(مولانا ظفر احمد انصاری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جناب والا! مجھے اس کا احساس ہے کہ میں پہلے خاصا وقت لے چکا ہوں اور اب دیر بھی ہوگئی ہے۔ ابھی میرے پاس بہت سی چیزیں تھیں جو جلد سے جلد میں کہنا چاہتا تھا۔ لیکن اٹارنی جنرل صاحب نے بہت سی چیزوں کی وضاحت کر دی ہے، اس لئے میں بہت مختصر اس پر آؤں گا۔
مرزائیوں کے دونوں گروپوں کے نمائندوں نے، جو آئے تھے، بہت سے مغالطے پیدا کئے۔ بعض کو میں نے اس روز رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ چند ایک اور ہیں جن کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جہاد کے متعلق انہوں نے بہت سے اقتباسات مختلف علماء کے پیش کئے۔ لیکن اس میں بنیادی فرق، جو میں نے اس روز بتایا اور نام لے لے کر بتایا، وہ یہ ہے کہ کئی علماء نے جہاد کا فتویٰ دیا اور جہاد کیا۔ دوسرے فاضل مقررین نے بھی بتایا۔ یقینا ایسے علماء بھی تھے جن کا یہ مؤقف تھا کہ اس وقت جہاد کی شرائط نہیں ہیں، حالات سازگار نہیں ہیں، کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔ یہ تو وہ چیز ہے جو ہمیشہ زیرغور آتی ہے۔ لیکن کسی کو یہ جرأت نہیں ہوسکی اور کبھی کسی مسلمان کو بھی جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ یہ کہے کہ جہاد ہمیشہ کے لئے منسوخ ہوگیا ہے۔ ایک فتویٰ بھی ایسا نہیں دکھایا جاسکتا جس میں یہ کہا گیا ہو کہ جہاد حرام اور قطعاً حرام ہے اور جہاد کا حکم موقوف قرار دیا گیا ہے۔ آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا، خدا کے حکم سے بند کیاگیا۔ دین کے لئے آج سے زمینی جہاد کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ اس طرح کی چیزیں، جب کہ قرآن اور حدیث 3050میں واضح احکام موجود ہیں اور بہت معروف حدیث ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ مغالطہ کہ کسی خاص وقت میں جہاد کے لئے شرائط پائی جاتی ہیں، حالات سازگار ہیں یا نہیں ہیں، یہ بالکل ایک چیز ہے اور یہ کہنا کہ جہاد منسوخ ہوگیا ہے، قطعاً بند ہوگیا ہے، یہ وہ چیز ہے جو اسلام کے بنیادی احکام کی نفی پر دلالت کرتی ہے۔