• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(وقفہ)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(وقفہ)

مولوی مفتی محمود: جناب والا! مجھے یہ شکایت ہے کہ وہ حضرات جو یہاں آئے تھے اور دو دو، تین تین ہفتے یہاں گزارے، ان کے لئے تو پانی کے گلاس بھر بھر کے آتے تھے اور میں تین گھنٹے سے کھڑا ہوں، یہ اتنی تفریق کیوں ہے؟
محترم قائم مقام چیئرمین (ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی): آپ نے مانگا نہیں۔
مولوی مفتی محمود: ان کے بغیر مانگے بھر بھر کے لاتے تھے۔ میرے لئے کربلا ہے پتہ نہیں۔
محترم قائمقام چیئرمین: معاف کیجئے، مولانا! ابھی لاتے ہیں، ابھی خیال آیا۔
مولوی مفتی محمود: ویسے میں نے بطور مذاح یہ بات کہی ہے۔
ایک رکن: مولانا! آپ تو گھر کے آدمی ہیں، آپ مانگ سکتے ہیں۔
مولوی مفتی محمود: اسی لئے تو مانگ لیا۔(وقفہ)
مولوی مفتی محمود: پھر اس روایت میں جو بات بیان کی گئی ہے اس کا مرزائی اعتقادات سے دور دور کوئی واسطہ نہیں۔ بلکہ یہ روایت تو نزول عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدے میں مرزائی نظریہ کی صریح تردید کر رہی ہے۔ اس کا مقصد محض اتنا ہے کہ اگر صرف یہ جملہ بولا جائے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو ایک ناواقف آدمی اسے مسیح علیہ السلام کے نزول ثانی کے عقیدے کے خلاف سمجھ سکتا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آپﷺ کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام بھی تشریف نہیں لائیں گے۔ لہٰذا جو مقصد ’’خاتم النّبیین‘‘ کہنے سے مکمل طور پر حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو ناواقفوں کے 2000لئے کسی غلط فہمی کا سبب بن سکتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے ’’لا نبی بعدی‘‘ فرمایا تو ساتھ ساتھ ایک دو مرتبہ نہیں سینکڑوں مرتبہ اس کی تشریح بھی فرمادی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنہیں پہلے ہی سے نبوت حاصل ہے اور جو بہت پہلے پیدا ہوچکے ہیں۔ وہ دوبارہ نزول فرمائیں گے اس کے برخلاف اگر کوئی دوسرا شخص صرف اتنا جملہ کہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو صرف اتنی بات سننے والا کوئی ناواقف انسان کسی غلط فہمی کا شکار ہوسکتا ہے۔
حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب اس قول کی یہ تشریح خود ’’ درّ منثور ‘‘ ہی میںموجود ہے:
’’عن الشّعبی قال قال رجل عند المغیرۃ بن شعبۃ صلی اﷲ علی محمد خاتم الانبیاء لا نبی بعدہ فقال المغیرۃ بن شعبۃ حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء فانا کنا نحدث ان عیسیٰ علیہ السلام خارج فان ہو خرج فقد کان قبلہ وبعدہ‘‘
حضرت شعبیؒ جو ایک جلیل القدر تابعی ہیں فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے سامنے یہ کہا کہ اﷲتعالیٰ جناب محمدa پر رحمت نازل فرمائے جو خاتم الانبیاء ہیں اور جن کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت مغیرہؓ نے فرمایا کہ ’’خاتم الانبیائ‘‘ کہہ دینا کافی تھا۔ کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے والے ہیں۔ جب وہ نازل ہوں گے تو وہ آپﷺ سے پہلے بھی آئے اور آپﷺ کے بعد بھی آئیں گے۔
(درمنثور ج۵ ص۲۰۴)
لہٰذا حضرت عائشہؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی یہ ہدایت، اگر بالفرض سنداً ثابت ہو حضرت علیؓ کے اس ارشاد کے مطابق ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ: ’’ حدثو الناس بما یعرفون ‘‘ لوگوں سے وہ باتیں کرو جن کو وہ سمجھ سکیں۔

