم کی وحدت خطرے میں ہو تو اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ معاندانہ قوتوں کے خلاف اپنی مدافعت کرے… سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدافعت کا کیا طریقہ ہے؟ وہ طریقہ یہی ہے کہ اصل جماعت میں جس شخص کو تلعّب بالدین، دین کے ساتھ کھیل، کرتے پائے اس کے دعاوی کو تقریر وتحریر کے ذریعے سے جھٹلایا جائے۔ پھر کیا یہ مناسب ہے کہ اصل جماعت کو رواداری کی تلقین کی جائے۔ حالانکہ اس کی وحدت خطرے میں ہو اور باغی گروہ کو تبلیغ کی پوری اجازت ہو۔ اگرچہ وہ تبلیغ جھوٹ اور دشنام سے لبریز ہو۔
اگر کوئی گروہ جو اصل جماعت کے نقطۂ نظر سے باغی ہے حکومت کے لئے مفید ہے تو حکومت اس کی خدمات کا صلہ دینے کی پوری طرح مجاز ہے۔ دوسری جماعتوں کو اس سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ توقع رکھنی بیکار ہے کہ خود جماعت ایسی قوتوں کو نظر انداز کر دے جو اس کے اجتماعی وجود کے لئے خطرہ ہیں۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۲۶)
کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے بعض لوگ ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا ان کے فتوؤں کا کوئی اعتبار نہیں رہا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے شاعر مشرق تحریر فرماتے ہیں:
’’اس مقام پر یہ دہرانے کی غالباً ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کے بے شمار فرقوں کے مذہبی تنازعوں کا ان بنیادی مسائل پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ جن کے مسائل پر سب فرقے متفق ہیں۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے پر الحاد کے فتوے ہی دیتے ہوں۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۲۷)
پھر شاعر مشرق قادیانی مسئلہ کا حل تجویز کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 1987’’میری رائے میں حکومت کے لئے بہترین طریق کار یہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کر لے۔ یہ قادیانیوں کی پالیسی کے عین مطابق ہوگا اور مسلمان ان سے ویسی رواداری سے کام لے گا جیسے وہ باقی مذاہب کے معاملے میں اختیار کرتا ہے۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۲۸،۱۲۹)
یہ وہ مطالبہ ہے کہ جو ڈاکٹر اقبال مرحوم نے انگریز کی حکومت سے کیا تھا۔ اب جو مملکت شاعر مشرق کے خوابوں کی تعبیرکی حیثیت سے انہی کا نام لے کر وجود میں آئی ہے یہ اس کا پہلا فریضہ ہے کہ وہ شاعر مشرق کی اس آرزو کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
----------