(نبوت جاری کے مؤقف کا تجزیہ)
مدعا علیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے کمال اتباع اور فیض سے نبوت کا مرتبہ عطا ہوسکتا ہے اور وہ خاتم النّبیین کے معنی عام مسلمانوں کے اعتقاد کے خلاف یہ کرتا ہے 2211کہ اﷲ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضۂ کمال کے لئے مہر عطاء کی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے آپ کا نام خاتم النّبیین ٹھہرا۔ یعنی آپ ﷺ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ ﷺ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور قرآن مجید کی جس آیت میں یہ الفاظ درج ہیں اس کے معنی مدعا علیہ کی طرف سے یہ کئے گئے ہیں کہ اس آیت میں رسول اﷲ ﷺ کے بعد الفاظ خاتم النّبیین اس لئے لائے گئے کہ ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا تھا۔ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ آپ بحیثیت رسول اپنی امت کے باپ ہیں۔ آپ کی دوسرے رسولوں پر کوئی فضیلت ظاہر نہ ہوتی تھی۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے آپ ﷺ کو خاتم النّبیین فرما کر آپ کو دوسرے رسولوں سے ممتاز فرمادیا کہ اور نبی تو اپنی امت کے صرف مؤمنوںکے باپ تھے۔ مگر آپ ایسے عظیم الشان اور جلیل القدر نبی ہیں کہ انبیاء کے بھی باپ ہیں۔ یعنی آپ کی اتباع اور توجہ روحانی کمالات نبوت بخشتی ہے اور اگر اس کے معنی آخر کے لئے جاویں تو اس میں آپ ﷺ کو کوئی فضیلت نہیں ہے۔
اس تصریح سے اس حد تک تو مدعا علیہ کی یہ توجیہ درست ہے کہ اﷲتعالیٰ کو چونکہ دیگر انبیاء سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو افضل دکھلانا مقصود تھا۔ اس لئے الفاظ خاتم النّبیین استعمال فرمائے گئے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ محض لفظ خاتم کے استعمال سے آپ کا نبی تراش ہونا کس طرح مفہوم لے لیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر خاتم کے معنی مہر بھی کئے جاویں تو اس کے یہ معنی کرنے سے بھی آپ ﷺ انبیاء سابقہ پر مہر ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت نمایاں ہوسکتی ہے اور محض یہ توجیہ بھی کہ آپ ﷺ انبیاء کے باپ ہیں۔ آپ کی فضیلت ظاہر کر دینے کے لئے کافی ہے۔ پھر معلوم نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ کے اس تفصیلی علاقۂ ابوت سے آئندہ توالد انبیاء کا سلسلہ جاری ہونا کس طرح اخذ کیاگیا ہے اور پھر تولد بھی صرف ایک نبی کا اس میں شک نہیں کہ خاتم کے معنی مہر دیگر علماء نے بھی کئے ہیں اور حال ہی میںقرآن مجید کا جو ترجمہ مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ کا شائع ہوا ہے۔ اس میں بھی خاتم کے معنی درج ہیں اور خاتم النّبیین کے معنی انہوں نے یہ لکھے ہیں کہ ’’مہر 2212ہیں تمام نبیوں پر‘‘ اور میری رائے میں سیاق وسباق عبارت سے یہی معنی درست معلوم ہوتے ہیں۔ اس پر مدعا علیہ کا یہ اعتراض ہوگا کہ پھر رسول اﷲ ﷺ کا آخری نبی ہونا کہاں سے اخذ کیا جائے گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو رسول اﷲﷺکا آخری نبی ہونا احادیث سے اور امت کے اجماعی عقیدہ سے اخذ کیا جائے گا۔ امت آج تک آپﷺ کو آخری نبی سمجھتی آئی اور جیسا کہ مولوی مرتضیٰ حسن صاحب گواہ مدعیہ نے بیان کیا ہے۔ آج تک جس قدر اولیاء ابدال، اقطاب، مجتہدین مجدد ہوتے آئے ہیں۔کسی نے اس عقیدہ کی تغلیط نہیں کی۔ دوسرے مدعا علیہ کو بھی اس سے انکار نہیں کہ خاتم النّبیین کے معنی آخری بھی ہیں اور اس معنی پر امت کا اجماع چلا آیا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس اجماع کی حقیقت کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ مرزاصاحب کے دعویٰ سے قبل جمہور امت کا عقیدہ اس طرح چلا آیا ہے۔ اس لئے ایک امر واقع کو غلط کہنا ایک بے جا حجت ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے لغت اور عربی زبان کے محاورات سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ لفظ خاتم جب ’ت‘ کی زبر سے پڑھا جاوے تو انگوٹھی یا مہر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اگر زیر سے پڑھا جائے تو اس کے معنی ختم کرنے والا۔ دوسرا مہر لگانے والا ہوتے ہیں اور خاتم کا لفظ کمال کے معنوں میں بکثرت استعمال ہوتا اور کہ خاتم کے اصل معنی آخر کے نہیں ہیں۔ اگر آخر کا معنی بھی لئے جائیں تو پھر لازم معنی کہلائیں گے، نہ اصل معنی اور جب اصل معنی لئے جاسکتے ہیں تو لازم معنی کیوں لئے جائیں۔ خاتم اگر کہیں آخر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تو لازم معنی لے کر کیا جاتا ہے اور جب کہ قرآن مجیدمیں کوئی ایسا صریح قرینہ موجود نہیں جو لازم معنی لینے پر ہی دلالت کرے تو اس کے باقی سب معنی چھوڑ کر صرف آخر کے معنی میں لینا کسی طرح صحیح نہیں۔ لیکن مقدمہ ہذا میں سوال زیر بحث عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ الفاظ کے معنی یا مراد سے تعلق نہیں رکھتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ عقیدہ کس 2213معنی پر قائم ہوا۔ جب مدعا علیہ کے نزدیک خاتم کے معنی آخر کے ہوسکتے ہیں اور عقیدہ بھی تیرہ سو سال تک اس پر قائم رہا ہے تو اب ان الفاظ پر بحث کرنا کہ ان کے معنی آخرکے نہیں بلکہ مہر کے ہیں۔ سوائے ایک علمی دلچسپی کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ علاوہ ازیں جو علماء اس کے معنی قبل ازیں آخر کے کرتے آئے ہیں۔ ان کی نسبت نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس کی لغت یا اصل سے واقف نہ تھے۔ اس لئے اس لفظ کے معنی پر بحث لاحاصل ہے۔ علاوہ ازیں مرزاصاحب بھی اپنے دعویٰ سے قبل خاتم النّبیین کے معنی آخری کرتے آئے ہیں۔ جیسا کہ مدعیہ کے گواہان کے بیانات میں دکھلایا جاچکا ہے۔ بعد کے معنی محض تاویلی ہیں اور اپنے دعویٰ کو رنگ دینے کی خاطر کئے گئے ہیں اور اب مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہنا کہ مرزاصاحب نے جہاں جہاں آنحضرت ﷺ کے بعد سلسلہ وحی کومنقطع مانا ہے وہاں ان کی مراد وحی شریعت سے ہے۔ نہ کہ دوسری وحی سے درست نہیں ہے، کیونکہ جہاں انہوں نے وحی کو منقطع مانا ہے۔ وہاں انہوں نے اس کی تصریح نہیں کی اور سیاق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر قسم کی وحی کے انقطاع کے متعلق کہہ رہے ہیں۔ ان کے یہ اقوال اس قسم کے ہیں جن کے متعلق کہ مدعا علیہ کی بحث کے شروع میں فقرہ نمبر۲ میں تشریح کی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر ایک مستقل مفہوم لئے ہوئے ہیں۔ اس لئے مرزاصاحب کے دیگر اقوال ان کی توضیح یا تشریح نہیں بن سکتے۔ اس قسم کے اقوال جن سے مرزاصاحب انقطاع وحی کے قائل پائے جاتے ہیں گواہان مدعیہ کے بیانات میں مفصل درج ہیں جو اوپر درج کئے جاچکے ہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس مسئلہ ختم نبوت کے متعلق پھر یہ کہا گیا ہے کہ احادیث پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے آیت خاتم النّبیین سے نبوت کو بکلی مسدود نہیں سمجھا۔ جیسا کہ حدیث ’’لوعاش ابراہیم لکان صدیقاً نبیاً‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ آیت خاتم النّبیین کے نزول سے پانچ سال کے بعد حضور نے یہ فرمایا ہے۔ لیکن اوّل تو اس حدیث کے صحیح ہونے میں شبہ ہے۔ جس کا اظہار خود گواہ مدعا علیہ نے کر دیا ہے۔ دوسرا اس میں لوکا ایک شرطیہ لفظ موجود 2214ہے اور قواعد عربی کی رو سے مدعا علیہ کی طرف سے یہ تسلیم کیاگیا ہے کہ جہاں لوداخل ہو وہاں وقوع نہیں ہوتا۔ تیسرا اس میں نبوت کی کوئی تفصیل نہیں کہ کیسی نبوت ہوگی۔ چوتھا نبوت کاامکان حضرت ابراہیم کی زندگی پر تھا جب وہ وفات پاگئے۔ نبوت کا امکان بھی چلا گیا۔ اس سے کسی طرح بھی آئندہ نبوت جاری رہنے کا نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا۔ مدعا علیہ کی طرف سے حضرت عائشہ کا ایک قول ’’قولوا خاتم النّبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ‘‘ نقل کیا جاکر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس قول سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو الفاظ خاتم النّبیین اور لا نبی بعدی سے یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا غلطی پر ہیں۔ اس ضمن میں پھر یہ کہاگیا ہے کہ دوسری شہادت حضرت علیؓ کی ہے جو یہ ہے کہ ایک دفعہ آپ کے صاحبزادے استاد کے پاس بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ ایک دفعہ اتفاقاً حضرت علیؓ وہاں سے گزرے اور فرمایا کہ ان دونوں کو خاتم النّبیین کا لفظ ’’ت‘‘ کی زبر سے پڑھاؤ۔ دوسری قرأت میں خاتم ’ت‘ کی زیر سے بھی آیا ہے۔ پس اگر حضرت علیؓ کے نزدیک ’ت‘ کی زیر سے بھی خاتم کے معنی آخری نبی کے بنتے تھے تو آپ نے زیر کے پڑھانے سے منع کیوں کیا۔ کیونکہ زیر سے ختم کرنے کے معنی زیادہ واضح ہو جاتے تھے۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ دونوں میں آپ فرق سمجھتے تھے اور زیر پڑھانے سے آپ کو اس کا خطرہ تھا کہ کہیں بچوں کے ذہن میں نبوت کے متعلق خلاف عقیدہ نہ بیٹھ جائے۔
حضرت علیؓ کے متعلق جو حدیث لا نبی بعدی والی بیان کی گئی ہے اور جو مولوی محمد حسین صاحب گواہ مدعیہ کے حوالہ سے اوپر گزر چکی ہے۔ اسے مدعا علیہ کی طرف سے صحیح مانا گیا ہے۔ مگر اس کی تاویل یہ کی گئی ہے کہ بعدی سے مراد یہاں موت کے بعد نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا گیا ہے۔ بلکہ بعدی سے مراد جنگ تبوک کا عرصہ ہے۔ یعنی اس عرصہ میں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور اس سلسلہ میں ایک اور حدیث کا حوالہ دیا جاکر یہ بیان کیاگیا ہے کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اے علیؓ تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے خلیفہ بنو۔ جیسے ہارون، موسیٰ کے خلیفہ تھے۔ مگر ہاں تم نبی نہیں ہوگے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ اس جملہ کے فرمانے کی ضرورت یہ تھی 2215کہ جب حضرت علیؓ کو ہارون علیہ السلام سے مشابہت دی گئی تو شبہ پڑ سکتا تھا کہ آپ حضرت ہارون کی طرح نبی بھی ہوں گے۔ اس لئے آنحضرت ﷺ نے وضاحت فرمادی کہ تم میرے بعد خلیفہ ہوگے۔ نبی نہیں ہوگے۔
یہ تمام دلائل محض قیاسی ہیں اور کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کا جواب بھی قیاس ہوسکتا ہے۔ حضرت علیؓ کے صاحبزادوں کا جو قصہ بیان کیاگیا ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت علیؓ نے ’’ت‘‘ کی زیر سے اس لئے پڑھانا منع کیاہو کہ زیر سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت کا پہلو پوری طرح سے ظاہر نہیں ہوتا اور زبر سے پڑھانے سے دونوں پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں اور اگر یہ سمجھا جاوے کہ اس وقت حضرت علیؓ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ زیر سے پڑھانے سے نبوت کے منقطع ہونے کا مغالطہ پڑتا ہے کہ ان کے نزدیک حضور کے بعد نبوت جاری رہے گی تو جنگ تبوک کے موقعہ پر جب حضور ﷺ نے انہیں ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دے کر یہ فرمایا تھا کہ لا نبی بعدی۔ تو وہ عرض کر سکتے تھے کہ حضور ﷺ جب آپ مثل موسیٰ ٹھہرے اور میں مثل ہارون علیہ السلام تو میں بھی آپ کا چچازاد بھائی ہوں اس لئے آپ موسیٰ علیہ السلام کی طرح کیوں میرے حق میں دعا نہیں فرمادیتے کہ خدا مجھے بھی نبی بنادے اور باہمی مماثلت کی بناء پر کوئی عجب نہ تھا کہ حضور ﷺ کی دعا سے خدا انہیں بھی نبوت کا مرتبہ عطاء فرمادیتا۔
