• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

میں نے زور سے کلمہ پڑھا اور اس کے سرپر کلہاڑی دے ماری ۔

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
میں نے زور سے کلمہ پڑھا اور اس کے سرپر کلہاڑی دے ماری ۔
مرتدگستاخ رسول کو مارنے والے غازی مجاہدعبدالحمید سے گفتگو

محترم قارئین! اس شمارے میں اس مجاہد سے ہونے والی گفتگو پیش کریں گے جنہوں نے پنج شیر میں مرتد عیسائیوں کے ایک سربراہ کو قتل کردیا ۔ اور اب طویل حبس کے بعد انہیں جیل سے آزادی ملی ہے ۔ گفتگو لفظ بہ لفظ قارئین کے نذر خدمت ہے ۔ {ادارہ}

سوال : سب سے پہلے محترم قارئین سےاپنا تعارف کرائیں ۔

جواب : میرا نام عبدالحمید ہے ، قندہار کا رہائشی اور اس صوبے کے معروف عالم دین مولوی عبداللہ ذاکری کا بڑا بیٹا ہوں ۔ امارت اسلامیہ کے دور میں 5سال تک پنج شیر میں قید رہا ۔ اب کرزئی کے دور میں عیسائیوں کے ایک سربراہ کے قتل کے الزام پنج شیر کی جیل میں دوسال تین ماہ رہا ۔ کچھ عرصہ قبل اس سزا کی مدت پوری ہونے پر مجھے آزادی ملی۔

سوال : عیسائیوں کے سربراہ کے قتل کا ارادہ کس طرح بنا اس حوالے سےکچھ تفصیلات بتائیں اور اس کے قتل میں کیسے کامیابی ملی ؟

جواب : 1385/3/5ه ش کو پاکستان کے شہر کوئٹہ سے پشاور شہر کی جانب مولانا حسن جان صاحب کے مدرسے میں دستار بندی کے پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے روانہ ہوا ۔ میرے دو بھائی عبدالقیوم ذاکری اور عبدالاحد ذاکری وہیں پر رہتے تھے ۔

دستاربند ی کے پروگرام کے بعد کوئٹہ واپسی کا راستہ بند ہوگیا تھا ۔ اس لیے کہ ان دنوں بلوچستان میں بلوچستان کے ایک بڑے رہنما اکبر بگٹی کو پاکستانی حکومت کی جانب سے ایک جنگ میں نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اکبربگٹی کی موت کے فورا بعد احتجاجا بلوچوں نے مظاہروں کا آغاز کردیا ۔ جس کے نتیجے میں پشاور کوئٹہ شاہراہ بند ہوگیا ۔ اس وقت میں نے سوچا پشاور سے کابل روانہ ہوجاؤں ۔ کابل میں رات ایک ساتھی کے ہاں گذاری جن کا تعلق اصلا پنج شیر سے تھا۔ صبح بجائے اس کے کہ قندہار کے راستے کوئٹہ آؤں ۔ میں نے ارادہ کیا کہ پنج شیر جاؤں کیوں کہ امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں ، میں وہاں پانچ سال مسعود کی جیل میں قید رہا تھا۔

اس صوبے کے بہت سے علاقے میں نے دیکھے ہوئے تھے اس لیے میرا شوق تھا کہ آزاد زندگی میں ایک بارپنج شیر کو دیکھ آؤں اور پرانی یادیں تازہ کروں ۔ صبح محمد عثمان نامی ایک پنج شیری آدمی کے ساتھ اس کی گاڑی میں پنج شیر کی جانب روانہ ہوئے ۔

