پاکستان کے ۳۳علماء کا مطالبہ ترمیم
۱۹۵۳ء میں پاکستان کے دستور پر غور کرنے کے لئے تمام مکاتب فکر کے مسلمہ نمائندہ علماء کا جو مشہور اجتماع ہوا اس میں ایک ترمیم یہ بھی تھی کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے کر پنجاب اسمبلی میں ان کے لئے ایک نشست مخصوص کر دی جائے اور دوسرے علاقوں کے قادیانیوں کو بھی اس نشست کے لئے کھڑے ہونے اور ووٹ دینے کا حق دے دیا جائے۔ اس ترمیم کو علماء نے ان الفاظ کے ساتھ پیش کیا ہے: ’’یہ ایک نہایت ضروری ترمیم ہے۔ جسے ہم پورے اصرار کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ملک کے دستور سازوں کے لئے یہ بات کسی طرح موزوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور مخصوص اجتماعی مسائل سے بے پرواہ ہوکر محض اپنے ذاتی نظریات کی بناء پر دستور بنانے لگیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کے جن علاقوںمیں قادیانیوں کی بڑی تعداد مسلمانوں کے ساتھ ملی جلی ہے وہاں اس قادیانی مسئلے نے کس قدر نازک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ان کو پچھلے دور کے بیرونی حکمرانوں کی طرح نہ ہونا چاہئے جنہوں نے ہندو مسلم مسئلہ کی نزاکت کو 1971اس وقت تک محسوس کر کے ہی نہ دیا جب تک متحدہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ دونوں قوموں کے فسادات سے خون آلودہ نہ ہوگیا۔ جو دستور ساز حضرات خود اس ملک کے رہنے والے ہیں ان کی یہ غلطی بڑی افسوسناک ہوگی کہ وہ جب تک پاکستان میں قادیانی مسلم تصادم کو آگ کی طرح بھڑکتے ہوئے نہ دیکھ لیں اس وقت تک انہیں اس بات کا یقین نہ آئے کہ یہاں ایک قادیانی مسلم مسئلہ موجود ہے، جسے حل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس مسئلہ کو جس چیز نے نزاکت کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے وہ یہ ہے کہ قادیانی ایک طرف مسلمان بن کر مسلمانوں میں گھستے بھی ہیں اور دوسری طرف عقائد، عبادات اور اجتماعی شیرازہ بندی میں مسلمانوں سے نہ صرف الگ بلکہ ان کے خلاف صف آراء بھی ہیں اور مذہبی طور پر تمام مسلمانوں کو علانیہ کافر قرار دیتے ہیں۔ اس خرابی کا علاج آج بھی یہی ہے اور پہلے بھی یہی تھا۔ (جیسا کہ علامہ اقبال مرحوم نے اب سے بیس برس پہلے فرمایا تھا) کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے دیا جائے۔‘‘