(صحیح بخاری ج۱ ص۲۴، باب من خص بالعلم)
اور اس روایت سے مرزائی اعتقادات کو نہ صرف یہ کہ کوئی سہارا نہیں ملتا ہے۔ بلکہ یہ صراحۃً 2001ان کی تردید کرتی ہے۔ ورنہ جہاں تک حضرت عائشہؓ کا تعلق ہے امام احمد بن حنبلؓ کی مسند میں خود ان کی یہ روایت موجود ہے۔
’’عن عائشۃؓ عن النبیﷺ انہ قال لا یبقی بعدی من النبوۃ شیٔ الا المبشرات قالوا یا رسول اﷲ وما المبشرات قال الرؤیا الصالحۃ یراہا المسلم او تری لہ‘‘

(مسند احمد ج۶ ص۱۲۹، کنزالعمال)
حضرت عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد نبوت کا کوئی جز باقی نہیں رہے گا۔ سوائے مبشرات کے…، صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ مبشرات کیا چیز ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اچھے خواب جو کوئی مسلمان خود دیکھے یا اس کے لئے کوئی اور دیکھے۔
کیا اس کے بعد بھی اس بات میں کوئی شک وشبہ رہ سکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے نزدیک نبوت کی ہر قسم اور سوائے اچھے خوابوں کے اس کا ہر جزء آنحضرتﷺ پر ختم ہوگیا اور اب کسی بھی شخص کو کسی بھی صورت میں یہ منصب عطاء نہیں کیا جاسکتا۔
۲… دوسری ضعیف روایت سنن ابن ماجہؒ سے نقل کی جاتی ہے کہ جب آنحضرتﷺ کے صاحبزادے ابراہیمؓ کا انتقال ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ لو عاش لکان صدیقاً نبیاً ‘‘ اگر یہ زندہ رہتے تو صدیق نبی ہوتے۔
اس حدیث کا حال بھی یہ ہے کہ حدیث کے ناقد ائمہ نے اسے ضعیف بلکہ باطل قرار دیا ہے۔ امام نوویؒ جیسے بلند پایہ محدث فرماتے ہیں: ’’ ہذا الحدیث باطل ‘‘ یہ حدیث باطل ہے۔

(موضوعات کبیر ص۵۸)
اس حدیث کے ایک راوی ابوشیبہ ابرہیم بن عثمان کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ 2002فرماتے ہیں کہ ’’ثقہ نہیں ہے۔‘‘ امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ ’’منکر الحدیث ہے۔‘‘ امام نسائی لکھتے ہیں ’’کہ متروک الحدیث ہے۔‘‘ امام جوز جانیؒ کہتے ہیں کہ ’’اس کا اعتبار نہیں۔‘‘ امام ابوحاتمؒ کا ارشاد ہے کہ یہ ’’ضعیف الحدیث ہے۔‘‘
(ملاحظہ ہو التہذیب التہذیب ص۹۵ نمبر۲۵۷ ج۱)
البتہ اس روایت کے الفاظ صحیح بخاری میں حضرت عبداﷲ بن ابی اوفیؓ کے اثر کے طور پر اس طرح مروی ہیں۔
’’لو قضی ان یکون بعد محمد نبی لعاش ابنہ ولکن لا نبی بعدہ‘‘
اگر محمدﷺ کے بعد کسی نبی کی بعثت مقدر ہوتی تو آپﷺ کے صاحبزادے زندہ رہتے۔ لیکن آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
ان الفاظ نے ابن ماجہ کی ضعیف روایت کی حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ اور وہ ختم نبوت کے خلاف تو کیا ہوتی درحقیقت اس سے یہ عقیدہ اور زیادہ پختہ مؤکد اور ناقابل تردید ہوجاتا ہے۔
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ صحیح بخاری قرآن کریم کے بعد تمام کتابوں میں سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے۔ لہٰذا اگر کوئی ضعیف روایت کہیں اور آئی ہو یا اس کی تشریح صحیح بخاری کے الفاظ سے بھی جانی جائے اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو ضعیف روایت کو چھوڑ کر صحیح بخاری کی روایت کو اختیار کیا جائے گا۔ مرزاصاحب کا حال تو یہ ہے کہ وہ صحیح مسلمؒ کی ایک حدیث کومحض اس بناء پر ترک کر دیتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے اسے ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ ازالہ اوہام میں لکھتے ہیں:
’’یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم صاحب نے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد اسماعیل بخاریؒ نے چھوڑ دیا ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۲۲۰، خزائن ج۳ ص۲۰۹،۲۱۰)
حالانکہ صحیح مسلمؒ خود نہایت معتبر ہے اور امام بخاریؒ کا محض کسی روایت کو چھوڑ دینا اس کے ضعف کی دلیل نہیں۔ اس کے برخلاف ابن ماجہؒ کی یہ روایت ضعیف ہے اور صحیح بخاری میں اس کی واضح تشریح موجود ہے۔ مگر مرزائی صاحبان ہیں کہ اسے باربار اپنی دلیل کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ کوئی صحیح دلیل ہو تو پیش کی جائے۔ اگر ایسی روایت میں صراحۃً عقیدہ ختم 2003نبوت کی تردید کی گئی ہوتی۔ تب بھی وہ ایک متواتر عقیدہ کے معاملے میں قطعاً قابل اعتبار نہ ہوتی اور یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اگر اسے صحیح مان لیا جائے۔ تب بھی اس میں محض ایک ایسے مفروضے کا بیان ہے جس کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اگر حضرت ابراہیمؓ کی زندگی میں یہ بات کہی جاتی تب تو اس سے کسی درجے میں یہ بات نکل سکتی تھی کہ آپﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے بارے میں ان کی زندگی ہی میں آپﷺ نے اسی جیسی بات ارشاد فرمائی تھی۔ وہاں چونکہ نبوت کے جاری رہنے کا شبہ ہوسکتا تھا۔ اس لئے آنحضرتﷺ نے وہاں بالکل دوسری تعبیر اختیار فرمائی اور اس شبہ کو ہمیشہ کے لئے ختم فرمادیا۔ ارشاد فرمایا کہ:
’’ لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطابؓ ‘‘ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطابؓ ہوتے۔

