• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

وباء کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے

ابوعبداللہ

رکن ختم نبوت فورم
وباء کے زمانے میں اذان دینا

سب سے اول یہ واضح کرنا لازم ہے کہ
اھل سنت کے نزدیک وباء کے زمانے میں اذان دینے کی حثیت کیا ہے۔
کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مخالفین اپنا من مانا اور من چاہا مفہوم اھل سنت کےذمے لگا کر شد و مد سے اس کا رد فرما رہے ہوتے ہیں۔
وباء کے زمانے میں اذان دینا اھل سنت کے نزدیک مستحب عمل ہے۔ امام اھل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمۃ الرحمٰن نے فتاوی رضویہ میں وبا کے زمانے میں اذان دینے کو مستحب لکھا ہے۔

فتاویٰ رضویہ جلد 5 ص 370 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن
اس کے استحباب کے ثبوت پر
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ایک رسالہ " نسیم الصباء ان فی الاذان یحول الوباء"بھی لکھا ہے جو بدقسمتی سے اس وقت مفقود ہے۔
دلائل :

حدیث مرفوع

حدثنا صالح بن شعیب البصری، ثنا بکر بن محمد القرشی ، ثنا عبد الرحمٰن بن سعد بن عمار بن سعد عن صفوان بن سلیم عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اذا اذن فی قریة امنھا اللہ من عذابه ذالک الیوم

المعجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث 746


تخریج : ( مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، کتاب الصلوٰۃ، باب فضل الاذان، رقم الحدیث 1873، معجم الاوسط للطبرانی،باب الصاد، من اسمه صالح، رقم الحدیث 3684، معجم الصغیر للطبرانی ، باب الصاد، من اسمه صالح، جلد 1 ص 179)

ترجمہ :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کسی بستی میں اذان دی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس دن اس کو اپنے عذاب سے امان میں دے دیتا ہے ۔

اس روایت کے تمام راوی صدوق و حسن الحدیث ہیں سوائے ایک راوی عبد الرحمٰن بن سعد بن عمار کے جسے امام ابن معین نے ضعیف کہا ہے۔

تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد 17 ص 132 رقم 3828
امام ابن حجر عسقلانی نے ضعیف کہا
تقریب التھذیب جلد 2 حرف العین ص321 رقم 3873
امام ابن حبان نے ثقات میں درج کیا ہے۔
الثقات لابن حبان حرف العین ص 755


حدیث موقوف

عبد الرزاق عن صفوان بن سلیم عن محمد بن یوسف ابن عبد اللہ بن سلام عن عبد اللہ بن سلام قال : "ما اذن في قوم بليل الا امنوا العذاب حتي يصبحوا،ولا نهار الا امنوا العذاب حتي يمسوا".

المصنف لعبد الرزاق ، کتاب الصلوٰۃ، باب فضل الاذان، رقم الحدیث 1873

ترجمہ :
حضرت عبداللہ بن سلام رضی الله بیان کرتے ہیں :- جب بھی کسی قوم میں (یعنی آبادی میں) رات کے وقت اذان دی جاتی یے تو وہ صبح تک عذاب سے محفوظ ہوجاتے ہیں، اور جب دن کے وقت اذان دی جاتی ہے تو وہ شام تک عذاب سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

اس روایت میں ایک روای محمد بن یوسف ابن عبد اللہ بن سلام کی اپنے دادا حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سماعت میں نظر ہے اور انہیں امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے تقریب التھذیب میں مقبول قرار دیا ہے۔ انظر تقریب التھذیب ، حرف المیم، جلد 3ص 337، رقم 6413

ان دو مرفوع اور موقوف روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ اس بستی کو تمام مصیبتوں اور بلاؤں سے امان میں دے دیتا ہے۔

اب یہاں اعتراض کیا جاتا ہے کہ مذکورہ احادیث ضعیف ہیں۔
اور احادیث کے ضعف کو یوں بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ ضعیف احادیث مطلقاََ قابل احتجاج نہیں جبکہ جمہورمحدثین کا مؤقف اس کے بلکل برعکس ہے۔

اول : وباء کے زمانے میں ہم اذان کو مستحب مانتے ہیں اور کسی شئے کے استحباب کے ثبوت کے لیے ضعیف حدیث بھی کافی ہوتی ہے۔

دوم : جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف حدیث فضائل اعمال میں مقبول ہے۔
محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں : الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل اعمال یعنی فضائل اعمال مین ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا اگر وہ موضوع نہ ہو
تدریب الراوی میں ہے کہ ضعیف حدیث کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا۔