پنج شیر پہنچنے کے بعد ہم نے کوشش کی پنج شیرکی نئی تعمیرات شدہ عالی شان عمارتیں دیکھیں جو کرزئی دور حکومت میں تعمیر ہوئی ہیں ان میں سے ایک ایرانیوں کی جانب سے بنایا گیا احمد شاہ مسعود کی قبر پر گنبد بھی ہے ۔ ہم وہاں گئے ۔ ہم اسی علاقے میں سیر وتفریح کررہے تھے کہ ایک بڑا کمانڈر بہلول خان جو اسی صوبے کے ضلع آبدرہ کا رہائشی تھا اور سادہ لباس میں پولیس کے درمیان کھڑا تھا ، نے مجھے اشارہ کیا یہاں آجاؤ۔ میں اس کے قریب گیا تواس نے پوچھا تم کون ہو ، تمہارا تعلق کہاں سے ہے جو تم نے پگھڑی بھی باندھ رکھی ہے ۔ اور یہاں کس لیے آئے ہو؟

میں نے کہا میں قندہار کا رہائشی ہوں اور یہاں گھومنے پھرنے آیا ہوں ۔ کیوں کہ میں طالبان کے دور حکومت میں یہاں پانچ سال تک یہاں قید رہا تھا ۔ اب میں نے سوچا پرانی یادیں تازہ کرلوں ۔

اس نے پوچھا کہ یہ مزار جو بنایا گیا ہے یہ کس کا ہے ؟ تم اسے جانتے ہو۔

میں نے کہا جی ہاں ، لوگ کہتے ہیں یہ احمد شاہ مسعود کا مزار ہے ۔

اس نے کہا تم طالبان ہو اور طالبان کے دورمیں یہاں پانچ سال امیر صاحب کے ساتھ جیل میں بھی رہ چکے ہو تو ہوسکتا ہے تم اس مزار پر دھماکہ کرنے آئے ہو، اور یا چاہتے ہو ان کی برسی کی تقریب میں کوئی ہنگامہ کردو ۔ جو تین روز بعد ہونے والا تھا ۔ یہاں سکیورٹی سنبھالنے کی ذمہ داری میری ہے ۔

میں نے کہا : میں چونکہ قندہار کا شہری ہوں اور قندہار اور پنج شیر دونوں صوبے اس ایک ہی ملک کے صوبے ہیں ۔ اس لیے یہاں آنے کے لیے میں نے نہ پاسپورٹ کی ضرورت محسوس کی اور نہ ویزے کی ۔ ٹھیک ہے میں پہلے مجاہد تھا مگر اب نہیں ہوں اور میرا طالبان سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔

ان سوالات کے بعد میں اور میرا ساتھی محمد عثمان اپنی گاڑی میں بیٹھ کر صوبائی انتظامیہ کے دفتر کی جانب روانہ ہوئے جو اسی صوبے کے علاقے پاراخ میں واقع ہے ۔ وہاں جانے کا مقصد یہ تھا کہ انتظامیہ کے نئے دفتر کے قریب ان 60 طالبان مجاہدین کےمزار پر حاضر دی جائے جو یہاں "بارک " جیل کے قریب خدائی موت سے مرگئے تھے اور پھر ہم نے انہیں ایک قبرستان میں دفن کردیا تھا ۔

طالبان کے مزار پر حاضری دینے کے بعدانتظامیہ کی عمارت کے قریب جب ہم گاڑی میں بیٹھے تھے اور کابل کی جانب جارہے تھے کہ پولیس کی چند گاڑیاں ہمارے آس پاس آکر رک گئیں اور ہمیں اترنے کا اشارہ کیا ۔ آخر کار مجھے اور میرے ساتھی محمد عثمان کو ہماری گاڑی سمیت پولیس ہیڈکوارٹر کی جیل میں لایا گیا ۔

رات گذرنے کے بعد صبح ہمیں ہیڈکوارٹر سے متعلق ایک تفتیش کار نے ہم سے وہی سوالات پوچھنے شروع کئے جو گذشتہ دن ہم احمد شاہ مسعود کے مزار کے قریب ایک کمانڈر نے ہم سے پوچھے تھے ۔ اور میرے جوابات وہی تھے ۔ دودن گذرنے کے بعد شام کومجھے اور محمد عثمان دونوں کو امریکیوں کے ایک مرکز لایا گیا جو اسی صوبے کے "دشتک" کے علاقے میں واقع ہے ۔