یہ محض ایسے قیاسات ہیں کہ جو ظنیات کی حد تک بھی نہیں پہنچتے اورمذہب میں جیسا کہ خود مدعا علیہ کی طرف سے تسلیم کیاگیا ہے قطعیات کا اعتبار ہوتا ہے۔ نہ ظنیات یا قیاسات کا۔ باقی رہا حضرت عائشہؓ کا قول اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے تین جواب دئیے گئے ہیں ایک! تو یہ ’’لا نبی بعدہ‘‘ کے کہنے سے چونکہ یہ اندیشہ تھا کہ کہیں کوئی بدعقیدہ شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے انکار نہ کر دے۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ خاتم النّبیین کہو۔ ’’لا نبی بعدہ‘‘ نہ کہو۔ دوسرا! یہ کہ خاتم النّبیین کے کہنے سے چونکہ دونوں مدعا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری اور افضل ہونا ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے آپؓ نے فرمایا کہ لا نبی بعدہ، نہ کہو بلکہ خاتم النّبیین کہو۔
2216تیسرا! یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے یہ حدیث خود روایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ نبوت ختم ہوچکی۔ سوائے اس کے اب مبشرات ہوں گے اور مبشرات کی تشریح آپ ﷺ نے یہ فرمائی کہ اچھی خوابیں اس لئے مدعیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت عائشہؓ کو خود اس حدیث کا علم تھا تو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ’’لا نبی بعدہ‘‘ کہنے سے اس لئے منع کیا کہ وہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کو جاری سمجھتی تھیں۔ یہ ایک بہت معقول جواب ہے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کو آپ نے منع کیا ہوگا کہ وہ لا نبی بعدہ نہ کہیں۔ تو انہوں نے آخر کوئی وجہ تو دریافت کی ہوگی۔ کیونکہ اس سے شبہ پڑ سکتا تھا کہ کیا آپ کے بعد نبوت جاری ہے۔ جو وہ ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ ایسی کوئی تفصیل بیان نہیں کی جاتی۔ اس لئے ان کے اس قول سے یہ کوئی دلیل نہیں پکڑی جاسکتی کہ وہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری سمجھتی تھیں۔
اس سلسلہ میں پھر مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ بھی واضح رہے کہ قرآن مجید میں الفاظ خاتم النّبیین ہیں آخر النّبیین نہیں۔ آخر کچھ تو بھید ہے کہ اﷲتعالیٰ نے آپ کے لئے آخر النّبیین نہیں کہا بلکہ خاتم النّبیین کہا۔
اس میں اوّل تو کوئی بھید نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ آخر النّبیین کا لفظ خاتم النّبیین کے مقابلہ میں زیادہ فصیح معلوم نہیں ہوتا اور قرآن مجید میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں ہوا جو غیر فصیح ہو۔ دوسرا اﷲتعالیٰ کو چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دونوں فضیلتیں یعنی آپ ﷺ کا آخر ہونا اور افضل ہونا دکھلانا مقصود تھیں۔ اس لئے خاتم النّبیین کا لفظ استعمال فرمایا گیا۔
اور اگر اﷲتعالیٰ کو اس میں کوئی بھید رکھنا منظور تھا تو پھر اس بھید کا کیا حل ہے کہ اﷲتعالیٰ نے جب قرآن مجید کو نور ہدایت اور فرقان فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت کرنے میں تمہاری فلاح ہے اور گزشتہ بہت سے انبیاء کی تفصیل بھی بیان فرمادی۔ لیکن آئندہ آنے والے نبیوں کے متعلق نہ کوئی صراحت فرمائی اور نہ یہ فرمایا کہ ان پر بھی ایمان لانا فرض ہوگا تو پھر قرآن کیونکر نور اور ہدایت ٹھہرا۔