یہی مؤقف امام اعظم ؒ ابو حنیفہ ، امام سفیان ثوری،امام شافعی، امام سفیان بن عینیہ، امام احمد بن حنبل، امام ابن حجر عسقلانی ، امام بیہقی، امام حاکم، امام سیوطی، ابن صلاح، امام نووی، امام سخاوی رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ کا ہے۔ اس مسئلے پر اھل علم حضرات کے لیے اعلیٰ حضرت کا رسالہ "الھاد الکاف فی حکم الضعاف " کافی مفید ہے۔

سوم : فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کی قبولیت کا مؤقف موجودہ اہل حدیث مکتبہ فکر کے بڑے بڑے علما ء کا ہے جن میں اھل حدیث کے مجتہد العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی، شیخ الکل فی الکل نذیر حسین محدث دہلوی،شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری، شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی، شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ الراشدی وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اذان کا ایک وقت مقرر ہے اور اذان نماز کے علاوہ نہیں دی جا سکتی ۔ جبکہ ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے کان میں اذان دی۔ اس سے معترضین کا یہ اعتراض کہ اذان نماز کے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں نہیں دی جا سکتی ، باطل ثابت ہوتا ہے۔
بعض حضرات اسے چھت پر چڑھ کر یا عدد خاص کرنے کی وجہ سے بدعت قرار دیتے ہیں۔۔۔۔ ان کی یہ منطق تو عجیب تر ہے۔ اونچی جگہ پر اذان دینا سنن ابوداؤد کی ایک صحیح روایت سے ثابت ہے اور عدد متعین کرنا تب بدعت قرار پائے جب اس متعین عدد کو فرض ، واجب یا سنت نبوی ﷺ سمجھا جائے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے ہم اس عمل ہی کو مستحب سمجھتے ہیں کجا کہ متعین عدد کو فرض و واجب کا درجہ دیں۔
پس ثابت ہوا کہ مصائب و آلام اور خوف کے وقت اذان کہنا جائز ہے اور اسے بدعت قرار دینے والے غلطی پر ہیں۔اگر احادیث ضعیف بھی ہیں تب بھی فضائل اعمال میں جمہور محدثین کے نزدیک مقبول ہیں اور جبکہ مخالفین کے گھر کی گواہی بھی موجود ہے تو انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں پہنچتا !
 
مدیر کی آخری تدوین :

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
وباء کے زمانے میں اذان دینا

سب سے اول یہ واضح کرنا لازم ہے کہ
اھل سنت کے نزدیک وباء کے زمانے میں اذان دینے کی حثیت کیا ہے۔
کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مخالفین اپنا من مانا اور من چاہا مفہوم اھل سنت کےذمے لگا کر شد و مد سے اس کا رد فرما رہے ہوتے ہیں۔
وباء کے زمانے میں اذان دینا اھل سنت کے نزدیک مستحب عمل ہے۔ امام اھل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمۃ الرحمٰن نے فتاوی رضویہ میں وبا کے زمانے میں اذان دینے کو مستحب لکھا ہے۔

فتاویٰ رضویہ جلد 5 ص 370 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن
اس کے استحباب کے ثبوت پر
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ایک رسالہ " نسیم الصباء ان فی الاذان یحول الوباء"بھی لکھا ہے جو بدقسمتی سے اس وقت مفقود ہے۔
دلائل :

حدیث مرفوع

حدثنا صالح بن شعیب البصری، ثنا بکر بن محمد القرشی ، ثنا عبد الرحمٰن بن سعد بن عمار بن سعد عن صفوان بن سلیم عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اذا اذن فی قریة امنھا اللہ من عذابه ذالک الیوم

المعجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث 746


تخریج : ( مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، کتاب الصلوٰۃ، باب فضل الاذان، رقم الحدیث 1873، معجم الاوسط للطبرانی،باب الصاد، من اسمه صالح، رقم الحدیث 3684، معجم الصغیر للطبرانی ، باب الصاد، من اسمه صالح، جلد 1 ص 179)

ترجمہ :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کسی بستی میں اذان دی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس دن اس کو اپنے عذاب سے امان میں دے دیتا ہے ۔

اس روایت کے تمام راوی صدوق و حسن الحدیث ہیں سوائے ایک راوی عبد الرحمٰن بن سعد بن عمار کے جسے امام ابن معین نے ضعیف کہا ہے۔

تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد 17 ص 132 رقم 3828
امام ابن حجر عسقلانی نے ضعیف کہا
تقریب التھذیب جلد 2 حرف العین ص321 رقم 3873
امام ابن حبان نے ثقات میں درج کیا ہے۔
الثقات لابن حبان حرف العین ص 755


حدیث موقوف

عبد الرزاق عن صفوان بن سلیم عن محمد بن یوسف ابن عبد اللہ بن سلام عن عبد اللہ بن سلام قال : "ما اذن في قوم بليل الا امنوا العذاب حتي يصبحوا،ولا نهار الا امنوا العذاب حتي يمسوا".