امریکیوں نے ہم سے کہا : آپ پر بنائے گئے کیس میں لکھا ہے کہ تم لوگ مسعود کے قبر پر دھماکہ کرنے آئے تھے اور احمد شاہ مسعود کی برسی کی تقریب جس میں کرزئی اور فہیم شرکت کریں گے اس میں دھماکہ کرنا چاہتے تھے۔

میں اور میرے ساتھی نے اس کی جواب میں اپنی آمد اور گرفتار ی کا قصہ حسب سابق پوری تفصیل سے بیان کردیا ۔انہیں تسلی ہوگئی ۔ صبح امریکیوں نے ہمیں واپس اسی صوبے کے مرکزی جیل بھیج دیا جسے احمد شاہ مسعود کے دور میں وہ بینک کے طورپر استعمال کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا ہمارے ہاں تمہارا کوئی جرم ثابت نہیں ۔جیل میں داخل ہونے سے قبل وہ پولیس جو ہمیں امریکیوں سے لے کر واپس لایا تھا اس نے جیل کے کمانڈنٹ {میر بابا جو اسی صوبے کے ضلع عنابہ کا رہائشی} تھااس سے کہا۔ یہ لوگ مسعود کی قبر پر دھماکہ کرنا چاہتے تھے ہم نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑا ہے ۔

یہ سنتے ہی جیل کے پہرہ داروں نے مجھ سے واسکٹ ، گھڑی اور پیسے چوروں کی طرح لے لئے اور ہمیں جیل کے اس حلقے میں ڈال دیا جہاں ان کے مطابق بڑے مجرموں کو رکھا جاتا تھا ۔ اس جیل میں ہمارے ساتھ نورخان نامی ایک ایسا مجرم بھی تھاجواس صوبے کی ساری عیسائی مشنریوں کا سربراہ تھا ۔ اس نے اپنے گاؤں"آب درہ "کے پیش امام ملا عبدالستار مرحوم کو آذان کے وقت فائرنگ کرکے شہید کردیاتھا ۔ اب اسی جرم کے الزام میں اسےگرفتار کیا گیا تھا ۔

سوال : نورخان کہاں کا رہائشی تھا وہ کیسے ، کیوں اور آپ کی معلومات کے مطابق کب عیسائی ہوگیا تھا ؟

جواب: نورخان صوبہ پنج شیر آبدرہ کا رہائشی تھا اور ان کے بہنوئی نیک محمد کے بقول وہ چند برس پہلے ایران گیا تھا ۔ وہاں آرمینیا کی ایک عیسائی خاتون سے نکاح کیا جس نے اسے مرتد اور عیسوی دین کا پیروکار بنادیا ۔

فی الحال وہ اسی صوبے میں تمام عیسائیوں کا رہنما تھا ۔ وہ علی الاعلان کہا کرتا تھا کہ اس صوبے میں ہم نے مرتد عبدالرحمن کی طرح 60 آدمیوں کو مرتد بنایا ہے وہ اب عیسوی مذہب کے پیروکار ہیں ۔

سوال: اس حوالے سے اگر وضاحت کردیں کہ نورخان نے امام مسجد کو کیوں شہید کردیا تھا ؟

جواب : نورخان نے امام مسجد کو اس لیے شہید کردیا کہ ایک مرتبہ نورخان مسیح نے اپنے گاؤں کی ایک دیوار پر لکھا تھا کہ "پیغمبر زندہ بہتر است از پیغمبر مردہ" العیاذ باللہ{زندہ پیغمبر بہتر ہے مردہ پیغمبر سے }