2217مدعا علیہ کے ایک گواہ کا بیان ہے کہ جس حدیث میں آخر الانبیاء کا لفظ آیا ہے وہ خبر واحد ہے جو ظن کا مرتبہ رکھتی ہے اور عقائد میں ظنیات کام نہیں دیتے۔ لیکن افسوس کہ یہ کہتے وقت اسے شاید اپنے طریق استدلال پر نظر نہیں رہی کہ وہ کہاں تک قطعیات کی رو سے بحث کر رہا ہے۔
اس طرح اس نے ان احادیث کی بہت سی تاویلیں کی ہیں جن میں حضور ﷺ کے متعلق آخر کے الفاظ پائے جاتے ہیں اور عربی، فارسی، اردو شعراء اور مصنّفین کے اقوال کے حوالوںسے یہ دکھلایا ہے کہ لفظ آخر اکثر، بمعنی کمال استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر درج کیاگیا ہے یہ تمام بحث ایک علمی دلچسپی کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہاں بحث عقائد سے ہے نہ کہ الفاظ کے معنی سے اور چونکہ الفاظ زیر بحث سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری ہونا بھی پایا جاتا ہے۔ اس لئے اس معنی پر ہی آج تک امت کا عقیدہ چلا آیا ہے اور یہ عقیدہ جیسا کہ اوپر دکھلایا گیا ہے۔ اسلام کے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ہے۔ اس لئے اس عقیدہ کو تبدیل کرانا کسی ادیب عالم مفتی یا قاضی کا کام نہیں بلکہ یہ عقیدہ سوائے اس شخص کے جو مامور من اﷲ ہو اور کوئی تبدیل نہیں کراسکتا۔ اس پر پیچھے کافی بحث ہوچکی ہے کہ آیا مرزاصاحب نبی اور مامور من اﷲ ہیں یا نہ اور آخیر نتیجہ میں بھی اس پر بحث کی جائے گی۔
مدعا علیہ کی طرف سے شیخ محی الدین ابن عربیؒ اور دیگر بزرگان کے اقوال نقل کئے جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان کے نزدیک بھی نبوت مرتفع ہونے سے یہ مراد ہے کہ شریعت والی نبوت مرتفع ہوگئی نہ کہ مقام نبوت اور کہ وہ حضور ﷺ کے قول لا نبی بعدی کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ آپ کے بعدکوئی ایسا نبی نہیں ہوگا جو آپ ﷺ کی شریعت کے خلاف ہو۔ بلکہ جب بھی ہو گا آپ ﷺ کی شریعت کے ماتحت ہوگا۔
مدعیہ کی طرف سے ان اقوال کی توجیہیں بیان کی گئی ہیں اور ان بزرگان کے دیگر اقوال سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آخری نبی ہونے کے قائل تھے۔ لیکن قطع 2218نظر اس کے یہ ممکن ہے کہ یہ اقوال لکھتے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ان لوگوں کے ذہن میں ہو اور اس لئے یہ کہا گیا ہو کہ آپ ﷺ کے بعد جب بھی کوئی نبی ہوگا وہ آپ ﷺ کی شریعت کے ماتحت ہوگا۔ اس کا فیصلہ تو ان کی کتابوں کے دیکھنے سے پوری طرح کیا جاسکتا ہے۔ ان حوالوں کو چونکہ اس فیصلہ میں بحث سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس لئے ان پر زیادہ رائے زنی کی ضرورت نہیں اور اگر ان تحریروں کا مطلب مدعا علیہ کے ادّعا کے مطابق بھی صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو پھر دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ ان کی ذاتی رائے ہے یا امت کا عقیدہ۔ اگر ان تحریروں کے بعد امت نے اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کیا اور ان کا عقیدہ جوں کا توں رہا ہے اور اس میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا تو پھر یہ تحریریں ان کی ذاتی اور شخصی رائے کے سوا اور کوئی وقعت نہیں رکھتیں اور اگر ان کے یہ اقوال ان کا کشف بھی سمجھے جاویں تو بھی جیسا کہ سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے کہا ہے۔ دین کے معاملہ میں وہ دوسروں پر کوئی حجت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ دینی معاملات میں سوائے نبی کی وحی کے اور کوئی بات قطعی نہیں ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کی دوسری حدیث پر جس میں آپ ﷺ نے بنی اسرائیل کے نبیوں کے متعلق کہا ہے کہ جب ان میں ایک نبی فوت ہوتا تھا تو فوراً اس کا خلیفہ نبی ہوتا تھا۔ مدعا علیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہاں حضور ﷺ کی مراد بعدیت متصلہ ہے۔ یعنی آپ کے فوراً بعد ایسا نہیں ہوگا اور امت محمدیہ میں فوراً نبی کی ضرورت نہ ہوگی۔ لیکن اوّل تو اس حدیث کے یہ معنی تاویلی ہیں۔ دوسرا نہیں کہا جاسکتا کہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں ایسا کوئی زمانہ نہیں آیا کہ جس میں نبی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔ علاوہ ازیں مرزاصاحب کے لئے مدعا علیہ جس قسم کی نبوت ثابت کرنا چاہتا ہے اس کی اس معنی سے تائید نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کے نزدیک مرزاصاحب کو جو نبوت ملی وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کمال اتباع اور فیض سے ملی ہے اور یہ پایا جاتا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں ہی حضرت عمرؓ حضور ﷺ کے ایسے متبعین میں سے تھے کہ جن کی زبان پر فرشتے کلام کرتے تھے اور ان کی بابت حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمرؓ ہوتے اور یہ بھی کہا کہ 2219اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو حضرت عمرؓ مبعوث ہوتے۔ تو کیا حضرت عمرؓ سے بڑھ کر اس وقت حضور ﷺ کی اتباع کی لحاظ سے کوئی شخص نبوت کا مستحق ہوسکتا تھا؟ لیکن مدعا علیہ کی مذکورہ بالا صراحت کے مطابق وہ حضور ﷺ کے بعد اس لئے نبی نہ بنے کہ اس وقت نبی کی ضرورت نہ تھی۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے اتباع سے نبوت ملنے کے ساتھ مشیت میں یہ بھی مقدر ہے کہ اس قسم کے نبوت اس وقت دی جاوے جس وقت کہ اس کی ضرورت ہو اور اس سے مدعا علیہ کے اس اصول کی نفی ہو جاتی ہے کہ حضور ﷺ کے کمال اتباع اور فیض سے نبوت مل سکتی ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ضرور ہے کہ حضرت عمرؓ کو نبوت عطا ہو جاتی۔ کیونکہ وہ نہ صرف کامل متبعین میں سے تھے۔ بلکہ حضور ﷺ کے خاص مورد الطاف تھے اور جیسا کہ حضور ﷺ کے الفاظ سے اخذ ہوتا ہے حضور ﷺ یہ چاہتے تھے کہ وہ نبی ہوں۔ لیکن چونکہ آپ ﷺ کے بعد نبوت منقطع ہوچکی تھی۔ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت عمرؓ نبی نہیں ہوسکتے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس حدیث کو کہ میرے بعد اگر نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے، ضعیف کہاگیا ہے اور پھر اس ضمن میں لفظ بعد کے بہت سے تاویلی معنی کئے گئے ہیں اور شاید اس لئے کہ یہ حدیث مدعا علیہ کے منشاء کے بالکل مخالف تھی۔ حدیث کے الفاظ ایسے مبہم نہیں کہ ان کے مفہوم کے لئے کسی تاویل کی ضرورت ہو۔ ان سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہاںبعد سے کیامراد ہے۔
ختم نبوت کے بارہ میں مدعیہ کی طرف سے جو حدیث بیت النبوت والی پیش کی گئی ہے۔ اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ اس میں من قبلی کے الفاظ ہیں اور ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مثال ان انبیاء کی نسبت سے ہے جو حضور ﷺ سے پہلے ہوگذرے ہیں۔ آئندہ کسی نبی کے آنے یا نہ آنے کا اس میں ذکر نہیں۔ لیکن یہ حجت اس لئے درست نہیں کہ اس حدیث میں نبوت کو ایک گھر سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس کی تکمیل کے سلسلہ میں یہ کہاگیا ہے کہ وہ آپ ﷺ کے وجود سے قبل غیر مکمل تھا۔ آپ ﷺ کے تشریف لانے پر مکمل ہوگیا۔ اگر آئندہ انبیاء کا سلسلہ جاری رہنا تسلیم کیا جاوے تو پھر اس گھر کی تکمیل لازم نہیں آتی۔ یہ سمجھانے کے لئے کہ اب سلسلہ 2220انبیاء میں سے اور کوئی باقی نہیں۔ نبوت کو ایک گھر سے تشبیہ دی گئی اور جیسا کہ گھر کی چنائی اینٹوں سے کی جاتی ہے۔ اس سے بیت نبوت کی چنائی انبیاء سے ہوئی اور جو ایک اینٹ اس گھر کی تکمیل کو ناقص بنائے ہوئے تھی وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تشریف لانے پر پوری ہوگئی۔ اس مثال سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ مشیت ایزدی میں جو تعداد انبیاء مقرر تھی وہ آپ ﷺ کے تشریف لانے سے پوری ہوچکی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انبیاء کی تعداد میں اب کوئی عدد باقی نہیں رہا۔ اس لئے سابقہ اعداد میں سے ایک کو واپس لانا پڑا ہے۔ اس پر مدعا علیہ کی طرف سے یہ اعتراض کیاگیا ہے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کا آنا تسلیم کیا جاوے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ مکان کی تعمیر ادھوری رہ گئی۔ لیکن یہ حجت اس لئے قائم نہیں رہ سکتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس مکان کی تعمیر میں پہلے شامل ہوکر اسے مکمل کر چکے ہیں اور نئے نبی اگر ابھی اور آنے باقی ہوں تو پھر اس عمارت کی تعمیر مکمل نہیں سمجھی جاسکتی۔ اس کی تکمیل اس وقت سمجھی جائے گی جب تمام انبیاء ختم ہوچکیں۔ اس لئے اسے اس وقت میں مکمل سمجھا جائے گا جب کہ تمام انبیاء کا سلسلہ ختم نہ ہو لے۔ حضور ﷺ کا اس عمارت کو اپنی تشریف آوری سے مکمل فرمادینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ کے بعد تعداد انبیاء میں سے اور کچھ باقی نہیں۔ حضرت عیسیٰ کا آنا ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے تکمیل شدہ مکان میں سے کچھ اینٹیں اکھاڑ کر بشرط ضرورت دوسری جگہ لگادے۔ اس پر یہ کہا جائے گا کہ اس نے اپنے مکان کو اکھیڑا، یہ نہ کہا جائے گا کہ اس نے مکان کومکمل نہیں کیا۔ کیونکہ اس کی تکمیل پہلے ہوچکی تھی۔
مدعا علیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب کا نبی ہونا اس مکان کی تعمیر کا منافی نہیں۔ کیونکہ انہیں حضور ﷺ کے فیض سے نبوت ملی ہے۔ اس لئے یہ نبوت اس مکان بیت النبوت کی تکمیل کا سلسلہ شمار ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ایک مکمل چیز پر اگر کوئی اور زائد چیز بطور اضافہ شامل کیا جاوے تو اس سے دو ہی صورتیں پیدا ہوں گی یا تو وہ زائد چیز اس کی زینت کو 2221بڑھادے گی یا اسے بدزیب کر دے گی۔ اب اگر مرزاصاحب کو بیت النبوۃ پر چسپاں کیا جاوے تو وہ یا تو اس کی زینت کو بڑھائیں گے یا اسے بدزیب کریں گے۔ اگر سمجھا جاوے کہ انسے اس کی زینت بڑھے گی تو اس سے وہ افضل الانبیاء ہو جائیں گے نہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، اور یہ بات ان کے اپنے عقیدہ کے بھی خلاف ہے۔ اب صاف ہے کہ ان کے اس بیت النبوۃ پر چسپاں ہونے سے دوسری ہی صورت پیدا ہوگی اور اس گھر کی تکمیل میں وہ زائد از ضرورت ہی رہیں گے۔ اس لئے اس حدیث سے جس کی صحت سے مدعا علیہ کو بھی انکار نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری نبی ہونا پوری طرح ثابت ہو جاتا ہے۔