المصنف لعبد الرزاق ، کتاب الصلوٰۃ، باب فضل الاذان، رقم الحدیث 1873

ترجمہ :
حضرت عبداللہ بن سلام رضی الله بیان کرتے ہیں :- جب بھی کسی قوم میں (یعنی آبادی میں) رات کے وقت اذان دی جاتی یے تو وہ صبح تک عذاب سے محفوظ ہوجاتے ہیں، اور جب دن کے وقت اذان دی جاتی ہے تو وہ شام تک عذاب سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

اس روایت میں ایک روای محمد بن یوسف ابن عبد اللہ بن سلام کی اپنے دادا حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سماعت میں نظر ہے اور انہیں امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے تقریب التھذیب میں مقبول قرار دیا ہے۔ انظر تقریب التھذیب ، حرف المیم، جلد 3ص 337، رقم 6413

ان دو مرفوع اور موقوف روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ اس بستی کو تمام مصیبتوں اور بلاؤں سے امان میں دے دیتا ہے۔

اب یہاں اعتراض کیا جاتا ہے کہ مذکورہ احادیث ضعیف ہیں۔
اور احادیث کے ضعف کو یوں بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ ضعیف احادیث مطلقاََ قابل احتجاج نہیں جبکہ جمہورمحدثین کا مؤقف اس کے بلکل برعکس ہے۔

اول : وباء کے زمانے میں ہم اذان کو مستحب مانتے ہیں اور کسی شئے کے استحباب کے ثبوت کے لیے ضعیف حدیث بھی کافی ہوتی ہے۔

دوم : جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف حدیث فضائل اعمال میں مقبول ہے۔
محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں : الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل اعمال یعنی فضائل اعمال مین ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا اگر وہ موضوع نہ ہو
تدریب الراوی میں ہے کہ ضعیف حدیث کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا۔

یہی مؤقف امام اعظم ؒ ابو حنیفہ ، امام سفیان ثوری،امام شافعی، امام سفیان بن عینیہ، امام احمد بن حنبل، امام ابن حجر عسقلانی ، امام بیہقی، امام حاکم، امام سیوطی، ابن صلاح، امام نووی، امام سخاوی رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ کا ہے۔ اس مسئلے پر اھل علم حضرات کے لیے اعلیٰ حضرت کا رسالہ "الھاد الکاف فی حکم الضعاف " کافی مفید ہے۔

سوم : فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کی قبولیت کا مؤقف موجودہ اہل حدیث مکتبہ فکر کے بڑے بڑے علما ء کا ہے جن میں اھل حدیث کے مجتہد العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی، شیخ الکل فی الکل نذیر حسین محدث دہلوی،شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری، شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی، شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ الراشدی وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اذان کا ایک وقت مقرر ہے اور اذان نماز کے علاوہ نہیں دی جا سکتی ۔ جبکہ ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے کان میں اذان دی۔ اس سے معترضین کا یہ اعتراض کہ اذان نماز کے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں نہیں دی جا سکتی ، باطل ثابت ہوتا ہے۔
بعض حضرات اسے چھت پر چڑھ کر یا عدد خاص کرنے کی وجہ سے بدعت قرار دیتے ہیں۔۔۔۔ ان کی یہ منطق تو عجیب تر ہے۔ اونچی جگہ پر اذان دینا سنن ابوداؤد کی ایک صحیح روایت سے ثابت ہے اور عدد متعین کرنا تب بدعت قرار پائے جب اس متعین عدد کو فرض ، واجب یا سنت نبوی ﷺ سمجھا جائے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے ہم اس عمل ہی کو مستحب سمجھتے ہیں کجا کہ متعین عدد کو فرض و واجب کا درجہ دیں۔
پس ثابت ہوا کہ مصائب و آلام اور خوف کے وقت اذان کہنا جائز ہے اور اسے بدعت قرار دینے والے غلطی پر ہیں۔اگر احادیث ضعیف بھی ہیں تب بھی فضائل اعمال میں جمہور محدثین کے نزدیک مقبول ہیں اور جبکہ مخالفین کے گھر کی گواہی بھی موجود ہے تو انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں پہنچتا !
میں نے آپ کی تھریڈ میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں ایک تو فونٹ سائز بڑا کیا ہے دوم عربی خط لگایا ہے لہذا اپنی پوسٹ کی تدوین و تزین خود ہی فرمایا کریں شکریہ
 

