نقل اجماع
۱… قرآن پاک کی صریح روایات اور خود سرور کائنات کی تفسیر پھر صحابہ کرامؓ کی متواتر روایات کے بعد کسی اجماع کے نقل کی ضرورت نہیں ہے۔ جب کہ کسی صحابیؓ نے اس معروف ومشہور تفسیر کا انکار بھی نہیں کیا۔ جب کہ اس کا تعلق کفر وایمان سے تھا تو یہ بات بجائے خود تمام اسلاف کا اجماع ہوگیا کہ سرور عالم ﷺ کی تشریف آوری اور بعثت سے انبیاء علیہم السلام کی تعداد پوری ہو چکی ہے اور خاتم النّبیین کے بعد کسی قسم کا پیغمبر کسی نام سے نہیں بن سکتا اور اگر یہ مان لیا جائے کہ خاتم النّبیین اور لا نبی بعدی اور خاتم الانبیاء کا معنی تیرہ سو سال تک صحابہؓ اور تابعین اور کاملین اسلام پر باوجود پوری کوشش وکاوش کے کھل نہ سکا تو قرآن پاک ہدایت کی کتاب کیسی ہوئی۔ العیاذ باﷲ! چیستان ہوگئی اور پھر آج کے نئے معنوں کا کیا اعتبار رہ سکتا ہے؟
۲… تفسیر روح المعانی میں ہے: ’’ وکونہ ﷺ خاتم النّبیین ممانطق بہ الکتاب وصدقت بہ السنۃ واجمعت علیہ الامۃ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصرّ (روح المعانی ج۲۲ ص۳۹، زیر آیت خاتم النّبیین)‘‘ 2407{اور آنحضرت ﷺ کا آخر النّبیین ہونا ان مسائل میں سے ہے جن پر قرآن نے تصریح کی اور جن کو احادیث نے صاف صاف بیان کیا اور جن پر امت نے اجماع کیا۔ اس لئے اس کے خلاف دعویٰ کرنے والے کو کافر سمجھا جائے گا اور توبہ نہ کرے بلکہ اپنی بات پر اصرار کرے تو قتل کر دیا جائے گا۔}
۳… حجۃ الاسلام امام غزالیؒ نے اپنی کتاب (اقتصاد ص۱۲۳، مطبوعہ مصر، الباب فی بیان من یجب التکفیر من الفرق) میں اس مسئلہ کو یوں بیان فرمایا ہے کہ جس نے اس کی تاویل کی وہ بکواس ہے۔ امت کا اجماع ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آسکتا۔ اس میں کسی قسم کی تاویل وتخصیص نہیں ہے۔
۴… (شرح عقائد سفارینی ص۲۵۷) پر بھی احادیث کے متواتر ہونے کا قول فرمایاہے۔
اس مسئلہ پر ہم اتنے ہی پر اکتفاء کرتے اور ساتھ ہی حضرت مولانا مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحبؒ کراچی کی کتاب منسلک کرتے ہیں جس میں سو آیات سے اور دوسو حدیثوں سے اور سینکڑوں اقوال سلف صالحین سے مسئلہ ختم نبوت ثابت کیاگیا اور مخالفین کے تمام اوہام اور وساوس کا تار پود بکھیر کے رکھ دیا ہے۔ جو تفصیل دیکھنا چاہے یہ کتاب دیکھے۔
البتہ مرزائیوں کا منہ بند کرنے کے لئے خود مرزاجی کے تین قول نقل کر دیتے ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۲۰، خزائن ج۷ ص۲۰۰) پر لکھا ہے۔
2408۱… ’’ لانہ یخالف قول اﷲ عزوجل ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمّٰی نبینا ﷺ خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرّہ نبینا فی قولہ لا نبی بعدی ببیان واضح للطالبین… وقد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اﷲ بہ النّبیین ‘‘
’’اس لئے کہ یہ خداتعالیٰ کے اس قول کے مخالف ہے ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ کیا تو نہیں جانتا کہ خدائے مہربان نے ہمارے نبی کا نام بغیر استثناء کے خاتم الانبیاء رکھا اور ہمارے نبی نے اس کی تفسیر لا نبی بعدی میں واضح بیان سے صاحب طلب لوگوں کے لئے کر دی (دوسطروں کے بعد) اور وحی منقطع ہوچکی ہے۔ آپ کی وفات کے بعد اور اﷲتعالیٰ نے آپ کے ذریعہ نبیوں کو ختم کر ڈالا ہے۔‘‘ مرزاغلام احمد کے اس قول سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ سرور عالم ﷺ کی وفات شریف کے بعد وحی بند ہوچکی ہے اور اﷲتعالیٰ نے بغیر کسی استثناء کے آپ ﷺ کو خاتم الانبیاء قرار دیا دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ لانبی بعدی قرآن پاک کی واضح تفسیر ہے۔
۲… مرزاجی نے اسی کتاب (حمامتہ البشریٰ) پر لکھا ہے:
’’ وماکان لی ان ادعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم کافرین ‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
’’اور میرے لئے یہ جائز نہیں کہ نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافروں سے جا ملوں۔‘‘
یعنی دعویٰ نبوت کرنا کافر ہونا ہے۔
2409۳… ’’ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ‘‘
’’یعنی محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ مگر وہ رسول اﷲ ہیں اور ختم کرنے والا نبیوں کا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۱۴، خزائن ج۳ ص۴۳۱)
اب مرزائیوں کو خاتم النّبیین کے معنوں میں بحث نہیں کرنی چاہئے۔