مدعیہ کی طرف سے ایک اور حدیث کا حوالہ دیاگیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس کذاب ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو نبی خیال کرے گا۔ حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ کے بعد قیامت تک جو بھی دعویٰ نبوت کرے وہ ضرور جھوٹا ہے۔ کیونکہ آخر زمانہ میں آنے والے مسیح موعود کو خود حضور ﷺ نے بھی نبی اﷲ کے لقب سے ملقب فرمایا ہے۔ دوسرا تیس کی تعین بھی بتلارہی ہے کہ کوئی سچا بھی آسکتا ہے۔ تیسرا اس حدیث کا مضمون آج سے قریباً پانچ سو برس پہلے پورا ہوچکا ہے۔ کیونکہ ۳۰دجال وکذاب گزر چکے ہیں۔ اس کا جواب ایک تو خود گواہ مدعا علیہ نے ہی دے دیا ہے کہ اس کے علاوہ اور بھی حدیثیں ہیں کہ جس میں کذابوں کی تعداد کم وبیش ۷۰ تک بیان کی گئی ہے۔ اس لئے سمجھا جائے گا کہ حضور ﷺ نے ۳۰ کی کوئی متعین تعداد بیان نہیں فرمائی بلکہ اس قسم کے اعداد بیان کرنے سے حضور ﷺ کی مراد کذابوں کی کثرت بیان کرنے سے تھی۔ کیونکہ اگر مدعا علیہ کی بحث کی رو سے یہ قرار دیا جاوے کہ ایسے کذابوں کی صحیح تعداد ۲۷ ثابت ہے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو تیس کذاب اس سے قبل گذرنے بیان کئے جاتے ہیں ان میں سے تین ضرور سچے ہوں گے۔ لیکن ایسا ثابت نہیں ہوتا اور ان باقی مانندہ تین کو بھی دنیا نے جھوٹا ہی سمجھا اور انہیں بھی کذابوں کی ذیل میں داخل کیاگیا۔ دوسرا مسیح موعود کے آنے کی استثناء خود حضور ﷺ نے فرمادی اور ساتھ ہی اس کا نام عیسیٰ ابن مریم بتلا کر اسے نام سے ہی مشخص فرمادیا۔ علاوہ ازیں اگر سچے نبی ہوسکتے تھے تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ جہاں حضور ﷺ نے جھوٹے نبیوں کی آمد اور ان کی تعداد کی اطلاع دی تھی۔ وہاں اس کی 2222تصریح کیوں نہ فرمائی کہ اس کے بعد سچے نبی بھی آئیں گے اور اس قدر آئیں گے۔ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ امت کو ایک گمراہی سے بچا کر دوسری گمراہی میں ڈال دیا جاتا اور انہیں جھوٹے اور سچے نبی میں تمیز کرنے کے لئے کوئی معیار نہ بتلایا جاتا۔ اس لئے یہ حدیث بھی مشیت ادعا مدعیہ اور مدعا علیہ کی حجت کے منافی ہے۔
لہٰذا اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔
اس کے بعد مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ مسیلمہ کذاب وغیرہ کاذب مدعیان نبوت کے جو حوالے مدعیہ کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں اور یہ کہاگیا ہے کہ انہیں اس بناء پر قتل کیاگیا کہ انہوں نے دعویٔ نبوت کیا تھا۔ یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کے ساتھ صحابہؓ کا جنگ کرنا محض اس وجہ سے تھا کہ انہوں نے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کامقابلہ کر کے خود بادشاہ بننا چاہا تھا اور نبوت کے دعویٰ کو اس کے حصول کے لئے انہوں نے صرف ایک ذریعہ بنایا تھا۔ اگر مدعا علیہ کا یہ ادعا درست بھی سمجھ لیا جاوے تو چونکہ اس کے ساتھ ہی وہ بیان کرتا ہے کہ انہوں نے دعویٰ نبوت کو حصول حکومت کے لئے ایک ذریعہ بنایا تھا تو اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ جس بناء پر وہ اپنے آپ کو حکومت کا حقدار سمجھتے تھے۔ صحابہؓ نے اسے بھی نادرست سمجھا تھا۔ اگر صحابہ کے ذہن میں یہ ہوتا کہ حضور ﷺ کے بعد نبوت ہوسکتی ہے تو وہ ان کی نبوت کے متعلق پورا اطمینان کرتے اور اس کے بعد ان کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کرتے۔ خلافت ارضی جلیل القدر انبیاء کی نبوت کا ایک جزو لاینفک رہی ہے اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالا مدعیان نبوت خلافت ارضی کو لوازمات نبوت میں سے سمجھتے ہوئے دعویٰ نبوت کے بعد اس کے لئے کوشاں ہوئے ہوں تو اس صورت میں صحابہؓ کا ان کے ساتھ جنگ کرنا دعویٰ نبوت کی بناء پر متصور ہوگا نہ کہ بغاوت کی بناء پر۔ کیونکہ انہیں باغی مرتد اور کافرقرار دیا جاکر سمجھا گیا۔ 2223اس سلسلہ میں مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں۔