ابوعبداللہ

رکن ختم نبوت فورم
میں نے آپ کی تھریڈ میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں ایک تو فونٹ سائز بڑا کیا ہے دوم عربی خط لگایا ہے لہذا اپنی پوسٹ کی تدوین و تزین خود ہی فرمایا کریں شکریہ
جزاکم اللہ خٰرا قبلہ !
ان شاء اللہ آئندہ خیال رکھوں گا
 

خاکپائے اولیاء اللہ

رکن ختم نبوت فورم
Copy paste
ناگہانی مصیبت کے وقت آذان دینے کی حسن روایات کو البانی صاحب کا ضعیف قرار دینےاور انکی خیانتوں پر انکا علی تعاقب
(بقلم:اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ) ّ

3671 – حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ شُعَيْبٍ الْبَصْرِيُّ قَالَ: نا بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ قَالَ: نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ عَمَّارَِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أُذِّنَ فِي قَرْيَةٍ أَمَّنَهَا اللَّهُ مِنْ عَذَابِهِ ذَلِكَ الْيَوْمَ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، إِلَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ "

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہےـ
اس روایت کو صفوان سے سوائے عبدالرحممن بن سعد کے کوئی بیان نہیں کرتا اور بکر بن محمد کا تفرد ہے
(برقم: 3671، معجم الاوسط ، برقم : 746 المجم الکبیر ، برقم:7 جزء أبي القاسم الطبراني)

اس روایت پر ایک اعتراض پیش کیا جا تاہے کہ اسکی سند ضعیف ہے اس میں ایک راوی عبدالرحمن بن سعد ضعیف ہے
اور امام طبرانی کے شیخ صالح بن شعیب البصری کی توثیق بھی ثابت نہیں ہے

البانی صاحب یہ روایت اپنی تصنیف سلسلہ الضیعفہ میں لائے ہیں :
پہلے البانی صاحب کا کلام پیش کرتے ہیں :
2207 - " إذا أذن في قرية آمنها الله من عذابه ذلك اليوم ".
ضعيف
رواه الطبراني (رقم 746) ، وفي الصغير (رقم 499) ، وفي " الأوسط " (54/2
) ، وأبو موسى المديني في " اللطائف " (40/2) عن بكر بن محمد القرشي: حدثنا
عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد عن صفوان بن سليم عن أنس بن مالك مرفوعا
. وقال الطبراني:
" لم يروه عن صفوان إلا عبد الرحمن، تفرد به بكر أبو همام ".
قلت: ولم أجد من ترجمه، وشيخه عبد الرحمن بن سعد ضعيف، كما في " التقريب "
، وبه أعله الهيثمي (1/328) ، ومع ذلك سكت عن الحديث في " التلخيص "
(1/208) .

یعنی البانی صاحب کہتے ہیں کہ میں انکا ترجمہ نہیں جان پایا یعنی (شیخ الطبرانی ) کا
اور عبدالرحمن بن سعد ضعیف ہے جیسا کہ حافظ نے تقریب میں کہا ہے اور مجمع الزوائد ہیثمی نے کہا ہے
اور التلخیص الجبیر میں امام ابن حجر عسقلانی نے سکوت کیا ہے اس روایت پر

نوٹ:
(یہاں البانی صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب امام ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں راوی عبدالرحمن پر ضعف کی جرح کی ہوئی ہے تو اس راوی کی روایت پر سکوت کیون کیا ہے التلخیص الجبیر میں
یعنی یہ اشارہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی اس روایت کو قبولیت کے درجے میں مانتے تھے تبھی کوئی جرح نہیں کی ہے اور اسکی وجہ البانی صاحب کو نہ ملی البتہ ہم آگے پیش کرینگے )

اسکے بعد البانی صاحب اس باب میں شاہد کے طور پر ایک اور روایت اسی کے نیچے لاتے ہیں :

وخالفه عبد الرزاق، فقال في " المصنف " (1/481/1873) : عن صفوان بن سليم عن
محمد بن يوسف بن عبد الله بن سلام عن عبد الله بن سلام قال:
" ما أذن في قوم بليل إلا أمنوا العذاب حتى يصبحوا، ولا نهارا إلا أمنوا
العذاب حتى يمسوا ".
قلت: وهذا موقوف ضعيف؛ محمد بن يوسف لا يتابع على حديثه؛ كما قال البخاري،
وليس له رواية عن جده.

اس روایت میں یہ علت پیش کرتے ہیں کہ ایک تو یہ موقوف ہے اور سند بھی ضعیف ہے
کیونکہ محمد بن یوسف اسکی حدیث مین کوئی متابعت نہیں کرتا ، اور امام بخاری کہتےہیں کہ اسکی اپنے دادا سے کوئی روایت نہیں ہے (یعنی دادا سے سماع کی نفی کی ہے امام بخاری نے )

پھر اسی روایت کے مرفوع سند بھی ذکر کرتے ہیں مصنف عبدالرزاق سے :

ورفعه حبان بن أغلب بن تميم عن أبيه بسنده عن معقل بن يسار مرفوعا.
أخرجه الطبراني (20/215/498) .
وحبان بن أغلب ضعيف، وأبو هـ أشد ضعفا. قال البخاري:
" منكر الحديث ".

