• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ

غلام غوث

رکن ختم نبوت فورم
hazoor-old.jpg pir-mehar-ali-shah-sahib.jpg PirMeherAliShah.JPG PirMeherAliShah.JPG
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
ماشا اللہ
جناب پیر مہر علی شاہ صاحب کی ختم نبوت کے بارے کارکردگی بھی فورم میں پیش کر دیں
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃُ اللہ علیہ نے مرزا کی موت سے صرف ایک دن پہلے فرمایا تھا کہ مرزا چوبیس گھنٹے (یعنی ایک دن) میں مر جائے گا اور پیر صاحب کی پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہو گئی اور مرزا قادیانی صرف ایک دن کے اندر اندر واصل جہنم والا۔ یہ ہوتی ہے اللہ کے ولیوں کی پیشن گوئیاں

انسانی رشد و ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ نے کم و بیش تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر و انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور سرکارِ دوعالم حضرت محمد مصطفیۖ پر ختم ہوا۔ آپۖ نبوت و رسالت کے اس عظیم سلسلے کے ''خاتم'' ہیں لہٰذا آپۖ کے بعد کسی نبی یا رسول کے تشریف لانے کی قطعاً ضرورت اور گنجائش باقی نہیں رہی۔ ختم نبوت کا یہ عقیدہ دین اسلام کی عظیم الشان عمارت کی بنیاد ہے۔ دین اسلام کا مرکز و محور یہی عقیدہ ہے اور دین اسلام کی روح و جان یہی عقیدہ ہے۔ اس عقیدہ میں ذرا سی لچک یا جھول انسان کو ایمان کی رفعتوں سے گرا کر کفر کی پستوں میں پٹخ دیتی ہے۔
یہ ختم نبوت کے عقیدہ کی اہمیت ہی ہے کہ نبی کریمۖ کے ظاہری وصال کے بعد اس عقیدے کے تحفظ و ترویج کیلئے مسلمانوں نے اپنی زندگیاں تک قربان کر دیں۔ خلیفہ اوّل اور مجاہد اوّل تحریک تحفظ ختم نبوت حضرت ابوبکر صدیق نے جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کیخلاف اعلان جہاد کر کے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس جہاد میں جلیل القدر صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا لیکن مسیلمہ کذاب کی سرکوبی تک اس جہاد کو نہیں روکا گیا اور عقیدہ ختم نبوت کا یہ تحفظ آج تک جاری ہے۔ جب جب کسی دجال یا کذاب نے عقیدہ ختم نبوت پر حملہ کیا یا نقب زنی کی کوشش کی تب تب علماء ومشائخ اور مسلمان میدان عمل میں نکلے اور عقیدہ ختم نبوت پر حملہ آور ہونیوالے فتنے اور اسکے پیروکاروں کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔
برصغیر پاک و ہند میں بھی ایک ننگِ دین کذاب مرزا غلام احمد قادیانی لعنتی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو علمائے حق نے اسکے اس دعوے کی فی الفور تردید کی اور امت مسلمہ کو اس فتنے سے بچانے کیلئے میدانِ عمل میں کود پڑے۔
اگر مرزا قادیانی کی اجڑی ہوئی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس نے سب سے پہلے غیر مسلموں کے ساتھ مناظروں سے شہرت حاصل کی، پھر ''مجدد'' ''مسیح'' ''موجود'' اور پھر ''نبی'' ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ مرزا قادیانی کی زندگی کا دور برصغیر بلکہ پوری دنیا میں سیاسی بیداری کا دور تھا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا کی اقوام میں سرکارِ انگلستان سے آزادی کے حصول کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ سیاسی اعتبار سے انگلستان کیلئے پوری دنیا پر اپنی حکومت اور قبضہ جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا اور انکے خلاف آزادی کا نعرہ بلند کرنیوالوں کی اکثریت مسلمان تھی لہٰذا انگریزوں نے مسلمانوں کی اس طاقت کو کمزور کرنے کیلئے برصغیر پاک و ہند میں مرزا قادیانی جبکہ عرب دنیا میں ابن عبدالوہاب نجدی کی خدمات حاصل کیں اور اس طرح امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ برصغیر پاک و ہند میں مرزا قادیانی نے انگریزوں کی آشیرباد سے جو گل کھلائے وہ کسی کی نظر سے عیاں نہیں۔