گاؤں کے امام کا اس بات پر نورخان سے تنازعہ ہوگیا ۔ بالآخر امام مسجد کو مجبورا صوبائی حکام سے رابطہ کرنا پڑا ۔ مگر صوبائی حکام نے امام صاحب سے کہا کہ اب جمہوریت ہے اور جو بھی جس مذہب میں جانا چاہے اسے آزادی ہے ۔ یہ تمہاری غلطی ہے ۔

نورخان کو جب معلوم ہوا کہ حکومتی حمایت اسے حاصل ہے تو اس نے اپنے گاؤں آب درہ میں صبح کی اذان کے وقت امام مسجد کو فائرنگ کرکے شہید کردیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

سوال : آپ بتانا پسند کریں گے کہ کیسے اور کس حالت میں آپ نے عیسائیوں کے اس سربراہ کو قتل کیا ؟

جواب: سنبلہ کی سولہویں تاریخ تھی صبح ساڑھے چھ بج رہے تھے جب نورخان اپنی عادت کے مطابق جیل کے قیدیوں کو"سپورٹ" کی تعلیم دے رہاتھا ۔ اس صبح کو ایک قیدی کھلے ہاتھوں سے سینہ کشی کررہاتھا ۔ نورخان جو سپورٹ میں تمام قیدیوں کا استاد تھا اس نے مذکورہ قیدی سے کہا کہ ہاتھ بند کردو ۔ میں ان کو دیکھنے باورچی خانے میں چائے بنانے والی جگہ کے قریب گیااور وہیں بیٹھ گیا ۔

نورخان اور اس کا شاگر میرے پاس آئے اور کہا یہ کیسے کیا جاتا ہے کھلے ہاتھوں سے یا بند، میں نے نورخان سے کہا کہ تم مجھے فیصل نہ بناو ٔتم میرے دشمن ہو۔

اس نے جواب میں کہا کہ "ہاں میں عیسائی ہوں اور تمہارے دین اور رسول کی ایسی ایسی............. العیاذ باللہ ۔

اس طرح میرے اور اس کے درمیان تنازع کھڑا ہوگیا ۔ چونکہ وہ مجھ سے زیادہ طاقتور تھا اس نے مجھے مکا مارا ۔میں بہت جذباتی ہوگیا ، زور سے کلمہ پڑھا اور کلہاڑی سے اس پر حملہ کردیا ۔ جس سے وہ گرکر بے ہوش ہوگیا ۔

اس واقعے کے بعد پولیس مجھے زیر زمین منزل میں لے گئی اور اسے خانم گیٹ میں واقع اطالویوں کے ہسپتال کے ایمرجنسی میں لے جایا گیا ۔

سوال: آپ کو پہلے تو احمد شاہ مسعود کی قبرپر دھماکہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اب نورخان کے قتل سے دوسرا مقدمہ بن گیا ۔

جواب: ہاں ، میرا کیس بہت بھاری اور پیچیدہ ہوگیا ۔ کیوں کہ اس واقعے کے بعد اٹارنی جنرل امین میرے پاس آیا ۔ اس نے مجھ سے پوچھا میں نے وہی قصہ بیان کیا ۔ اس نے جائے وقوعہ کا مشاہدہ کرنے کے بعد میرے خلا ف دوسرا کیس بھی درج کرادیا ۔

سوال: آپ کے حملے کے بعد یہ عیسائی چند دن تک زندہ رہا یا فورا ہی مرگیا تھا؟ مرنے کے بعد آپ نے اسے دیکھا ؟

جواب: تین دن گذرنے کے بعد پولیس نے اسے زخمی حالت میں واپس جیل منتقل کردیا ۔ میں نے جیلر خدائیداد کی اجازت لی کہ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں ۔ میں اس کے پاس گیا اس کے سرپر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ چارپائی پر لیٹا ہوا تھا ۔