امام طبرانی اس روایت کو رفعہ بن حبان بن اغلب کے طریق سے اپنے والد سے باسند معقل بن یسارسے مرفوع بیان کرتے ہیں

پھر اس روایت میں علت بیان کرتے ہیں :
حبان بن اغلب یہ ضعیف راوی ہے اور اسکا والد یہ شدید ضعیف ہے

البانی صاحب کی تحقیق کا خلاصہ :

البانی صاحب نے ایک مرفوع روایت امام طبرانی سے پیش کی جس میں ایک سے ذائد علتیں ہیں انکے نزدیک کہ امام طبرانی کا شیخ مجہول ہے انکے نزدیک اور عبد الرحمن بن سعد ضعیف ہے
اور
اسی باب میں دوسری روایت جو عبدالرزاق کے حوالے سے ہے وہ موقوف ہے اور سند منقطع ہے
لیکن اس روایت میں بھی اختلاف ہے
ایک طریق امام طبرانی سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں جو کہ مرفوع ہے لیکن اس میں متروک درجے کا ایک راوی ہے اور دوسری علت اسکا پوتا بھی ضعیف ہے

اب البانی صاحب کا منہج جمہور محدثین کے موافق ہے کہ وہ حسن لغیرہ کے قائل ہیں یعنی ضعیف + ضعیف = حسن لغیرہ

لیکن اس روایت کو حسن لغیرہ اس لیے قرار نہیں دیا کہ
ایک راویت مرفوع ہے جس میں ۲ علتیں ہیں لیکن اسکے باوجود اس جیسی کوئی مرفوع روایت نہیں جو شاہد کے طور پر اس روایت کو تقویت دے (البانی صاحب کے نزدیک)
دوسری موقوف ہے لیکن اس میں سند منقطع ہے
اور اسی روایت میں بھی اختلاف ہے کچھ مرفوع اور کچھ موقووف بیان کرتے ہیں مختلف اسناد سے جس سے روایت میں ضعف میں اضافہ مزید ہوجاتا ہے اور یہ ضعف خفیف سے شدید میں تبدیل ہو جاتا ہے البانی کے نزدیک
(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة، البانی ، برقیم : 2207)

البانی صاحب کا رد ہم دلائل سے پیش کرتے ہیں اور ان شاءاللہ انہی کے منہج پر یہ روایت حسن ثابت کرتے ہیں

۱۔البانی صاحب کا پہلا اعتراض :امام طبرانی کا شیخ مجہول ہے

امام طبرانی کا شیخ مجہول نہیں بلکہ صدوق درجے کے ہیں
امام عینی انکا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
1056 - صالح بن شعيب بن أبان الزاهد البصرى: يكنى أبا شعيب، أحد مشايخ أبى جعفر الطحاوى الذين روى عنهم وكتب وحدث، روى عن محمد بن المثنى وغيره، وذكره ابن يونس فى تاريخ الغرباء الذين قدموا مصر، وقال: قدم إلى مصر، وكُتب عنه، وخرج إلى مكة، وتوفى بها فى صفر سنة ست وثمانين ومائتين.

صالح بن شعیب بن ابان الزاھد البصری انکی کنیت ابو شعیب تھی یہ امام طحاوی کے مشایخ میں سے ایک تھے ان سے لکھا اور بیان کیا گیا ہے اور ان سے محمد بن المثنی وغیرہ نے روایت کیا ہے
امام ابن یونس نے اپنی تاریخ الغرباء میں ذکرکیا کہ یہ مصرف اائے اور جب یہ مصر آئے تو میں نے ان سے لکھا ہے پھر یہ مکہ چلے گئے یہ ۲۸۶ھ میں فوت ہوئے
(مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار، امام عینی )

امام ابن عبدالبر سے ضمنی توثیق :

امام ابن عبدالبر التمہید میں امام مالک بن انس سے ایک روایت نقل کرتے ہیں :
مالك عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الفضل
اسکو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
لم يقله غير الحنفي عن مالك والله أعلم ولم يتابع عليه وهو أبو علي عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي
کہ امام مالک سے زھری کے حوالے سے یہ راویت اس متن ادرک الفضل کو بیان کرنے میں ابو علی عبیداللہ الحنفی کی کوئی متابعت نہیں کرتا ہے
پھر امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :
وسنذكر ما للفقهاء في هذا المعنى بعون الله إن شاء الله وقد روى هذا الحديث عن مالك حماد بن زيد
ہم فقھا سے اسکا معنی بھی اللہ کی مدد سے بیان کرینگے اور یہ بھی کہ یہ راویت مالک سے حماد بن زید بیان کرتے ہیں

پھر اسکی دلیل دیتے ہوئے امام ابن عبدالبر صالح بن شعیب (شیخ طبرانی) سےسند بیان کرتے ہیں :
حدثنا أحمد بن فتح قال حدثنا أحمد بن الحسن الرازي قال حدثنا** أبو شعيب صالح بن شعيب بن! زياد البصري** قال حدثنا إبرهيم بن الحجاج الشامي حدثنا حماد بن زيد عن مالك عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد *أدرك الصلاة**
امام ابن عبدالبر یہ روایت مالک کی جو بیان کرتے ہیں اس میں فقط ادرک الصلاتہ لفظ ہے نہ کہ ادراک الفضل
پھر امام ابن عبدالبر یہی روایت اپنے دوسرے شیخ سے صالح بن شعیب (شیخ طبرانی) سے بیان کرتے ہیں اس میں بھی وہی لفظ ہے جو اوپر حماد بن زید نے امام مالک سے بیان کیا ہے جسکو صالح بن شعیب روایت کرتے ہیں

وحدثنا خلف بن قاسم حدثنا أبو العباس أحمد بن الحسن بن إسحاق بن عتبة حدثنا **أبو شعيب صالح بن شعيب بن أبان الزاهد** في شوال سنة إحدى وثمانين ومائتين قال حدثنا إبرهيم بن الحجاج الشام حدثنا حماد بن زيد عن مالك بن أنس عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة هذا هو الصحيح عن حماد بن زيد عن مالك
ومن قال فيه عن حماد عن مالك بهذا الإسناد من أدرك ركعة من الصبح الحديث فقد أخطأ

امام ابن عبدالبر ابو صالح شعیب بن ابان بن زاھد سے روایت بیان کر کے کہتے ہیں یہی صحیح ہے جسکو حماد بن زید نے نقل کیا ہےامام مالک سے اور جنہوں نے حماد سے مالک سے اسی سند سے ادرک رکعت صبح کی حدیث بیان کی ہے ان سے خطاء ہوئی ہے
(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، جلد 7۔ ص 64)

امام ابن عبدالبر کا ابو صالح شعیب کی روایت کو باقی تمام صدوق راویان پر مقدم کرنا انکی ثقاہت کے لیے کافی ہے

اسکے بعد سلفیوں کے محقق نے امام الطبرانی کے شیوخ پر ایک کتاب لکھی ہے اس میں ابو صالح شعیب کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :
[496] صالح بن شعيب أبو شعيب الزاهد البصري.
حدث عن: بكر بن محمد القرشي، وداود بن شبيب، وعبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد، ونافع بن خالد الطاحي.
وعنه: أبو القاسم الطبراني بمصر في " معاجمه " ووصفه بالزاهد.
مات في صفر سنة ست وثمانين ومائتين.
- تاريخ الإسلام (21/ 191).
• قلت: (صدوق إن شاء الله).
(إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ، المؤلف: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري)
اس کتاب کو ابن تیمیہ مکتب والوں نے چھاپا ہے : الناشر: دار الكيان - الرياض، مكتبة ابن تيمية – الإمارات)

اتنے دلائل کے بعد بھی کوئی کہے کہ امام طبرانی کا شیخ مجہول ہے تو ایسے اپنے مولویوں کے مقلدین سے ہمارا کلام نہیں ہے

دوسرا اعتراض : سعد بن عبدالرحمن ضعیف ہے

جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں انکو ضعیف قرار دیا ہے

بس اس سند میں یہی ایک ضععف ہے اور یہ روایت شاہد و متابع بننے کے قابل ہے کیونکہ اس میں بہت معمولی ضعف ہے اگر اس ضعیف راوی کی روایت دوسری ضعیف سند سے مل جائے جس میں ضعیف راوی اس جیسا ہو ،اس سے بہتر ہو یا مجہول ہو تب بھی روایت حسن لغیرہ کے درجے میں پہنچ جائے گی

جیسا کہ اسکا ایک اور طریق جو البانی صاحب اسی حدیث کے باب میں بیان کرنے سے رہہ گئے لیکن اور جگہ اس روایت کو بیان کیا یہ نہیں معلوم اس باب میں وہ روایت قابل احتجاج کیوں نہ لائے لیکن اسکا راز آگے فاش کرینگے :
ابن عساکر کی راویت ہم پیش کرتے ہیں جسکی سند یہ ہے :