اپنے سابقہ کالم میں مرزا قادیانی اور پیر مہر علی شاہ کے مباہلہ اور مناظرہ کا احوال بیان کیا تھا۔ جب پیر مہر علی شاہ نے اگست 1900 میں مرزا کو شکست فاش دی اس وقت تک مرزا نے صرف مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا لیکن 1901 میں مرزا نے ایک اور زقند بھری اور سیدھا نبوت کا دعویٰ داغ دیا۔ یوں تو مرزا کی اس جھوٹی نبوت کیخلاف برصغیر پاک و ہند میں ہر مکتبہ فکر کے علماء اور دانشور اپنے اپنے انداز میں کوشش کرتے رہے لیکن اس عظیم تحریک ختم نبوت کی پہلی اینٹ امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی نے رکھی۔ علمی و تحقیقی میدان میں جس طرح آپ نے مرزا قادیانی کا قلع قمع کیا اسکی نظیر ملنا مشکل ہے اور آنیوالے دنوں میں جس جس نے بھی تحفظ ختم نبوت کیلئے کام کیا، اس نے روشنی اسی مینارۂ نور سے حاصل کی، خواہ وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ہوں یا مولانا انور کشمیری، امیر ملت سید جماعت علی شاہ صاحب وں یا مفتی محمد شفیع اوکاڑوی، پیر کرم شاہ الازہری کی کوششیں ہوں یا ڈاکٹر طاہر القادری کی کاوشیں، سب اعلیٰ حضرت عظیم البرکت کی فراہم کردہ اس علمی و فکری اساس کی مرہونِ منت ہیں جس پر عقیدہ ختم نبوت کی خوبصورت عمارت کھڑی ہے۔ یہ اعلیٰ حضرت کے افکار و نظریات ہی ہیں جنہوں نے برصغیر پاک و ہند میں عظیم تحریک تحفظ ختم نبوت کو بنیاد فراہم کی۔ اس تحریک کی آبیاری علماء و مشائخ، دانشوروں اور صحافیوں نے کی اور اسکے نتیجے میں مملکت خداداد پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت اور مرتد قرار دیا گیا۔
جب مرزا قادیانی کے بارے میں علماء و مشائخ گومگو کی کیفیت میں تھے اور کھل کر یا واضح طور پر اسکے خلاف محاذ قائم نہیں کر پا رہے تھے، اعلیٰ حضرت نے تن تنہا مرزا کیخلاف اعلانِ جنگ کیا۔ آپ نے نہایت جرات کے ساتھ وہ عظیم الشان فتویٰ صادر فرمایا جس نے مرزا قادیانی اور اسکے پیروکاروں کے نہ صرف بخیے ادھیڑے بلکہ امت مسلمہ کو اس بھیانک فتنے کیخلاف ایک واضح لائحہ عمل بھی پیش کیا چنانچہ اپنے عظیم فتویٰ میں آپ نے فرمایا:
''قادیانی مرتد منافق ہیں، مرتد منافق وہ کہ کلمہ اسلام اب بھی پڑھتا ہے، اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہے اور پھر اللہ عز و جل یا رسول اللہۖ یا کسی نبی کی توہین کرنا یا ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہے، اسکا ذبیح مردار، محض نجس اور قطعی حرام ہے۔ مسلمانوں کے بائیکاٹ کے سبب قادیانی کو مظلوم سمجھنے والا اور اس سے میل جول چھوڑنے کو ظلمِ ناحق سمجھنے والا اسلام سے خارج ہے اور جو کافر کو کافر نہ کہے وہ بھی کافر'' (احکامِ شریعت، اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان)
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا کہ:
''اس صورت میں فرضِ قطعی ہے کہ تمام مسلمان موت و حیات کے سب علاقے ان (قادیانیوں) سے قطع کر دیں۔ بیمار پڑے پوچھنے کو جانا حرام، مر جائے تو اسکے جنازے پر جانا حرام، اسے مسلمانوں کے گورستان میں میں دفن کرنا حرام، اسکی قبر پر جانا حرام'' (فتاویٰ رضویہ جلد 6 صفحہ 51)
اسکے علاوہ ردِ قادیانیت پر آپ نے پانچ مستقل کتابیں تحریر کیں۔ ایک چھٹی کتاب ''حسام الحرمین'' کے نام سے مرتب کی جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علماء و مشائخ کے فتاویٰ جات اکٹھے کئے۔
اعلیٰ حضرت کے فتنہ قادیانیت کیخلاف آواز بلند کرنے کی دیر تھی کہ علماء و مشائخ اور دانشور جوق در جوق اس عظیم کارِخیر کیلئے کوششیں کرنے لگے۔ قیام پاکستان سے قبل انگریز کے اس پُرفتن دور میں اعلیٰ حضرت کے نعرۂ مستانہ کی گونج برصغیر کے کونے کونے میں سنی جانے لگی۔ گولڑہ شریف میں تاجدارِ گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ پہلے ہی اس جہاد کا اعلان کرچکے تھے، انکے ساتھ ساتھ سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ کی آوازیں بھی شامل ہوگئیں۔ ان سب نے مل کر علمی اور فکری میدان میں فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کی۔
مرزا قادیانی نے بوکھلاہٹ میں اور بزعمِ خود مختلف علماء اور مشائخ کو مناظروں اور مباہلوں کا چیلنج دے ڈالا۔ اس میں سے ایک کا ذکر میں اپنے گزشتہ کالم میں کرچکا ہوں جب مرزا نے فرزندِ رسولۖ حضرت پیر مہر علی شاہ کیخلاف موت کا اعلان کیا اور خود ہی اس اعلان کی نذر ہوگیا۔ اسی طرح مرزا نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کیخلاف بھی مباہلہ کیا چیلنج دیا اور اسکے نتیجے میں خود ہی واصلِ جہنم ہوا جبکہ یہ دونوں ہستیاں یعنی پیر مہر علی شاہ اور مولانا ثناء اللہ امرتسری قادیانی ملعون کے جہنم رسید ہونے کے بعد بھی زندہ و سلامت رہے۔ مرزا کذاب خود اپنی ہی باتوں کی تکذیب کیا کرتا تھا، مناظروں اور مباہلوں کا چیلنج دیتا اور پھر خود ہی منہ چھپائے پھرنا اسکی عادتِ ثانیہ تھی۔ جھوٹے نبی مرزا قادیانی کی بے شمار پیشنگوئیاں جن میں محمدی بیگم سے نکاح، بیٹے کی پیدائش، اپنی طویل عمری، دشمنوں کی ہلاکت وغیرہ جھوٹی ثابت ہوچکی تھیں لیکن سچے نبیۖ کے سچے غلام کی سچی پیشن گوئی اور قادیانی کذاب کی بدترین اور عبرتناک موت کا حال بی سنئے:
مئی 1908 میں قادیانی دجال مع اپنے چیلے چاٹوں کے لاہور تبلیغی دورے پر آیا ہوا تھا اور یہیں اس نے اعلان کیا کہ دورہ سیالکوٹ تک کیا جائیگا۔ احمدیہ بلڈنگز لاہور (جہاں مرزا ٹھہرا ہوا تھا) سے کچھ فاصلے پر آلِ رسول حضرت پیر سید جماعت علی شاہ ردِ قادیانیت کیلئے ختم نبوت کے پروانوں کے ساتھ خیمہ زن تھے اور مرزائیت کے بخیے ادھیڑتے رہے۔ 22 مئی 1908 کو شاہی مسجد میں سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے دورانِ وعظ فرمایا ''میری عادت پیشن گوئی کی نہیں لیکن مجبوراً کہتا ہوں کہ اگر مرزا کو سیالکوٹ جانے کی طاقت ہے تو وہاں جا کر دکھلائے، میں کہتا ہوں کہ وہ وہاں کبھی نہیں جاسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اسکو توفیق ہی نہیں دیگا کہ وہ سیالکوٹ جاسکے''۔ حضرت محمدث عل پوری تین دن تک یہ اعلان کرتے رہے، بالآخر 25 مئی 1908 کو کھڑے ہو کر فرمایا ''ہم کئی روز سے مرزا کے مقابلے میں آئے ہوئے ہیں، پانچ ہزار روپے کا انعام بھی مقرر کیا ہے کہ جس طرح چاہے وہ ہم سے مناظرہ یا مباہلہ کرے اور اپنی کرامتیں اور معجزے دکھائے لیکن وہ مقابلے میں نہیں آیا لیکن آج میں مجبوراً کہتا ہوں کہ آپ صاحبان سب دیکھ لیں گے کہ کل 24 گھنٹے میں کیا ہوتا ہے''۔ قادیانی کذاب اسی رات اسہال کا شکار ہوا اور دوپہر ہونے تک شدتِ مرض سے مر گیا یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی پیٹ کی نجاست اسکے منہ سے نکلتی رہی جو دیکھنے والوں کیلئے باعث عبرت بنی۔
علماء و مشائخ کے علاوہ دانشوروں نے بھی تحریک تحفظ ختم نبوت کی اپنے اپنے انداز میں آبیاری کی چنانچہ مفکر پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال وہ پہلے مسلمان دانشور ہیں جنہوں نے قادیانیت کیخلاف آئینی جنگ کی ابتدا کی۔ چنانچہ آپ نے 1935 میں انگریزی میں ایک مضمون لکھا جس میں آپ نے حکومت کو تجویز کیا کہ ''احمدیت'' کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا اسے علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے۔ علامہ اقبال نے ہر جگہ پر فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کیلئے کوششیں کیں۔ مرزا قادیانی کے سیالکوٹ قیام کے دوران علامہ اقبال کے خاندان سے اسکے تعلقات قائم ہوئے جنہیں بعد میں غلط طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ مرزا قادیانی 1864 سے 1868 تک سیالکوٹ میں نوکری کرتا رہا اور ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے ساتھ مناظرے بھی۔ مررزا چونکہ ایک اچھا مقرر تھا لہٰذا اکثر مناظروں میں فتح یاب ہونے لگا اور اسی وجہ سے مسلمانوں نے اسکی حمایت بھی شروع کر دی۔ سیالکوٹ میں مرزا کا قیام بھی حضرت اقبال کے گھر کے پاس ہی تھا لہٰذا علامہ اقبال کے خاندان کے ساتھ بی اسکی علیک سلیک ہوگئی اور اس وقت تک مرزا نے کوئی غلط دعویٰ نہیں کیا تھا اور نہ ہی اسلام کیخلاف کوئی زبان درازی کی تھی لیکن جب اس نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا اور اسکے نظریات پر باطل کی گرد پڑنے لگی تو اقبال کے خاندان نے مرزا سے قطع تعلق کر لیا، چنانچہ علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد کے بارے میں تو خود قادیانی کتاب ''سیرتِ مہدی'' میں درج ہے کہ انہوں نے 1893 میں مرزا سے قطع تعلقی اور برأت کا اظہار کر دیا تھا۔ خاندانِ اقبال میں واحد نقب علامہ اقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز کی صورت میں لگائی گئی جو قادیانی ہوا اور آخر عمر تک قادیانی ہی رہا۔ قادیانیوں نے شیخ اعجاز کے ذریعے علامہ اقبال کے خاندان کو بھی قادیانیت میں شامل کرنے کی بہت ترغیب دی لیکن اس میں قطعاً کامیاب نہ ہوسکے حتیٰ کہ شیخ اعجاز کے اپنی بیوی بچے بھی کبھی قادیانیت کی طرف مائل نہ ہوئے۔ قادیانیوں کیخلاف علامہ اقبال کے نظریات انکے خطوط، مضامین، تقاریر اور شاعری کے ذریعے واضح ہیں۔ علامہ اقبال اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: ''بانی تحریک (احمدیت) کا ولولہ اور جذبہ دیکھ کر میں بھی ابتداء میں انہیں دینِ اسلام کا شیدائی سمجھتا رہا ہوں لیکن جلد ہی یہ تحریک کھل کر سامنے آگئی جب یہ تحریک کھل کر سامنے آئی تو پتہ چلا کہ یہ تو وہ منافق ہے جو کافر سے زیادہ خطرناک ہے''۔ ایک اور جگہ علامہ اقبال نے فرمایا ''ذاتی طور پر میں اس تحریک سے اس وقت بیزار ہوا تھا جب ایک نئی نبوت بانیٔ اسلامۖ کی نبوت سے برتر ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا گیا بعد میں یہ بیزاری بغاوت کی حد تک پہنچ گئی جب میں نے تحریک کے ایک رکن کو اپنے کانوں سے آنحضرتۖ کے متعلق نعوذ باللہ نازیبا کلمات کہتے سنا۔ درخت جڑ سے نہیں پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر میرے موجودہ روئیے میں کوئی تناقض ہے تو یہ بھی ایک زندہ اور سوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل سکے''۔
علامہ اقبال نے اپنی مشہور مثنوی ''پس چہ باید کرد'' میں چند اشعار مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کے بارے میں بھی کہے ہیں۔ ایک شعر میں فرماتے ہیں