میں نے اس سے کہا : دیکھو !انسانی شرافت کی خاطر میں تمہارا احترام کرتا ہوں ، اگر تم نے پھر اسلام کی توہین کی تو پھر بھی تمہیں نہیں چھوڑوں گا ۔ میری سرزمین پر ہندو بھی رہتے ہیں ، مگر میں انہیں کچھ بھی نہیں کہتا ۔ تم میرے امام کو مارتے ہو ، میرے دین اور رسول کی بے حرمتی کرتے ہو ۔ ایسے حالات میں ، میں تمھیں کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا ۔

چونکہ وہ کوما کی حالت میں تھا ، اس لے اس نے کچھ بھی نہ کہا ۔ کچھ دیر بعد میں پھر اپنے کمرے میں آگیا ۔ اس دن اسے ایک بارپھر ہسپتال لے جایا گیا۔ اس ہسپتال میں یعنی واقعے کے سات روز بعد نورخان اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سنبلہ کے 21تاریخ کو ہلاک ہوگیا ۔

سوال : نورخان کی موت کے بعد اس کے رشتہ داروں آپ کے خلاف دعوی نہیں کیا ؟

جواب : اس کے والد کا انتقال پہلے ہوچکا تھا ۔ اس کے ورثاء میں صرف ایک بھائی، ایک بہن اور ماں تھی جو ابھی تک بقید حیات تھی ۔ ان سب نے مجھے بری کردیاکیوں کہ وہ پہلے سے یہی چاہتے تھے ۔ جیل کے سکیورٹی سربراہ میرباچا کے بقول : جب وہ ہسپتال میں داخل تھا تو نورخان کی مسلمان والدہ ، اس کا مسلمان بھائی غلام ربانی اوراس کا مسلمان بہنوئی نیک محمد جنہوں نے جیل میں آنے کے بعد سے اب تک اس کے بارے میں پوچھا تک نہیں تھا ، اس کی عیادت کے لیے ہسپتال آگئے ۔ ماں نے اس سے کہا توبہ کرلو اور پھر سے مسلمان ہوجاؤ ، دیکھو خداتعالی کے عذاب کو ، قندہار سے پتھر آیا اور تمہارے سر پر لگ گیا۔ اب مزید توبہ کرلو اور خداتعالی کو مان لو۔

میرباچا کا کہناتھا جب ماں نے اس سے یہ کہا تو اس نے ماں کے منہ پر تھوک دیا اور کہا میرا راستہ روشنی کا راستہ ہے اور تمہارا راستہ تاریکی کا ہے میں کبھی اپنے راستے سے نہیں پھر سکتا ۔

نورخان کی موت کے بعد میں نے اس صوبے کے علماء کونسل کے سربراہ مولوی محمد موسی کے نام ایک خط لکھا۔اسی صوبہ پنج شیر کے ضلع دروخہ میں ان کا ایک بڑا مدرسہ بھی ہے ۔ خط میں ، میں نے ان سے کہا یہ کام میں نے دین اسلام کی دفاع اور اپنے رسول کی حرمت کی خاطر کیا ہےامید کرتا ہوں کہ میرا مقدمہ اسی ملک میں چلے گا اور مجھےا مریکیوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

علماء کونسل کے سربراہ نے ایک طویل اور مدلل خط میرا مقدمہ شروع کروانےکے لیے صوبائی گورنر کو بھیجا تھا جس نے میرا مقدمہ اسی صوبے کی ابتدائی عدالت میں بھیج دیا ۔ اس ابتدائی عدالت نے پورا ایک سال جیل کاٹنے کے بعد مجھے تین سال دو ماہ تک کی مزید جیل کی سزا دینے کا فیصلہ صادر کردیا ۔ اسی صوبے کے ہائی کورٹ نے میری سزا میں ایک سال کم کرکے 2سال تین ماہ کی سزا متعین کردی ۔ بالآخر دوسال تین ماہ مکمل ہونے کے بعد مجھے پنج شیر کی مرکزی جیل سے خلاصی ملی ، اب میں اپنے گھر میں رہتا ہوں۔
 
Top