أخبرنا أبو الحسن الفقيه نا عبد العزيز الكتاني أنا أبو بكر أحمد بن طلحة بن هارون المعروف بابن المنقي الواعظ نا أحمد بن سلمان النجاد نا محمد بن عبد الله بن سليمان نا علي بن بهرام الكوفي نا عبد الملك بن أبي كريمة عن عمرو بن قيس عن عطاء عن أبي هريرة قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) نزل ادم بالهند واستوحش فنزل جبريل فنادى بالأذان الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله مرتين أشهد أن محمدا رسول الله مرتين قال ادم من محمد قال اخر ولدك من الأنبياء
جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنت سے ھندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اتر کر اذان دی۔ جب جبرائیل نے لا الہ الا اللہ اشھد ان محمد رسول کہا تو آدم نے نے کہا کون سے محمد ؟ تو کہا گیا جو آخر میں پیدا ہونے والے ہیں انبیاء میں سے

(تاریخ دمشق ، جلد 7 ۔ ص 437)

اس کی سند کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں سوائے علی بن یزید بن بھرام جو کہ مجہول الحال ہے
امام خطیب اور امام ابن یونس نے اپنی تاریخ میں انکے شیوخ اور شاگردوں کا ذکر کیا ہے اور کوئی جرح یا تعدیل نہیں کی ہے

اور مزے کی بات یہ ہے کہ البانی صاحب اپنی تصنیف سلسلہ الصحیحیہ میں شواہد و متابعت میں قبول کر چکے ہیں ایک جگہ لکھتے ہیں :

أخرجها القضاعي في " مسند الشهاب " (101 / 1) من طريق
علي بن بهرام قال: أنبأنا عبد الملك بن أبي كريمة عن ابن جريج عن عطاء عن جابر
به.
وتابعه عمرو بن بكر السكسكي عن ابن جريج به.
أخرجه ابن عساكر في " تاريخ دمشق " (2 / 420 / 2) . لكن عمرو هذا متروك.
ولها شاهد من حديث ابن عمر قال:

امام القضاعی صاحب مسند الشھاب نے علی بن برام کے طریق سے عبدالملک سے ابن جریج کی روایت عطاء سے جابر سے بیان کی ہے
اور انکی [متابع عمرو بن بکر السکسکی ہیں ابن جریج سے
لیکن عمرو یہ متروک ہے لیکن ابن عمر سے شاہد آیا ہے ۔ اس میں خنيس بن بكر ضعیف ہے
(سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها، برقم:426)

جب دوسری روایات میں علی بن بھرام کو بطور شاہد و متابع بیان کرتے رہے ہیں تو اس روایت میں تاریخ ابن عساکر کی روایت کو بیان کرنے کی ضرورت کیوں نہ پڑی ؟
اب جب کہ ہم نے البانی کے منہج کے مطابق یہ روایت حسن لغیرہ ثابت کر دی ہے جب دوسری ضعیف اسناد کے ساتھ علی بن بھرام کی روایت تقویت دیکر حسن لغیرہ بن سکتی ہے تو اس روایت میں کیون نہیں ؟

اب آتے ہیں اس طرف کہ یہ روایت البانی صاحب نے کیوں اس روایت کو تقویت کے لیے درج نہ کی :

سلسلہ الضعیفہ میں یہ روایت علیحدہ درج کر کے کہتے ہیں :

403 - " نزل آدم الهند واستوحش، فنزل جبريل فنادى بالأذان الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، مرتين، أشهد أن محمدا رسول الله مرتين، قال آدم: من محمد؟ قال: آخر ولدك من الأنبياء صلى الله عليه وسلم ".
ضعيف.
رواه ابن عساكر (2 / 323 / 2) عن محمد بن عبد الله بن سليمان أخبرنا علي بن بهرام الكوفي أخبرنا عبد الملك بن أبي كريمة عن عمرو بن قيس عن عطاء عن أبي هريرة مرفوعا.
قلت: وهذا إسناد ضعيف علي بن بهرام لم أعرفه وقد ذكره الحافظ في الرواة عن أبي كريمة هذا وسماه علي بن يزيد بن بهرام، ثم وجدته في تاريخ بغداد وجعل يزيد جده فقال (11 / 353) :
علي بن بهرام بن يزيد أبو حجية المزني العطار، من أهل إفريقية انتقل إلى العراق فسكنه إلى حين وفاته، وحدث ببغداد عن عبد الملك بن أبي كريمة الأنصاري روى عنه أحمد بن يحيى الأو دي وموسى بن إسحاق الأنصاري وعليك الرازي والحسن ابن الطيب الشجاعي، ثم ساق له حديثين ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا.
ومحمد بن عبد الله بن سليمان هما اثنان أحدهما كوفي قال ابن منده: مجهول والآخر خراساني اتهمه الذهبي بحديث موضوع، والظاهر هنا أنه الأول، وهذا الحديث مع ضعفه أقوى من الحديث المتقدم بلفظ:

