پاک زمانہ
صحابہؓ کا زمانہ پاک زمانہ تھا۔ وہ حضرات بحث وتمحیص، حجت بازی اور لمبے چوڑے دلائل کے بغیر ہی منشاء نبوت کو سمجھ جاتے تھے۔ اسی لئے جب آنحضرت ﷺ ان کو کوئی مشورہ دینا چاہتے تو پہلے بڑے ادب سے دریافت فرمالیتے۔ یا رسول اﷲ یہ حکم ہے یا مشورہ ہے۔ وہ جانتے تھے کہ رسول کا حکم نہ ماننے سے کفر کا خطرہ ہے۔ کیونکہ بالمشافہ حکم نہ ماننے کا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ وہ گویا کم از کم اس خاص بات میں آنحضرت ﷺ کو سچا نہیں مانتا اور یہ قطعی کفر ہے۔ اس لئے صحابہ کرامؓ نے جب کبھی مشورہ دینا چاہا، پہلے دریافت فرمالیا۔ ورنہ حضور کا ایک حکم بھی نہ ماننا وہ دین کے خلاف سمجھتے تھے۔
’’پس ایمان یہ ہے کہ خدا اور رسول کی تمام باتوں کو سچا سمجھے اور دل سے ان کو قبول کرے۔‘‘ اور ’’کفر یہ ہے کہ کسی ایک بات میں بھی رب العزت جل وعلایا اس کے پاک رسول کو جھٹلایا جائے۔ تو یہ قطعی کفر ہے۔‘‘ مگر یہ تصدیق وتکذیب دل کی صفات ہیں۔ اس لئے اسلام میں علامتوں اور نشانیوں پر حکم کا دارومدار رکھا گیا اور دنیا کی ہر عدالت ظاہر ہی کو دیکھتی ہے۔
2377صحابہ کرامؓ اور خیر القرون کے مسلمان ان حقائق کو ایمانی بصیرت، اپنی صحیح قرآن دانی اور صحبت نبوی کی برکت سے پوری طرح سمجھتے تھے اور یہ ان کے ہاں قابل بحث چیز ہی نہ تھی۔ وہ حضور ﷺ کے ماننے کو ایمان اور نہ ماننے کو کفر سمجھتے تھے اور یہی ہماری تحقیق کا خلاصہ ہے۔ اب آپ تمام احادیث، آیات وروایات کو اس پر منطبق کر سکتے ہیں۔ سارا قرآن پڑھنے والے اور برسوں آپ ﷺ کی صحبت میں رہنے والے صحابہؓ اس مسئلہ کو قابل بحث نہیں سمجھتے تھے کہ اسلام اور کفر کیا ہے؟ مسلمان اور کافر کون ہے؟ ان کے سامنے ایک ہی بات تھی جس نے آپ ﷺ کو مان لیا وہ مسلمان ہوگیا اور جس نے حضور کریم ﷺ کو نہ مانا وہ کافر ہے۔