(نزول مسیح کا انکار)
اب انیسویں صدی کے آخیر میں مرزاغلام احمد صاحب قادیانی نے جو مدعا علیہ کے پیشوا ہیں ان روایات کی جو نزول عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مسلمانوں میں مشہور چلی آتی تھیں یہ تعبیر کی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جو مسیح ناصری تھے فوت ہوچکے ہیں۔ انہوں نے واپس نہیں آنا اور نہ ان کا واپس آنا بروئے آیات قرآنی ممکن ہے اور نہ وہ نبی ہوکر امتی ہوسکتے ہیں۔ بلکہ امتی نبی سے یہ مراد ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے کمال اتباع اور فیض سے ان کے کسی امتی کو نبوت کا درجہ عطاء کیا جائے گا اور اس تعبیر کے ساتھ انہوں نے اس درجہ کا اپنے لئے مختص ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس دعویٰ کی تائید میں فریق ثانی کی طرف سے جو دلائل اور سندات وغیرہ پیش کی گئی ہیں ان پر آگے بحث کی جائے گی۔ اب صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ جن لوگوں نے مرزاصاحب کے اس دعویٰ کو صحیح تسلیم کر کے ان کی تعلیم پر چلنا شروع کر دیا ہے۔ انہیں لوگ مرزاصاحب کے ساتھ اور ان کے مسکن قادیان کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے بعض اوقات مرزائی کہتے ہیں اور بعض اوقات قادیانی اور قادیانی مرزائی کہنے سے ایک اور تعبیر بھی لی جاتی ہے وہ یہ کہ مرزاصاحب کے متبعین کے دو فرقے ہیں۔ ایک لاہوری اور دوسرے قادیانی۔ لاہوری انہیں نبی نہیں مانتے۔ قادیانی انہیں نبی مانتے ہیں۔ اس لئے قادیانی مرزائی کہنے سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ وہ شخص جس کے متعلق یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ مرزاصاحب کے ان متبعین میں سے ہے جو انہیں نبی مانتے ہیں۔ مقدمہ ہذا میں مدعا علیہ پر اسی مفہوم کے تحت یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔
2136اس فرقہ کا تیسرا نام احمدی ہے۔ جس کے متعلق فریق ثانی کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اس جماعت کے امیر نے اپنی جماعت کے لئے تجویز کر کے گورنمنٹ سے اس نام سے اپنی جماعت کو موسوم کئے جانے کی منظوری حاصل کی ہوئی ہے۔
مسلمانوں کے نزدیک قرآن مجید کے بعد سند اور اعتبار کے لحاظ سے احادیث کا درجہ ہے جو حضرت رسول کریمﷺ کے اقوال کا مجموعہ ہیں۔ اب مدعیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب کا دعویٰ غلط ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کی رو سے حضرت محمد مصطفیٰﷺ خاتم النّبیین ہیں۔ ان کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔ مرزاصاحب کے اعتقادات شرعاً درست نہیں ہیں۔ بلکہ کفر کی حد تک پہنچتے ہیں۔ اس لئے ان کو نبی تسلیم کرنے والا اور ان کی تعلیم پر چلنے والا بھی کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہوجاتا ہے اور کسی سنی عورت کا نکاح جو قبل از ارتداد اس کے ساتھ ہوا ہو شرعاً قائم نہیں رہتا اور اس اصول کے تحت مدعیہ کا نکاح مدعا علیہ کے قادیانی، مرزائی ہو جانے کی صورت میں اس کے ساتھ قائم نہیں رہا۔ لہٰذا ڈگری انفراق زوجیت دی جاوے۔