• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

پنڈت لیکھرام کی موت کی پیشگوئی

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
پنڈت لیکھرام کی موت کی پیشگوئی

مرزا غلام احمد نے کہا پنڈت خرق عادت طور پر مرے گا مگر وہ چھری سے مارا گیا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرزا غلام احمد اور آریہ پنڈت لیکھرام کے درمیان معرکہ آرائی اور بد زبانی کے قصوں نے پورے ملک میں بہت شہرت پائی تھی. یہ دونوں ایک دوسرے کو جی بھر کر برا بھلا کہتے تھے اور بد زبانیاں تو ان کے دن رات کا معمول بن چکا تھا. پنڈت لیکھرام سے تو توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی زبان پر قابو رکھے گا اور شریفانہ گفتگو اختیار کرے گا. مگر مرزا غلام احمد جواب ترکی بہ ترکی دینے میں پنڈت سے کچھ کم نہ تھا. لوگ کہہ رہے تھے کہ ایک شخص جو اپنے آپ کو خدا کا ترجمان اور اس کا نبی کہتا ہے. اسے اس قسم کی زبان استعمال کرتے ہوئے ذرا بھی حیاء نہیں آ رہی ہے؟ مرزا صاحب نے آریہ قوم کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے. ہم اسے کسی دوسرے وقت بیان کریں گے. سر دست ان کی ایک تحریر دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ مرزا صاحب بد کلامی میں کس نیچی سطح تک گر چکے تھے. مرزا صاحب لکھتے ہیں

”پرمیشر ناف سے دس انگلی نیچے ہے. سمجھنے والے سمجھ لیں “ (روحانی خزائن جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ 114)

کیا یہ انداز کلام کسی مامور من اﷲ کے مدعی کا ہو سکتا ہے؟ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مرزا صاحب تہذیب و شرافت سے کس قدر دور تھے؟

مرزا غلام احمد اور پنڈت لیکھرام کے مابین زبانی اور تحریری مباحثے ہوتے. جب اس سے کوئی بات نتیجہ خیز نہ ہوئی تو مرزا غلام احمد نے ایک دن پنڈت لیکھرام سے کہا کہ اگر تم کہو تو میں تمہیں قضاء و قدر کا معاملہ بتاتا ہوں. جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے. پنڈت نے کہا بتا دو. چنانچہ مرزا غلام احمد نے پنڈت لیکھرام کے بارے میں ایک پیشگوئی کر دی اور کہا کہ

”خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو بیس20 فروری 1893ء ہے. چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بد زبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا. سو اب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میںؔ آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہر یک سزا کے بھگتنے کے لئے میں طیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلہ میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے “ (روحانی خزائن جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 650-651)

مرزا غلام احمد کی اس تحریر کو پھر سے ایک مرتبہ بغور ملاحظہ کیجئے. مرزا صاحب نے پنڈت لیکھرام کی موت کی پیشگوئی کن الفاظ میں کی ہے؟ کہ پنڈت پر ایسا عذاب نازل ہو گا جو نرالا اور خارق عادت ہو گا. یعنی ایسا عذاب جس میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہو گا. اس عذاب کو دیکھتے ہی لوگ پکار اٹھیں گے کہ یہ خدائی پکڑ ہے اور یہ انسان کے بس سے باہر ہے. مرزا غلام احمد کے نزدیک خرق عادت کسے کہتے ہیں اسے بھی ملاحظہ کیجئے

”ظاہر ہے کہ جس امر کی کوئی نظیر نہ پائی جائے اسی کو دوسرے لفظوں میں خارق عادت بھی کہتے ہیں. “ (روحانی خزائن جلد ۲- سرمہ چشم آریہ: صفحہ 67)
مرزا صاحب نے ایک اور جگہ لکھا
”خارق عادت اسی کو تو کہتے ہیں کہ اس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے “ (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 204)

اس بات کو کچھ عرصہ گذرا تھا کہ پنڈت لیکھرام کو کسی نے چھری سے وار کر کے قتل کر دیا. مرزا غلام احمد کو جب یہ خبر پہنچی کہ پنڈت لیکھرام خرق عادت کے طور پر عذاب میں مبتلا نہیں ہوا بلکہ اسے کسی نے چھری سے قتل کر دیا ہے تو اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا. بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتا اور پیشگوئی کے غلط ہونے کا اقرار کرتا. جھٹ سے اپنی پیشگوئی میں یہ سوچ کر تحریف کر ڈالی کہ پرانے جھگڑے کسے یاد رہتے ہیں.

