نبی نہ ماننے کی حقیقت
لاہوری جماعت اگرچہ اعلان تو یہی کرتی ہے کہ ہم مرزاصاحب کو نبی نہیں مانتے۔ بلکہ ’’مجدد‘‘ مانتے ہیں۔ لیکن ’’مجدد‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ بعینہ وہ جسے قادیانی جماعت ظلی اور بروزی نبی کہتی ہے۔ چنانچہ محمد علی لاہوری صاحب اپنی کتاب ’’
النبوۃ فی الاسلام
‘‘ میں جو جماعت لاہور کی علیحدگی کے بہت بعد کی تصنیف ہے۔ لکھتے ہیں:
’’انواع نبوت میں سے وہ نوع جو محدث کو ملتی ہے وہ چونکہ بباعث اتباع اور فانی الرسول کے ملتی ہے۔ جیسا توضیح المرام میں لکھا تھا کہ وہ نوع مبشرات ہے۔ اس لئے وہ تحدید ختم نبوت سے باہر ہے اور یہ حضرت مسیح موعود ہی نہیں کہتے بلکہ 1934حدیثوں نے صاف طور پر ایک طرف محدثوں کا وعدہ دے کر اور دوسری طرف مبشرات کو باقی رکھ کر یہی اصول قرار دیا ہے۔ گویا نبوۃ تو ختم ہے۔ مگر ایک نوع نبوت باقی ہے اور وہ نوع نبوت مبشرات ہیں۔ وہ ان لوگوں کو ملتی ہے جو کامل طور پر اتباع حضرت نبی کریمﷺ کا کرتے ہیں اور فنافی الرسول کے مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔ اب بعینہ اسی اصول کو چشمہ معرفت میں جو آپ (یعنی مرزاغلام احمد صاحب) کی سب سے آخری کتاب ہے۔ بیان کیا ہے، دیکھو ص۳۲۴۔ تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے۔ مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں، یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں۔ کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے، یعنی اس کا ظل ہے اور اس کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہر ہے۔‘‘
اب دیکھو کہ یہاں بھی نبوت کو تو ختم ہی کہا ہے۔ لیکن ایک قسم کی نبوت باقی بتائی ہے اور وہ وہی ہے جو آنحضرتﷺ کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور اسی کتاب کے صفحہ۱۸۲ پر یہ بھی صاف لکھ دیا ہے کہ:
’’وہ نبوت جس کو ظلی نبوت یا نبوت محمدیہ وہ وہی مبشرات والی نبوت ہے۔‘‘
(النبوۃ فی الاسلام ص۱۵۰، مطبوعہ لاہور)
آگے مرزاغلام احمد قادیانی کی عبارتوں کی تشریح کرتے ہوئے اور انہیں درست قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’درحقیقت جو کچھ فرمایا ہے (یعنی مرزاغلام احمد صاحب نے جو کچھ کہا ہے) اگر اس کے الفاظ میں تھوڑا تھوڑا تغیر ہو، مگر ماحصل سب کا ایک ہی ہے، یعنی یہ کہ اوّل فرمایا کہ صاحب خاتم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ پھر فرمایا کہ صاحب خاتم ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس کی مہر سے 1935ایک ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے۔ اب امتی ہونے کے معنی یہی ہیں کہ کامل اطاعت آنحضرتﷺ کی کی جائے اور اپنے آپ کو آنحضرتﷺ کی محبت میں فنا کردیا جائے تب آپﷺ کے فیض سے ایک قسم کی نبوت بھی مل سکتی ہے۔ وہ نبوت کیا ہے؟ اس کو آخر میں جاکر صاف حل کر دیا ہے کہ وہ ایک ظلی نبوت ہے۔ جس کے معنی ہیں فیض محمدی سے وحی پانا اور یہ بھی فرمایا کہ وہ قیامت تک باقی رہے گی۔‘‘
(النبوۃ فی الاسلام از محمد علی لاہوری صاحب ص۱۵۳)
