ویٹیکن سٹیٹ کا مطالبہ … پاکستان کی حد بندی کے موقع پر غداری
جماعت احمدیہ تقسیم کی مخالف تھی۔ لیکن جب مخالفت کے باوجود تقسیم کا اعلان ہوگیا تو احمدیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ایک اور زبردست کوشش کی جس کی وجہ سے گورداسپور کا ضلع جس میں قادیان کا قصبہ واقع تھا پاکستان سے کاٹ کر بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حد بندی کمیشن جن دنوں بھارت اور پاکستان کی حد بندی کی تفصیلات طے کر رہا تھا کانگریس اور مسلم لیگ کے نمائندے دونوں اپنے اپنے دعاوی اور دلائل پیش کر رہے تھے۔ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے اپنا الگ ایک محضر نامہ پیش کیا اور اپنے لئے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سے الگ مؤقف اختیار کرتے ہوئے قادیان کو ویٹی کن سٹی قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ اس محضر نامہ میں انہوں نے اپنی تعداد اپنے علیحدہ مذہب، 2077اپنے فوجی اور سول ملازمین کی کیفیت اور دوسری تفصیلات درج کیں۔ نتیجہ یہ ہوا احمدیوں کا ویٹی کن سٹیٹ کا مطالبہ تو تسلیم نہ کیاگیا۔ البتہ باؤنڈری کمیشن نے احمدیوں کے میمورنڈم سے یہ فائدہ حاصل کر لیا کہ احمدیوں کو مسلمانوں سے خارج کر کے گورداسپور کو مسلم اقلیت کا ضلع قرار دے کر اس کے اہم ترین علاقے بھارت کے حوالے کر دئیے اور اس طرح نہ صرف گورداسپور کا ضلع پاکستان سے گیا۔ بلکہ بھارت کو کشمیر ہڑپ کر لینے کی راہ مل گئی اور کشمیر پاکستان سے کٹ گیا۔
چنانچہ سید میر نور احمد سابق ڈائریکٹر تعلقات عامہ اپنی یادداشتوں ’’مارشل لاء سے مارشل لاء تک‘‘ اس واقعہ کو یوں تحریر کرتے ہیں: ’’لیکن اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ایوارڈ پر ایک مرتبہ دستخط ہونے کے بعد ضلع فیروزپور کے متعلق جس میں ۱۹؍اگست اور ۱۷؍اگست کے درمیان عرصہ میں ردوبدل کیاگیا اور ریڈکلف سے ترمیم شدہ ایوارڈ حاصل کیاگیا۔ کیا ضلع گورداسپور کی تقسیم اس ایوارڈ میں شامل تھی۔ جس پر ریڈکلف نے ۸؍اگست کو دستخط کئے تھے یا ایوارڈ کے اس حصہ میں بھی ماؤنٹ بیٹن نے نئی ترمیم کرائی۔ افواہ یہی ہے اور ضلع فیروز پور والی فائل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اگر ایوارڈ کے ایک حصہ میں ناجائز طور پر ردوبدل ہوسکتا تھا تو دوسرے حصوں کے متعلق بھی یہ شبہ پیدا ہوتا ہے۔ پنجاب حد بندی کمیشن کے مسلمان ممبروں کا تاثر ریڈکلف کے ساتھ آخری گفتگو کے بعد یہی تھا کہ گورداسپور جو بہرحال مسلم اکثریت کا ضلع تھا قطعی طور پر پاکستان کے حصے میں آرہا ہے۔ لیکن جب ایوارڈ کا اعلان ہوا تو نہ ضلع فیروز پور کی تحصیلیں پاکستان میں آئیں اور نہ ضلع گورداسپور (ماسوائے تحصیل شکرگڑھ) پاکستان کا حصہ بنا۔ کمیشن کے سامنے وکلا کی بحث کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کمیشن کے سامنے کشمیر کے نقطہ نگاہ سے ضلع گورداسپور کی تحصیل پٹھان کوٹ کی اہمیت کا کوئی ذکر آیا تھا یا نہیں، غالباً نہیں آیا تھا۔ کیونکہ یہ پہلو کمیشن کے نقطہ نگاہ سے قطعاً غیر متعلق تھا۔ ممکن ہے ریڈکلف کو اس نقطے کا کوئی علم ہی نہ ہو۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن کو معلوم تھا کہ تحصیل پٹھان کوٹ کے ادھر 2078ادھر ہونے سے کن امکانات کے راستے کھل سکتے ہیں اور جس طرح کانگریس کے حق میں ہر قسم کی بے ایمانی کرنے پر اتر آیا تھا۔ اس کے پیش نظریہ بات ہرگز بعید از قیاس نہیں کہ ریڈ کلف عواقب اور نتائج کو پوری طرح سمجھا ہی نہ ہو اور اس پاکستان دشمنی کی سازش میں کردار عظیم ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا ہو۔