آئینہ کمالات اسلام (1892ء-1893ء) میں مرزا صاحب نے یہ پیشگوئی درج کی ہے. مگر جب مرزا صاحب نے نزول المسیح (1902ء) لکھی تو اس میں پنڈت لیکھرام کی میت کی تصویر شائع کی اور اسکے حاشیہ میں اب یہ پیشگوئی اس طرح پیش کی
”میں نے بھی اس کی نسبت موت کی پیشگوئی کی تھی کہ چھ برس تک چھری سے مارا جائے گا. “ (روحانی خزائن جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 553)

مرزا صاحب نے تریاق القلوب (1899ء) میں لکھا
”یہ پیشگوئی نہ ایک خارق عادت امر پر بلکہ کئی خارق عادت امور پر مشتمل تھی کیونکہ پیشگوئی میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ لیکھرام جوانی کی حالت میں ہی مرے گا اور بذریعہ قتل کے مرے گا. “ (روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 403)

مرزا غلام احمد کا یہ جھوٹ بھی دیکھیں جو اس نے فروری 1903ء کو لکھا
”خدا نے دنیا میں اشتہار دے دیا کہ لیکھرام بوجہ اپنی بد زبانیوں کے چھ6 برس تک کسی کے ہاتھ سے مارا جائے گا “ (روحانی خزائن جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 464، مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 495)

مرزا صاحب کی کتاب (حقیقۃ الوحی مطبوعہ 1907ء)میں لکھا یہ جھوٹ بھی ملاحظہ کریں
”میری کتابیں برکات الدعا اور کرامات الصادقین اور آئینہ کمالاتِ اسلام... جن میں قبل از وقوع خبر دی گئی تھی کہ لیکھرام قتل کے ذریعہ سے چھ 6سال کے اندر اِس دنیا سے کوچ کر جائے گا “ (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 294)

آپ ہی فیصلہ کریں کہ مرزا صاحب نے آئینہ کمالات اسلام میں جو پیشگوئی نقل کی ہے، کیا اس پیشگوئی کے الفاظ یہی ہیں جو انہوں نے نزول المسیح اور تریاق القلوب، نسیم دعوت اور حقیقۃ الوحی نامی کتابوں اور اشتہار میں لکھے ہیں. اگر الفاظ وہی ہوتے تو کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں. لیکن کیا کیا جائے. نہ الفاظ وہ ہیں اور نہ ہی پنڈت لیکھرام کی موت خرق عادت طور پر ہوئی ہے. مگر افسوس کہ مرزا صاحب اتنی بڑی تحریف پر بھی ذرا نہیں شرمائے اور انہیں دن دھاڑے جھوٹ بولتے اور لکھتے ہوئے ذرا حیا نہیں آئی. سچ ہے؎

بے حیا باش وہرچہ خواہی کن

چھری سے قتل ہونا تاریخ کا کوئی نرالا اور انوکھا واقعہ نہیں ہے. عام طور سے اس قسم کے واقعات ہر جگہ ظہور میں آتے ہیں. اس کو کسی نے بھی نرالا اور خرق عادت عذاب نہیں کہا. اس میں انسانی ہاتھ کام کرتے ہیں اور جو ہاتھ اس میں ملوث ہوتے ہیں. ان کی گردنیں بھی پھر ناپی جاتی ہیں اور اس پر پھر پھانسیاں لگتی ہیں. مرزا صاحب کی پیشگوئی کے الفاظ اس بات کے پوری طرح گواہ ہیں کہ اس نے پنڈت کو ایسے عذاب میں مبتلا ہونے کی پیشگوئی کی تھی جو خرق عادت کے طور پر تھی. لیکن یہ پیشگوئی ہر گز پوری نہ ہوئی اور مرزا صاحب اپنی اس پیشگوئی میں بھی غلط نکلے تو انہوں نے اپنی اس پیشگوئی کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنے ہی الفاظ میں طرح طرح کی تحریف کی. تاکہ ان کی بات پوری ہو جائے. مرزا صاحب نے 5 مارچ 1897ء کو ایک اشتہار شائع کیا. تو اس میں یہ الفاظ لکھ دئیے

’’لیکھرام کی موت کسی بیماری سے نہیں ہوگی، بلکہ خدا کسی ایسے کو اس پر مسلط کرے گا جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا ہو گا‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 348)

مرزا صاحب نے جب جولائی، اگست 1899ء میں تریاق القلوب لکھی تو اس میں یہ الفاظ شامل کر دئیے
”یہ موت کسی معمولی بیماری سے نہیں ہوگی بلکہ ضرور ایک ہیبت ناک نشان کے ساتھ یعنی زخم کے ساتھ اُس کا وقوعہ ہو گا “(روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 388)

مرزا صاحب یہ بھی لکھتے ہیں
”آسمان پر یہ قرار پاچکا ہے کہ لیکھرام ایک درد ناک عذاب کے ساتھ قتل کیا جائے گا “ (روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 395)

مرزا صاحب کو اپنے الفاظ میں باربار تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسی لئے کہ ان کی پیشگوئی غلط ہو گئی تھی اور اب وہ تحریف کر کے اپنی بات کو صحیح بنانا چاہتے تھے اور پیشگوئی کو حالات کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے. مگر افسوس کہ اس میں بھی وہ ناکام رہے اور ان کا جھوٹ کھل کر سامنے آگیا. مرزا صاحب کی اس پیشگوئی کے جھوٹا ہونے پر مرزا صاحب کے یہ الفاظ ہم انہی کی نذر کئے دیتے ہیں.

”کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے. زیادہ اس سے کیا لکھوں. “ (روحانی خزائن جلد ۱۲- سِراج مُنِیر: صفحہ 15)

(نوٹ) پنڈت لیکھرام کو کس نے قتل کیا. یہ معلوم نہ ہو سکا انگریزوں کا دور تھا وہی اس راز سے پردہ اٹھا سکتے ہیں. تاہم مرزا صاحب کی تحریرات اس بارے میں کچھ کم دلچسپی سے خالی نہیں ہیں.

مرزا غلام احمد کا کہنا ہے کہ لیکھرام کو ایک فرشتے نے قتل کر دیا تھا اور قتل سے پہلے فرشتے نے مرزا صاحب سے آ کر پوچھا تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہو گا. مرزا صاحب کے الفاظ یہ ہیں
خونی فرشتہ جو میرے اوپر ظاہر ہوا اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 297)

مرزا صاحب یہ بھی لکھ آئے ہیں
”دیکھا کہ ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل .... میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور اُس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اُس کو دیکھتا تھا کہ ایک خونی شخص کے رنگ میں ہے اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ “ (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 297)

”ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اُس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا. میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خِلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں. ملائک شداد غِلاظ میں سے ہے اور اُس کی ہیبت دِلوں پر طاری تھی اور میں اُس کو دیکھتا ہی تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے ؟“ (روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 394)

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خونی فرشتہ کو معلوم نہ تھا کہ اس وقت لیکھرام کہاں پر ہے؟ کیا خدا نے اسے نہیں بتایا تھا کہ لیکھرام فلاں جگہ پر ملے گا؟ آخر اس خونی کو مرزا صاحب سے پوچھنے کی ضرورت کیوں ہوئی؟ اس قسم کی باتیں وہی پوچھتے ہیں جنہیں اس خاص مقصد کے لئے تیار کیا جاتا ہے اور جب وہ وقت آتا ہے تو پھر وہ اسی کو آ کر پوچھتے ہیں جس نے انہیں اس کام کے لئے تیار کیا ہوتا ہے.
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس خدا کے فرشتے آئے اور پھر آپ سے رخصت ہو کر قوم لوط علیہ السلام کی بستی الٹنے چلے گئے. ان میں سے کسی نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نہیں پوچھا کہ قوم لوط کی بستی کس جانب ہے؟ کیوں؟ اس لئے کہ یہ انسان نہیں، فرشتے تھے اور فرشتے اس قسم کے سوالات نہیں کیا کرتے. ہاں انسان پوچھا کرتے ہیں.
بدر کے میدان میں خدا کے ہزاروں فرشتے اترے اور بعض صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے انہیں دیکھا بھی کہ وہ خدا کے دشمنوں کا کام تمام کر رہے ہیں. مگر آپ ہی بتائیں کیا انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم یا کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ فلاں فلاں خدا کا دشمن اس وقت کہاں ہے کہ میں اس کا کام تمام کروں؟

مگر مرزا صاحب کے پاس آنے والا فرشتہ اتنا جاہل تھا کہ نہ اسے خدا نے بتایا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ نہ خود اسے پتہ تھا. اسے مرزا صاحب کے پاس آ کر پوچھنا پڑا کہ اس وقت لیکھرام کہاں ہو گا؟ تاکہ میں جا کر اس کو قتل کر دوں. بعض لوگ اس خونی فرشتے کا نام مٹھن لال بتاتے ہیں. مرزا صاحب کے اس فرشتے کا ذکر ان کی مقدس کتاب تذکرہ صفحہ 474 پر ملتا ہے.

پنڈت لیکھرام کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یہ قتل مرزا غلام احمد کے اشارے پر کیا گیا ہے. انہوں نے اس کی رپورٹ بھی لکھوائی. تاکہ اس پر کاروائی کی جائے. انگریزوں کا دور تھا اور یہ ان کا خود کاشتہ پودا. حالات کی نزاکت کے پیش نظر مرزا صاحب کے گھر کی 18 اپریل 1897ء کو تلاشی بھی لی گئی تھی. (دیکھئے مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 381) لیکن انگریزوں سے اس بات کی امید باندھنی کہ وہ اپنے خود کاشتہ پودا پر ہاتھ ڈالے، سوائے نادانی کے اور کیا ہے؟

ہم اس وقت صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد کو اپنی جس پیشگوئی کے پورا ہونے پر بڑا ناز تھا اور جسے وہ ہمیشہ اپنی سچائی کے ثبوت کے طور پر پیش کرسکتے کبھی پوری نہیں ہوئی. نہ پنڈت ایسے عذاب کا شکار ہوا. جسے خرق عادت سمجھا جائے اور نہ ایسی موت پائی جو سب سے نرالی اور انوکھی سمجھی جائے. اس لئے مرزا صاحب کا اور خصوصاً مرزا طاہر کا پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی کو باربار ذکر کرنا کھلی ڈھٹائی ہے اور ایک جھوٹ کو سچ بتانا قادیانیوں کا ہمیشہ کا طریق رہا ہے.

فاعتبروا یا اولی الابصار!
 
Top