محمد علی لاہوری صاحب کی ان عبارتوں کو اہل قادیان اور اہل ربوہ کے ان عقائد سے ملا کر دیکھئے جو پیچھے بیان ہوچکے ہیں۔ کیا کہیں کوئی فرق نظر آتا ہے؟ لیکن آگے فرق ظاہر کرنے کے لئے لفظوں کا یہ کھیل بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’حضرت مسیح موعود نے اپنی پہلی اور پچھلی تحریروں میں ایک ہی اصول باندھا ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ باب نبوت تو مسدود ہے۔ مگر ایک نوع کی نبوت مل سکتی ہے۔ یوں نہیں کہیں گے کہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ بلکہ یہ کہیں گے نبوت کا دروازہ بند ہے۔ مگر ایک نوع کی نبوت باقی رہ گئی ہے اور قیامت تک رہے گی۔ یوں نہیں کہیں گے کہ ایک شخص اب بھی نبی ہوسکتا ہے۔ یوں کہیں گے کہ ایک نوع کی نبوۃ اب بھی آنحضرتﷺ کی پیروی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کا نام ایک جگہ مبشرات، ایک جگہ جزوی نبوت، ایک جگہ محدثیت، ایک جگہ کثرت مکالمہ رکھا ہے۔ مگر نام کوئی بھی رکھا ہو، اس کا بڑا نشان یہ قرار دیا ہے کہ وہ ایک انسان کامل محمد رسول اﷲﷺ کی اتباع سے مل سکتی ہے۔ وہ فنا فی الرسول۱؎ سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ 1936نبوت محمدیہ کی مستفاض ہے، وہ چراغ نبویؐ کی روشنی ہے، وہ اصلی کوئی چیز نہیں، ظل ہے۔‘‘
(حوالہ بالا ص۱۵۸)
کیا یہ لفظوں کے معمولی ہیرپھیر سے ظل وبروز کا بعینہ وہی فلسفہ نہیں ہے جو مرزا صاحب اور قادیانی جماعت کے الفاظ میں پیچھے بیان کیا جاچکا ہے؟ اگر ہے اور یقینا ہے تو حقیقت کے لحاظ سے قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت میں فرق کیا رہ گیا؟ اور یہ صرف محمد علی لاہوری صاحب ہی کا نہیں، پوری لاہوری جماعت کا عقیدہ ہے۔ چنانچہ قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت کے درمیان جو مباحثہ راولپنڈی میں ہوا اور جسے دونوں جماعتوں نے مشترک خرچ پر شائع کیا، اس میں لاہوری جماعت کے نمائندے نے صراحتاً کہا کہ:
’’حضرت (یعنی مرزاغلام احمدصاحب) آنحضرتﷺ کے اظلال میں ایک کامل ظل ہیں۔ پس ان کی بیوی اس لئے ام المؤمنین ہے اور یہ بھی ظلی طور پر مرتبہ ہے۔‘‘
(مباحثہ راولپنڈی ص۱۹۶)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ فنا فی الرسول سے نبوت مل جاتی ہے تو شاید فنافی اﷲ سے خدائی بھی مل جاتی ہوگی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نیز اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ: ’’حضرت مسیح موعود نبی نہیں، بلکہ آنحضرتﷺ کی نبوت ان میں منعکس ہے۔‘‘
(مباحثہ راولپنڈی ص۱۵۳)
یہ سب وہ عقائد ہیں جنہیں لاہوری جماعت اب بھی تسلیم کرتی ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ مرزاغلام احمد کی نبوت کے مسئلہ میں قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت میں صرف لفظی ہیرپھیر کا اختلاف ہے۔ لاہوری جماعت اگرچہ مرزاصاحب کا لقب مسیح موعود اور مجدد رکھتی ہے۔ لیکن ان الفاظ سے ان کی مراد بعینہ وہ ہے جو قادیانی جماعت ظلی، بروزی یا غیرتشریعی یا امتی نبی کے الفاظ سے مراد لیتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ لاہوری جماعت کا مسلک یہ ہے کہ 1937مسیح موعود، مجدد اور مہدی کا یہ مقام جسے مرزاصاحب نے ہزارہا مرتبہ لفظ نبی سے تعبیر کیا اور جس کے لئے وہ خود ۱۹۱۴ء تک بلاتکلف یہی لفظ استعمال کرتے رہے۔ خلافت کا نزاع پیدا ہونے کے بعد اس کے لئے ’’نبوت‘‘ کا لفظ اور صرف لفظ مجازی یا لغوی قرار پاگیا۔ جسے مرزاصاحب کی عبارتوں کی تشریح کے لئے اب بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن عام تحریروں میں اس کا استعمال مصلحتاً ترک کر دیا گیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم نے بالکل صحیح بات کہی تھی کہ: ’’تحریک احمدیت دو جماعتوں میں منقسم ہے جو قادیانی اور لاہوری جماعتوں کے نام سے موسوم ہیں۔ اوّل الذکر جماعت بانی احمدیت کو نبی تسلیم کرتی ہے۔ آخر الذکر نے اعتقاداً یا مصلحتاً قادیانیت کی شدت کو کم کر کے پیش کرنا مناسب سمجھا۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۴۹، المنار اکادمی مطبوعہ ۱۹۴۷ئ)
یہاں یہ حقیقت بھی واضح کر دینا مناسب ہے کہ لاہوری صاحبان نے جو تاویل کی ہے کہ مرزاصاحب نے ہر جگہ اپنے لئے لفظ نبی مجازی یا لغوی طور پر استعمال کیا ہے۔ حقیقت نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۱؎۔ اس تاویل کے لئے انہوں نے حقیقت نبوت کی ایک مخصوص اصطلاح گھڑی ہے جو شرعی اصطلاح سے بالکل الگ ہے۔ اس حقیقت نبی کے لئے انہوں نے بہت سی شرائط عائد کی ہیں جن میں سے چند یہ بھی ہیں:
۱… ’’حقیقی نبی صرف وہ ہوگا جس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے ہوں۔ نزول جبرائیل کے بغیر کوئی حقیقی نبی نہیں ہوسکتا۔‘‘
(النبوۃ فی الاسلام از محمد علی لاہوری ص۲۸، ملخص)
۲… ’’حقیقی نبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ سابقہ شریعت کو منسوخ یا اس میں ترمیم کر سکے۔‘‘
(النبوۃ فی الاسلام ص۴۷ ملخص)
۳… ’’حقیقی نبی کی وحی عبادات میں پڑھی جاتی ہے۔‘‘
(النبوۃ فی الاسلام ص۵۶)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ اگرچہ مرزاقادیانی کی بے شمار تحریریں اس دعویٰ کی بھی تردید کرتی ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1938۴… ’’ہر حقیقی نبی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کتاب لائے۔‘‘
(النبوۃ فی الاسلام ص۶۰ ملخص)
حقیقی نبوت کے لئے اس طرح کی بارہ شرائط عائد کرنے کے بعد انہوں نے ثابت کیا ہے کہ چونکہ یہ شرائط مرزاصاحب کی نبوت میں نہیں پائی جاتیں۔ اس لئے ان پر حقیقی معنی میں لفظ نبی کا اطلاق درست نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ شریعت کی معروف اصطلاح میں نبی کے لئے نہ کتاب لانا ضروری ہے، نہ یہ ضروری ہے کہ اس کی وحی عبادتوں میں ضرور ہی پڑھی جائے۔ نہ یہ لازمی ہے کہ نبی اپنے سے پہلی شریعت کو ہمیشہ منسوخ ہی کر دے اور نہ نبوت کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ اس میں وحی لانے والے ہمیشہ جبرائیل علیہ السلام ہی ہوں۔ لہٰذا ’’حقیقی نبوت‘‘ صرف اسی نبوت کو قرار دینا جس میں یہ ساری شرائط موجود ہوں۔ محض ایک ایسا حیلہ ہے جس کے ذریعہ کبھی مرزاصاحب کونبی قرار دینا اور کبھی ان کی نبوت سے انکار کرنا آسان ہو جائے۔ کیونکہ یہ شرائط عائد کرکے تو بہت سے انبیائے بنی اسرائیل کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ’’حقیقی نبی‘‘ نہیں تھے۔ کیونکہ نہ ان پر کتاب اتری نہ ان کی وحی کی تلاوت کی گئی اور نہ وہ کوئی نئی شریعت لے کر آئے لیکن وہ انبیاء تھے۔