(رواہ الترمذی ج۲ ص۲۰۹، مناقب عمرؓ)
مطلب یہ ہے کہ میرے بعد چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ اس لئے حضرت عمرؓ نبی نہیں بن سکتے۔ اسی طرح آپﷺ نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر مدینہ طیبہ میں حضرت علیؓ کو اپنا نائب مقرر فرمایا تو ان سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ اماترضی ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الّا انہ لا نبوۃ بعدی ‘‘
(رواہ البخاریؒ ومسلم واللفظ لمسلمؒ ج۲ ص۲۷۸، باب فضائل علیؓ بن طالب)
’’کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے ساتھ ایسے ہو جاؤ جیسے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام (کہ کوہ طور پر جاتے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں نائب بنا کر گئے تھے) لیکن میرے بعد نبوت نہیں۔‘‘ یہاں آپ نے حضرت علیؓ کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ محض نائب بناکر جانے میں دی تھی۔ لیکن چونکہ اس سے ختم نبوت کے خلاف غلط فہمی کا اندیشہ تھا۔ اس لئے آپ نے فوراً ’’ الّا انہ لا نبوۃ بعدی ‘‘ (مگر میرے بعد کوئی نبوت باقی نہیں) فرما کر اس اندیشے کا خاتمہ فرمادیا۔
البتہ حضرت ابراہیم کے بارے میں یہ بات چونکہ ان کی وفات کے بعد کہی جارہی تھی اور ان کے زندہ رہنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا تھا۔ اس لئے الفاظ یہ استعمال کئے گئے کہ: 2004’’اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق نبی ہوتے۔‘‘ لیکن چونکہ زندہ نہیں رہے۔ اس لئے نبی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں ہے کہ ’’ لوکان فیہما آلھۃ الا اﷲ لفسدتا ‘‘ (اگر زمین وآسمان میں اﷲ کے سوا کچھ معبود ہوتے تو زمین وآسمان میں فساد مچ جاتا) ظاہر ہے کہ یہ محض ایک مفروضہ ہے اور اگر کوئی شخص اس سے یہ استدلال کرنے بیٹھ جائے کہ معاذ اﷲ کائنات میں اﷲ تعالیٰ کے سوا معبودوں کا وجود ممکن ہے تو یہ زبردستی نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ تھی لاکھوں احادیث نبویؐ کے ذخیرے میں سے مرزائی ’’استدلال‘‘ کی کل کائنات جس کی بنیاد پر اصرار کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی بیسیوں آیات کو، آنحضرتﷺکی سینکڑوں صریح اور متواتر احادیث کو، اور امت مسلمہ کے قطعی اجماع کو چھوڑ کر مرزا غلام احمد صاحب کونبی تسلیم کرو، ورنہ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔
 
Top