البانی میان کہتے ہیں کہ اسکو ابن عساکر نے روایت کیا ہے محمد بن عبداللہ بن سلیمان سے اور اس نے علی بن بھرام الکوفی سے اور انہوں نے عبدالملک بن ابی کریمہ سے عمرو بن قیس سے اور انہوں نے عطا سے

میں کہتا ہوں اسکی سند ضعیف ہے علی بن بھرام اسکا ترجمہ نہیں جان سکا خطیب و وغیرہ نے بغیر جرح و تعدیل کے ذکر کیا ہے
اور پھر دوسری علت اپنی طرف سے باطل قسم کی بنا دی کہ :
محمد بن عبداللہ بن سلیمان اسکو کوفی بنا دیا اور کہا کہ اسکے بارے میں امام زھبی نے میزان میں لکھا ہے کہ مجہول ہے
7769 - محمد بن عبد الله بن سليمان الكوفي.
عن أبي خالد الاحمر.
قال ابن مندة: مجهول.
(میزان الاعتدال)

جب کہ یہاں بہت بڑی خیانت کی ہے حدیث رسول کو رد کرنے کے لیے اپنے نفس پرستی میں

جبکہ یہ محمد بن عبداللہ بن سلیمان مطعین الخرضمی الکوفی ہیں اور یہ ابو بکر سلمان النجاد کے مشہور شیخ ہیں انکی اکثر روایات انہی سے بھی ہوتی ہیں جیسا کہ امام ذھبی نے سیر اعلام میں انکے شاگردوں میں ابو بکر سلمان النجاد کا نام لیا ہے
15 - مطين أبو جعفر محمد بن عبد الله الحضرمي *
الشيخ، الحافظ، الصادق، محدث الكوفة، أبو جعفر محمد بن عبد الله بن سليمان الحضرمي، الملقب: بمطين.
رأى أبا نعيم الملائي.
وسمع: أحمد بن يونس، ويحيى بن بشر الحريري، وسعيد بن عمرو الأشعثي، ويحيى الحماني، وبني أبي شيبة، وعلي بن حكيم، وطبقتهم.
**حدث عنه: أبو بكر النجاد،***

اب ابو بکر النجاد سلمان کا ترجمہ سیر اعلام ہی سے پیش کرتے ہیں :

285 - النجاد أحمد بن سلمان بن الحسن بن إسرائيل **
الإمام، المحدث، الحافظ، الفقيه، المفتي، شيخ العراق، أبو بكر أحمد بن سلمان بن الحسن بن إسرائيل البغدادي، الحنبلي، النجاد.
ولد: سنة ثلاث وخمسين ومائتين.
سمع: أبا داود السجستاني - ارتحل إليه، وهو خاتمة أصحابه – وأحمد الطيالسي، ومعاذ بن المثنى، وبشر بن موسى، **ومحمد بن عبد الله مطينا**، وخلقا كثيرا.
ابو بکر احمد بن سلمان النجاد کے شیوخ میں محمد بن عبداللہ مطیعن موجود ہے

اور ابن عساکر کی یہ سند بھی یہی ابو بکر النجاد اپنے شیخ محمد بن عبداللہ ہی سے بیان کر رہے ہیں لیکن البانی کی اتنی بڑی خیانت کہ جو تعین شدہ اور مشہور شیخ ہیں انکو چھوڑ کر ایک مجہولیے کو اٹھا لیا

اور یہ خیانت کرنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ :
اس حدیث پر متن کا بہانہ بنا کر اسکو گھڑی ہوئی حدیث ثابت کیا جیسا کہ اس کے متن پر البانی میے نے باطل اعتراض کیا ہے کہ آدم جانتے نہیں تھے نبی کریم کو یوں فلاں

جبکہ تعصب کی پٹی ہٹاتے یہ روایت ختم نبوت کی دلیل بھی بن رہی تھی اور آذان کے لیے بھی

لیکن تعصب کا بیڑا غرق ہو کیا سے کیا نہیں کروا دیتا انسان سے

خلاصہ تحقیق:

پہلی روایت جو معجم الاوسط میں ہے اس میں صرف ایک راوی عبدالرحمن ضعیف ہے (تقریب)
اور
ابن عساکر کی روایت میں ایک راوی علی بن بھرام مجہول الحال ہے اور یہ بالکل معمولی ضعف ہے
جو جمہور محدثین بشمول البانی کے

ضعیف + ضعیف = حسن لغیرہ کے درجے پر پوری اترتی ہے اللہ سب کو تحقیق حق اور سچ پر کرنے کی توفیق دے

تحقیق دعاگو:اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ۲۵ مارچ ، ۲۰۲۰
 
مدیر کی آخری تدوین :
Top