ضلع گورداسپور کے سلسلے میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ اس کے متعلق چوہدری ظفر اﷲ خان جو مسلم لیگ کی وکالت کر رہے تھے خود بھی ایک افسوسناک حرکت کر چکے ہیں۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ عام مسلمانوں سے (جن کی نمائندگی مسلم لیگ کر رہی تھی) جداگانہ حیثیت میں پیش کیا۔ جماعت احمدیہ کا نقطۂ نگاہ بے شک یہی تھاکہ وہ پاکستان میں شامل ہونا پسند کرے گی۔ لیکن جب سوال یہ تھا کہ مسلمان ایک طرف اور باقی سب دوسری طرف۔ تو کسی جماعت کا اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ ظاہر کرنا مسلمانوں کی عددی قوت کو کم ثابت کرنے کے مترادف تھا۔ اگر جماعت احمدیہ یہ حرکت نہ کرتی۔ تب بھی ضلع گورداسپور کے متعلق شاید فیصلہ وہی ہوتا جو ہوا۔ لیکن یہ حرکت اپنی جگہ بہت عجیب تھی۔‘‘
(روزنامہ مشرق ۳؍فروری ۱۹۶۴ئ)
اب اس سلسلہ میں خود حدبندی کمیشن کے ایک ممبر جسٹس محمد منیر کا ایک حوالہ بھی ملاحظہ فرمائیں: ’’اب ضلع گورداسپور کی طرف آئیے۔ کیا یہ مسلم اکثریت کا علاقہ نہیں تھا۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ضلع میں مسلم اکثریت بہت معمولی تھی۔ لیکن پٹھان کوٹ تحصیل اگر بھارت میں شامل کر دی جاتی تو باقی ضلع میں مسلم اکثریت کا تناسب خود بخود بڑھ جاتا۔ مزید برآں مسلم اکثریت کی تحصیل شکر گڑھ کو تقسیم کرنے کی مجبوری کیوں پیش آئی۔ اگر اس تحصیل کو تقسیم کرنا ضروری تھا تو دریائے راوی کی قدرتی سرحد یا اس کے ایک معاون نالے کو کیوں نہ قبول کیاگیا۔ بلکہ اس مقام سے اس نالے کے مغربی کنارے کو سرحد قرار دیا گیا۔ جہاں یہ نالہ ریاست کشمیر سے صوبہ پنجاب میں داخل ہوتا ہے۔ کیا گورداسپور کو اس لئے بھارت میں 2079شامل کیاگیا کہ اس وقت بھی بھارت کو کشمیر سے منسلک رکھنے کا عزم وارادہ تھا۔
اس ضمن میں میں ایک بہت ناگوار واقعہ کا ذکر کرنے پر مجبور ہوں۔ میرے لئے یہ بات ہمیشہ ناقابل فہم رہی ہے کہ احمدیوں نے علیحدہ نمائندگی کا کیوں اہتمام کیا۔ اگر احمدیوں کو مسلم لیگ کے مؤقف سے اتفاق نہ ہوتا تو ان کی طرف سے علیحدہ نمائندگی کی ضرورت ایک افسوسناک امکان کے طور پر سمجھ میں آسکتی تھی۔ شاید وہ علیحدہ ترجمانی سے مسلم لیگ کے مؤقف کو تقویت پہنچانا چاہتے تھے۔ لیکن اس سلسلے میں انہوں نے شکرگڑھ کے مختلف حصوں کے لئے حقائق اور اعداد وشمار پیش کئے اس طرح احمدیوں نے یہ پہلو اہم بنادیا کہ نالہ بھین اور نالہ بسنتر کے درمیانی علاقے میں غیرمسلم اکثریت میں ہیں اور اس دعویٰ کے لئے دلیل میسر کر دی کہ اگر نالہ اچھ اور نالہ بھین کا درمیانی علاقہ بھارت کے حصہ میں آیا تو نالہ بھین اور نالہ بسنتر کا درمیانی علاقہ از خود بھارت کے حصہ میں آجائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ علاقہ ہمارے (پاکستان) کے حصے میں آگیا ہے۔ لیکن گورداسپور کے متعلق احمدیوں نے اس وقت سے ہمارے لئے سخت مخمصہ پیدا کر دیا۔‘‘
(روزنامہ نوائے وقت مورخہ ۷؍جولائی ۱۹۶۴ئ)
اس معاملہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک طرف قادیانی ریڈکلف کمیشن کو الگ سٹیٹ کا میمورنڈم دے رہے تھے اور دوسری طرف وہی چوہدری ظفر اﷲ خان کمیشن کے سامنے پاکستانی کیس کی وکالت کر رہے تھے جو بقول ان کے اپنی جماعت کے اس خلیفہ کو مطاع مطلق کہتے تھے۔ جن کا عقیدہ یہ تھا کہ اکھنڈ بھارت اﷲ کی مشیت اور مسیح موعود کی بعثت کا تقاضہ ہے۔ ایک ایسے شخص کو پاکستانی وکالت سپرد کر دینا جس کا ضمیر ہی پاکستان کی حمایت گوارہ نہ کر سکے نادانی نہیں تو اور کیا تھا؟ اور خود چوہدری ظفر اﷲ کا ایسے درپردہ خیالات ومقاصد کے ہوتے ہوئے پاکستانی کیس کو ہاتھ میں لینا منافقت نہیں تھی تو اور کیا تھا؟ بہرحال ادھر چوہدری صاحب ریڈکلف کے سامنے پاکستانی کیس لڑ رہے تھے۔ ادھر ان کے امیر اور مطاع مطلق مرزامحمود احمد نے علیحدہ میمورنڈم پیش کر دیا اس طرح یہ دودھاری تلوار کی جنگ گورداسپور ضلع کی تین تحصیلوں کو پاکستان 2080سے کاٹ کر بھارت جانے پر ختم ہوئی اور کشمیر کو پاکستان سے کاٹ دینے کی راہ بھی ہموار کر دی گئی۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali)]
(اس مرحلہ پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی کی جگہ مسٹر چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی نے اجلاس کی صدارت سنبھال لی)
----------
مولوی مفتی محمود: