• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

پیش لفظ (سیف چشتیائی حصہ دوم)

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
شمس الہدایت کا طلوع
جب مرزا صاحب اور ان کے نئے مذہب کا زیادہ چرچا ہوا اور ظاہربین لوگ متاثر ہونے لگے تو علماء کی درخواست پر حضرت قبلہ عالم قدس سرہ اس طرف متوجہ ہوئے اور باطنی ارشادات کی تعمیل میں 1317 ھجری یعنی 1899۔1900 عیسوی ماہ شعبان و رمضان المبارک میں اورادو اشغال روزمرہ سے کچھ وقت بچا کر ایک رسالہ بعنوان شمس الہدایت فی اثبات حیات المسیح منشی عبدالجبار کاتب اخبار چودھویں صدی راولپنڈی کو قلمبند کرایا جو رمضان شریف میں ہی طبع ہو کر سارے ہندوستان کے عماء و مشائخ میں تقسیم کرا دیا گیا۔ اور ایک کاپی بذریعہ رجسٹری مرزا صاحب کو بھی قادیان میں ارسال کردی گئی۔
اس کتاب میں حضرت قبلہ عالم قدس سرہ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے اور قیامت کے قریب بجسد عنصری زمین پر نازل ہوکر اسلام کی نصرت کا باعث ہونے کو قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ثابت فرماتے ہوئے امت اسلامیہ کے اجماعی اور متفق علیہ عقائد میں سے قرار دیا نیز ثابت کیا کہ ان کی موت اور ان کے مثیل کے دنیا میں بطور مسیح موعود آنے کے قادیانی عقائد غلط اور باطل ہین۔ شمس الہدایۃ کے آغاز میں آپ نے مرزا صاحب کی ایام الصلح والی تعلّی کے مقابلہ میں ان سے کلمہ طیبہ لَا اِلٰہِ اِلّا اِللّٰہ کے معنی دریافت کیے۔
شمس الہدایت کے مندرجات، منقولات اور معقولات اور اس کے مؤلف رحمتہ اللہ علیہ کی خداداد علمی و عارفانہ شہرت اور عوامی عقیدت ایسی چیزیں نہ تھیں جس سے قادیان میں تہلکہ نہ مچ جاتا۔ مرزا صاحب کے حواریوں نے خود لکھا ہے کہ کتاب کا شائع ہونا تھا کہ ملک کے طول و ّرض میں ایک شور بپا ہوگیا۔ خصوصاً کلمہ طیبہ کے معنی کے سوال پر علمائے اسلام بھی دنگ رہ گئے۔

حکیم نورالدین کے بارہ سوالات
20 فروری 1900 عیسوی کو مرزا صاحب کے مشیر حکیم نورالدین نے حضرت قبلہ عالم قدس سرہ کو ایک خط لکھا جس میں بارہ سوالات درج تھے۔ حکیم صاحب کے کچھ سوالات تو تفسیر ابن جریر اور تاریخ کبیر بخاری کے حوالہ جات کی نسبت تھے کہ آیا اس زمانہ مین یہ ناپید کتابیں آپ کے کتب خانہ میں ہیں؟ اور تفسیر جریر کی مثل پانچ چھے تفسیروں کے نام دریافت کیے۔ تھے باقی سوالات کا خلاصہ یہ ہے۔
سوال نمبر 3۔ کُلّی طبعی جناب کے نزدیک موجود فی الخارج ہے یا نہیں۔ تشخص متشخص کا عین ہے یا غیر؟
سوال نمبر 4۔ تجدّد اِمثال کا مسئلہ صحیح ہے یا غلط؟
سوال نمبر 5۔ زید عمر یا نور دین جزیات انسانیہ اس محسوس مبصر جسم کا محدود نام ہے یا وہ کوئی اور چیز ہے جس کے لیے یہ جسم بطور لباس ہے؟۔
سوال نمبر 6۔ انبیاء و اولیاء انواع ذنوب و خطایا سے محفوظ نہیں یا ہیں۔ کتاب یا سنت سے کوئی قوی دلیل چاہیے۔
سوال نمبر 7۔ الہام و کشف و رویائے صالحہ کیا چیز ہیں۔ ان سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں؟
سوال نمبر 10۔ عقل، قانون قدرت، فطرت کہاں تک مفید ہیں یا شریعت کے سامنے اس قابل نہیں کہ ان کا نام لیا جائے۔ تعارض عقل و نقل کے وقت کونسی راہ اختیار کی جائے؟
سوال نمبر 11۔ تصحیح احادیث روایات کو دیکھ کر آج کل ہم اور آپ بھی کر سکتے ہیں یا نہیں؟
سوال نمبر 12۔ تفسیر بالرّائے اور متشابہات کے کیا معنی ہیں؟

اور ایک سوال بعض احادیث مندرجہ شمس الہدایت کے استخراج کے متعلق تھا۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے جوابات
خط کے پہنچتے ہی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جواب تو لکھوا دیا مگر علماء کے اس مشورے کے تحت روانہ نہ کیا کہ مبادا ان کی اشاعت سے شمس الہدایت میں مندرجہ سوالات کے جوابات سے ہی جواب مل جائے۔ مگر جب 24 اپریل کے اخبار الحکم قادیان میں عدم جواب کا شکوہ شائع ہوا تو آپ نے وہ جواب بھجوا دیا۔ جوابات کی شان دلالت اور فریق مخالف کے متحیرانہ سکوت کا لطف تو کچھ ان کے مطالعہ سے ہی آسکتا ہے۔
خاتمہ جواب پر حضرت نے تحریر فرمایا؛

’’مجھے نہ خیال شان آپ کے بہت افسوس ہے کہ جناب سے ایسے سوالات سرزد ہوں۔ عصمت انبیاء اور عدم وقوع خطا فی الامر التبلیغی میں تو تردد ہو مگر مرزا صاحب کی عصمت اور عدم امکانی خطا فی التعبیر تک بھی متیقن بہ سبحان اللہ، مولانا،آپ کے اخلاق کریمانہ سے امید کرتا ہوں کہ تشریح حقیقت معجزہ سے ذرا آپ بھی ممنوں فرماویں گے۔ السلام خیر ختام‘‘۔
جب حضرت کو جوابات نے ملک کے گوشہ گوشہ میں پہنچ کر علماء و فضلاء سے تحریری و تقریری خراج تحسین حاصل کیا اور عوام کی طرف سے شمس الہدایت کے جواب کا مطالبہ زور پکڑ گیا تو مرزا صاحب نے جوش میں آکر حضرت کو مناظرہ کی دعوت دی مگر اس میں یہ نہیں کہا کہ آئیے میرے جن عقائد اور دعاوی سے آپ کو اور تمام عالم اسلام کو اختلاف ہے یعنی وفات مسیح، میرا مثیل مسیح اور مسیح موعود ہونا ، لا مہدی الا عیسیٰ، میری ظلی بروزی بلکہ مستقل نبوت، میرے متعلق انکار پر مسلمانوں کا خارج از اسلام ہونا اور دجال شخصی اور جہاد سیفی کی تردید وغیرہ کے متعلق میرے ساتھ مباحثہ کرلیں تاکہ حق واضع ہوجائے اور میرے مشن کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں دور ہوجائیں بلکہ اس بات کی دعوت دی کہ آؤ میرے ساتھ عربی زبان میں تفسیر نویسی کا مقابلہ کرلو۔ مقام مناظرہ لاہور مقرر کیا اور تین علماء بطور حَکم مقرر کیے۔ دعوت نامی ایک لمبے اشتہار کی سکل میں شائع کیا۔

گولڑہ شریف میں مرزا صاحب کا یہ اشتہار 25 جولائی 1900 عیسوی کو موصول ہوا۔ اور قبلہ عالم قدس سرہ نے اسی روز اشتہار جواب دعوت بمع ضمیمہ مطبع اخبار چودھویں صدی راولپنڈی میں بھجوا کر اگلے ہی روز ملک میں شائع کروادیا۔ مرزا صاحب کی خواہش کے مطابو پانچ ہزار کاپیاں شائع کروائی گئیں۔ ان میں سے ایک مرزا صاحب کو بذریعہ رجسٹرڈ پوسٹ اور علمائے کرام مندرجہ اشتہار دعوت کو اور پنجاب و ہندوستان صوبہ سرحد اور افغانستان کے بہت سے دیگر علماء و فضلاء کو بھی دستی اور بذریعہ ڈاک روانہ کر دی گئیں۔ تمام ملک کے اخبارات مین بھی اس دعوت مناظرہ اور جواب دعوت کی اطلاعات نشر کردی گئیں۔ جس سے ہر جگہ خاصی دلچسپی پیدا ہوگئی۔ حضرت صاحب نے نہ صرف دعوت قبول فرمائی بلکہ تحریری مناظرہ کے ساتھ ساتھ تقریری مناظرہ کی بھی دعوت دی۔ حضرت قبلہ عالم قدس سرہ کی طرف سے تقریری بحث کی دعوت نے اس ہونے والے مباحثے کی قومی افادیت اور عوامی دلچسپی میں بے حد اضافہ کردیا۔ مرزا صاحب کے چیلنج میں تو اس مقابلہ کی حیثیت کم و بیش انفرادی تھی جس میں دو فاضل مضمون نگار تفسیر نویسی اور عربی علم و ادب میں اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرکے تصفیہ اور قول فیصل کے مقام پر لا کھڑا کیا۔
مباحثہ کے ضمن میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع
چنانچہ جب وعدہ کا دن قریب آیا تو ملک کے طول و عرض سے ہزارہا مسلمان لاہور پہنچ گئے۔ علماء، درویش، مشائخ اور ہر طبقہ و فرقہ کے مذہبی افتاد طبع رکھنے والے مسلمان، شیعہ، سنی، اہل حدیث، حتیٰ کہ قادیانی جماعت کے مرید متفق ہمدرد اور مائل بھی دور و نزدیک سے جمع ہوگئے۔ دہلی، سہارنپور، دیوبند،لدھیانہ،سیالکوٹ، گورداس پور، امرتسر، مظفر گڑھ، ملتان اور پشاور کے ہر عقیدے کے اسلامی مدارس اور مراکز نے بھی جو پہلے سے قادیانی مباحث میں دلچسپی لے رہے تھے، اپنے اپنے نمائندے نمائندے بھیجے، بعض سرکاری ملازم بھی دور دراز شہروں سے رخصت لے کر پہنچ گئے۔ مسلمانان لاہور نے اپنی روایتی مہمان نوازی کا ھٖ ادا کیا۔ استقبالیہ کمیٹیاں بن گئیں۔ اور سرائیں، مسجدیں، مدرسے اور لوگوں کے گھر مہمانوں ست بھر گئے۔ قریبی اضلاع، قصبوں اور مضافات سے آنے والی ریل گاڑیاں وغیرہ سواریوں سے بھری ہوئی پہنچنے لگیں۔ اور لاہور کے بازاروں میں لوگوں کے ٹھٹھ سے میلے کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ان دنوں میں لوگ ویسے بھی مذہبی جلسوں اور مباحثوں میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ لیکن اس خاص موقع پر تو ہجوم خلائق کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت قبلہ عالم قدس سرہ جیسی مشہور زمانہ روحانی تقدس اور علمی احترام و شہرت رکھنے والی شخصیت پہلی بار ، اسلام پر قادیانیت کے خطرناک حملوں کے دفاع میں علمائے دین کی اس قدر بڑی اور فقید المثال تعداد کے ساتھ میدان منظرہ و مباحثہ میں تشریف فرما ہو رہی تھی۔ اور تمام موافق، متردد یا مخالف حضرات اپنی آنکھوں سے بیسویں صدی کی اس سب سے بڑی اشتہاری تحریک کا حشر دیکھنا چاہتے تھے۔
مباحثہ کا انعقاد شاہی مسجد لاہور میں قرار پایا تھا اس لیے مورخہ 25 اگست کو پولیس نے وہیں حفظ امن کے انتظامات کر رکھے تھے، 25 اور 26 کو دونوں اطراف کے نمائندے اور عوام مسجد مین جمع ہو ہو کر منتشر ہوتے رہے اور قادیانیوں کی طرف سے کہا جاتا رہا کہ شرائط کے طے ہونے میں توقف ہو رہا ہے مگر مرزا صاحب ضرور آئیں گے لیکن مرزا صاحب کو نہ آنا تھا اور نہ آئے۔ مرزا صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں کسی قیمت پر بھی لاہور آنے کو تیار نہیں ہوں، کیونکہ مولوی لوگ مجھے دعوٰی نبوت میں کاذب ثابت کرنے کے بہانے قتل کرانا چاہتے ہیں۔
جب مرزا صاحب کی آمد سے قطعاً مایوسی ہوگئ تو 27 اگست کو شاہی مسجد میں مسلمانوں کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں علمائے کرام نے اس دعوت مناظرہ کی مکمل داستان بیان کرکے قادیانیت کی واضع تصویر لوگوں کے سامنے رکھ دی۔ تمام اسلامی فرقوں کے سرکردہ علماء منبر پر کھڑے ہو کر ختم نبوت کی یہ تفسیر بیان کی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کے اس دنیا میں آخری نبی ہین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔ اور جو شخص اس عقیدہ کا منکر ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

سیف چشتیائی
مرزا صاحب نے مناظرہ سے فرار کے بعد “اعجاز المسیح” کے نام سے سورۃ فاتحہ کی تفسیر شائع کی۔ جب یہ تفسیر عربی دان طبقہ کے ہوتھوں میں پہنچی تو مرزا صاحب کے تفسیری کمالات سب کے سامنے آگئے۔ اور عربی دانی و عربی نویسی کے بلند و بانگ دعاوی کی اصلیت سب پر روشن ہوگئی۔ اس تفسیر کی زبان محاورہ سے محروم، لغوی اور معنوی اغلاط سے مملو اور مسروقہ عبارات سے پُر تھی۔
جب “اعجاز المسیح” کی تفسیر پر بھی خاطر خواہ نتائج مرتب نہ ہوئے اور مسلمانوں کے خطوط اور اشتہارات میں یہ تقاضا مزیر زور پکڑ گیا کہ مرزا صاحب ان لطائف الحیل کو چھوڑ کر حضرت پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب شمس الہدایت لکھنے کی طرف متوجہ ہوں تو انہوں نے اپنے معتقد مولوی محمد احسن امروہی کو جو تنخواہ میں تخفیف کے باعث ناراض ہو کر امروہہ چلے گئے تھے واپس بلوایا اور کوئی ایک سال کے عرصہ میں ان سے شمس بازغہ لکھوا کر شائع کرائی۔
اعجاز المسیح اور شمس بازغہ کے جواب میں حضرت قبلہ عالم قدس سرہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب سیف چشتیائی تصنیف فرمائی۔ جو 1902 عیسوی میں شائع ہو کر برصغیر کے علماء و مشائخ، دینی مدارس۔ اور مذہبی اداروں میں مفت تقسیم کی گئی۔ اور اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ اس میں حضرت قبلہ عالم قدس سرہ نے مرزا صاحب کی اعجازی تفسیر سورۃ فاتحہ موسومہ اعجاز المسیح پر صرف و نحو۔ لغت ، بلاغت، معانی، منطق، اور محاورہ کی غلطیاں، نیز سرقہ۔ تحریف اور التباس کے قریباً یکصد اعتراضات فرمائے ہیں۔
آپ نے مرزا صاحب کے اس معجزانہ کلام میں صرف “مقامات حریری” سے ہی بیس20 مسروقہ عبارات کی نشاندہی فرمائی ہے جہاں مرزا صاحب نے حریری کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اور شمس بازغہ کے صفحہ بہ صفحہ اندراجات کے علی الترتیب ایسے خاموش کن اور مسکت جوابات دیئے کہ علمائے وقت میں امروہی صاحب کے علمی افلاس کا ڈھنڈورا پٹ گیا۔
حضرت کی یہ تصنیف یعنی سیف چشتائی اپنے نادر استدلال، بلند پایہ علمی مضامین اور مسئلہ زیر بحث پر سوال و جواب کے پیرایہ میں واضع اور دلنشین انداز اور تجربے کے باعث نہایت مقبول ہوئی ہے اور آج نصف صدی گزرنے پر بھی بار بار طبع ہو کر ہاتھوں ہاتھ لی جارہی ہے۔ بلند پایہ علماء کے طبقہ میں تو بالخصوص اس کی بہت مانگ ہے اور وہی درحقیقت اس کی قدر و منزلت بھی کر سکتے ہیں۔ چنانچہ مولوی اشرف علی تھانوی اپنی تفسیر بیان القرآن میں
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ

﴿سورۃ نساء آیت 157﴾ کے ذیل میں لکھتے ہیں۔“اور حیات و موت عیسوی کی بحث میں کتاب سیف چشتیائی قابل مطالعہ ہے” اسی طرح دیو بند کے شیخ الحدیث علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی اپنی کتاب “عقیدۃ الاسلام فی حیٰوۃ عیسی علیہ السلام” کے دیباچہ میں سیف چشتیائی کو مسئلہ حیات مسیح پر ایک بہترین اور کافی دوافی تحریر قرار دیا ہے۔
سیف چشتیائی میں حضرت قبلہ عالم قدس سرہ نے ابن عساکر کی حدیث نزول ابن مریم روایت کردہ حضرت ابو حریرہ درج فرما کر لکھا تھا کہ:۔
“اسی حدیث کے آخر میں
حاجاً اور معتمراً ولیقفنّ علی قبری ویسلمنّ علیّ ولاردنّ علیہ موجود ہے اور ہم پیشین گوئی کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفاً میں حاضر ہو کر سلام عرض کرنے اور جواب سلام سے مشرف ہونے کی نعمت قادیانی کو کبھی نصیب نہ ہوگی”
چنانچہ پیشین کوئی پوری ہوئی اور مرزا صاحب کو نہ تو حج نصیب ہوا اور نہ مدینہ منورہ کی حاضری ہی، جو اس حدیث کی رو سے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام یعنی مسیح موعود کے لیے ایک نہایت ہی ضروری نشان ہے۔ یعنی عیسٰی علیہ السلام آسمان سے نازل ہونے کے بعد حج بھی ادا کریں گے اور آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پاک پر حاضر ہو کر صلوٰۃ و سلام بھی عرض کریں گے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قبر مبارک سے جواب بھی دیں گے۔ (اختتام اقتباسات از مہر منیر)
چونکہ سیف چشتیائی سے متعلقہ واقعات قریباً ایک صدی قبل ظہور میں آئے اس لیے موجودہ قارئین کی سہولت کے لیے حضرت سیدنا مہر علی شاہ صاحب کی سوانح حیات مہر منیر سے مندرجہ بالا اقتباسات یہاں اس زیر نظر ایڈیشن میں شامل کر دیئے گئے ہیں تاکہ ان واقعات کا پیش منظر سامنے آجائے۔ قارئین کی مزید سہولت کے لیے عربی عبارتوں کا ترجمعہ اور فہرست مطالب کا بھی اس ایڈیشن میں اضافہ کیا گیا ہے۔
حضرت سیدنا مہر علی شاہ صاحب اور مرزائے قادیانی کے مجوزہ مباحثہ لاہور جس کا ذکر اسی پیش لفظ کے صفحہ “ز” پر آچکا ہے، سے متعلقہ بعض خطوط اور اشتہارات بھی سیف چشتیائی کے دوسرے ایڈیشن کے آخر مین افادہ عام کے لیے درج کر دئیے گئے تھے۔ چونکہ ان سب کا ذکر اب حضرت کی سوانح حیات “مہر منیر” کے باب پنجم کی پانچویں فصل میں تفصیلاً کیا جا چکا ہے اس لیے ان کا یہاں اعادہ ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اسی طرح مولانا محمد غازی صاحب مقیم دربار گولڑہ شریف نے اپنی طرف سے ایک اشتہار بعنوان “وہابی کامعنی کیا ہے؟” غیر مقلدین وہابیہ کی تردید میں اپنی تالیف“عجالہ بردوسالہ” کے ساتھ ایک ملحقہ پمفلٹ میں بطور ضمیمہ شائع کیا تھا ۔جسے بعد ازاں سیف چشتیائی کے دوسرے ایڈیشن میں بھی کسی خاص وجہ سے درج کردیا تھا۔ اس اشتہار کو آئندہ “عجالہ بردوسالہ” کے آکر میں ہی درج کرنے پر اکتفا مناسب سمجھی گئی ہے۔ کیونکہ نہ اس کا سیف چشتیائی کے نفس مضمون سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی کتاب کے قلمی مسودہ مین اس کا کوئی ذکر ہے۔ کتاب ہذا کے صفحہ 81 سطر 25 میں مرزائے قادیانی کے علاوہ انہیں مشہور مدعیان نبوت کے ناموں پر اکتفا کی گئی ہے جن کا تذکرہ سیف چشتیائی کے اصل قلمی مسودہ میں اور دیگر اکابر علماء اہل سنت کی کتابوں بہار شریعت وغیرہ میں ہے۔
جیسا کہ قارئین دیکھیں گے کہ کتاب ہذا مناظرانہ طرز مین تحریر کی گئی ہے۔ چونکہ فریق مخالف نے اپنے اعتراضات علم و فن کے رنگ میں پیش کیے تھے لہذا ان کا جواب بھی اسی رنگ میں پیش کرنا ضروری تھا۔ ہندوستان کے مشہور مفتی اور عالم اور ریاست رام پور کے مدرسہ عالیہ کے پرنسپل مولٰینا فضل حق رام پوری نے ایک سال اجمیر شریف میں عرس کے موقع پر حضرت بابو جی رحمتہ اللہ علیہ سے حضرت قبلہ عالم قدس سرہ کی اس تصنیف کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:۔
“یوں تو حضرت کے کمالات بہت بیان ہوتے ہیں لیکن میں تو اس دماغ کا شیدائی ہوں جس سے سیف چشتیائی ظہور میں آئی ہے”
کتاب ہذا میں اصطلاحی الفاظ اور فنّی مباحث کا مکمل فہم فقط ماہرین علامئے کرام ہی کر سکتے ہیں۔ حضرت قبلہ عالم قدس سرہ کے مکتوبات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کی اس نادر تصنیف نے علمائے عصر سے بے حد خراج تحسین وصول کیا ہے۔ دعا ہے کہ قارئین کے لیے حضرت رحمتہ الہ علیہ کی اس تصنیف لطیف کا مطالعہ باعث تقویت ایمان ہو۔ اور اللہ تعالیٰ اس کتاب کی طباعت کے کار خیر میں حصہ لینے والے سب حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
جمادی الآخر 1402 ھجری
محمد حیات خان
مارچ 1982 عیسوی
 
آخری تدوین :
Top