تن پرست و جاہ مست و کم نگہ
اندر ونش بے نصیب از لا الہ
(خود پسند، عزت چاہنے والا، کوتاہ نظر، اسکا دل لا الٰہ سے خالی ہے)
جاوید نامہ کے ایک شعر میں دو جھوٹے مدعیان نبوت کے بارے میں لکھتے ہیں

آں از ایراں بود و ایں ہندی نژاد
آں از حج بیگانہ و ایں را جہاد

(ان میں سے ایک (بہاء اللہ) ایرانی ہے اور دوسرا (مرزا قادیانی) پہلے نے حج منسوخ کر دیا اور دوسرے نے جہاد)
فتنہ قادیانیت کے بارے میں علامہ اقبال کے ان واضح نظریات نے قادیانیوں کی کمر توڑ دی، وہ اور تو کچھ نہ کر سکے لیکن اقبال کے ناخلف قادیانی بھتیجے شیخ اعجاز کے ذریعے علامہ اقبال کے خاندان کو قادیانی ثابت کرکے علامہ اقبال اور انکے خاندان کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تاکہ اقبال کے افکار و نظریات متنازعہ ہو کر اپنی اہمیت کھو دیں۔ اس سلسلے میں شیخ اعجاز ملعون نے ایک کتاب ''مظلوم اقبال'' بھی تحریر کی جس کا مقصد اقبال کے خاندان کو قادیانی ثابت کرنا تھا لیکن اقبال کے اس قادیانی بھتیجے کے بھانجے اور ختم نبوت کے شیدائی خالد مظہر صوفی نے اپنے ماموں کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس سازش کو بے نقاب کیا۔ علاوہ ازیں علامہ اقبال کے فرزند جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی اپنی کتاب ''زندہ اور'' میں خاندانِ اقبال کے قادیانی ہونے کی تردید کی ہے۔ خاندانِ اقبال سے ایک اور معتبر گواہی ناخلف بھتیجے شیخ اعجاز کے بہنوئی (جو کہ علامہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد کے داماد ہیں) ڈاکٹر نظیر صوفی کی حاضر ہے۔ ڈاکٹر نظیر صوفی لکتے ہیں کہ:
''یہ کہنا کہ علامہ کے خاندان کے کئی افراد نے مرزائیت قبول کر لی تھی، سراسر جھوٹ ہے۔ حضرت علامہ کے والد، والدہ، چچا، چچی، بہنیں اور بھائی اور انکی اولادیں سب ہی سنی مسلمان تھے اور ہیں سوائے ایک بھتیجے کے جو کہ ججی میں ترقی کیلئے چودھری ظفر اللہ کے زیر اثر چھ بہن بھائیوں میں سے اکلوتا قادیانی بن گیا''۔
علامہ اقبال نے 1935 کے ایک انگریزی مضمون میں حکومت برطانیہ کو آئینی طریقے سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی جو تجویز پیش کی تھی وہ صرف چار دہائیوں بعد 1974 میں سرخرو ہوئی اور اقبال کے افکار اور سیاسی نظریات پر قائم ہونیوالی مملکت خداداد پاکستان نے اقبال کی اس تجویز کو عملی جامہ پہناتے ہوئے قادیانیوں کو غیرمسلم اور مرتد قرار دیدیا

لکھتا ہوں خونِ دل سے یہ الفاظِ احمریں
بعد از رسولِ ہاشمیۖ کوئی نبی نہیں۔۔۔

لنک
 

سیف قادریہ

رکن ختم نبوت فورم
ماشاءاللہ ابوبکر صدیق بھائی جان
ذرا تصحیح فرما لیں کہ وہ ایک دن میں مرزا کی موت کی پیشین گوئی پیر مہر علی رحمہ اللہ نے نہیں بلکہ پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمہ اللہ نے فرمائی تھی اور دوسرا یہ کہ لکھتے ہوئے یا بولتے ہوئے " جھوٹا نبی " نہ کہا کریں بلکہ " نبوت کا جھوٹا دعوے دار " کہا کریں۔
شکریہ
 
Top