• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

پیش لفظ (سیف چشتیائی)

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قادیانیت پر ایک مختصر تبصرہ
مذہب اسلام کے دو بنیادہ اصول اللہ تعالٰی کی وحدانیت1 اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت2 پر اعتقاد رکھنا ہیں۔ اسلام نے آکر بنی آدم کو بتایا کہ اصل مستحق عبادت کون و مکان کا پروردگا اور مالک و حاکم صرف اللہ تعالٰی کی ذات پاک ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں اور جو ضابطہ حیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے کتاب و وحی الٰہی کے ذریعہ پیش کیا وہی صحیح اور درست ہے اور انسانوں پر لازم ہے کہ اپنی فلاح کے لیے اس پر عمل کریں۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے عروج ظاہری اور باطنی کا راز ان دو بنیادی اصولوں پر عمل کرنے میں ہی مضمر تھا۔ مخالفین اسلام اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔چنانچہ مسلمانوں کو نیچا دکھانے کے لیے جو قدم اٹھائے ان میں سب سے پہلا انہی دو اصولوں کو ہدف بنانا تھا۔ پہلے اصول کی مخالفت میں تو انہیں چنداں کامیابی حاصل نہ ہوسکی کیونکہ اس اصول کے متعلق تبلیغ اسلام کا اثر ہمہ گیر ہوچکا تھا اور انسانی ذہن اس حد تک نشوونما پا چکا تھا کہ معبودان باطلہ اور معبود حقیقی میں تمیز کر سکے۔ اسے معبود حقیقی پر ایمان رکھنے سے ہٹا کر معبودانِ باطلہ کی طرف لانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اندرین حالات مخالفین نے اپنی تمام تر کوششیں اس بات پر مرکوز کردیں کہ اسلامی ایمان کے دوسرے یعنی رسالت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متزلزل کیا جائے۔ اور جو والہانہ عقیدت اور محبت مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک سے تھی اس میں جس طرح بھی ہوسکے کمی کی جائے۔ ان کا یہ خیال بھی تھا کہ اس محاذ پر کامیابی سے انہیں اول الذکر پر خودبخود کامرانی حاصل ہوجائے گی۔ کیونکہ دنیا کو اس اصول سے متعارف آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی نے ہی کروایا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اصول سے متزلزل ہونا اور توحید کے اصول سے ہٹ جانا گویا لازم و ملزوم تھے۔ اس لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد کاذب نبیوں کی ایک کثیر جماعت نے جزیرہ عرب میں سر اٹھایا۔ مگر خلیفہ اول کے بروقت اور سخت اقدامات کی وجہ سے ان سب کی سرکوبی ہوئی اور کوئی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کے بعد اگرچہ انفرادی طور پر مدعیانِ نبوت پیدا ہوتے رہے مگر زمانہ پر کوئی معتدبہ اثر ڈالے بغیر دنیا سے اٹھ جاتے رہے۔ منظم طریقہ سے اس اصول پر محاذ آرائی قریباً مفقود رہی تا آنکہ تیرھویں صدی ہجری میں مسلمانوں کا ظاہری اور باطنی تنزل تیزی سے شروع ہوا۔ اور اس کے برعکس دوسرے عقائد والی قومیں مادی لحاظ سے ابھرنا شروع ہوئیں اور رفتہ رفتہ تمام دنیا پر چھا گئیں۔ اپنے اس ارتقاء کی وجہ سے انہیں اسلام کے اصولوں پر کاری ضرب لگانے کے مواقع میسر آگئے کیونکہ مادی انحطاط کے ساتھ ساتھ مسلمان ذہنی انحطاط کا بھی شکار ہوچکے تھے اور مخالفین کو اپنے عزائم میں کامیاب ہونے کا اس سے بہتر موقعہ نہیں مل سکا تھا۔
مسلمانوں کے اس دور ابتلا میں سر زمین ہند میں حکومت برطانہ کے ذیر اثر اس فتنہ نے سر اٹھایا جو بعد میں قادیانیت اور مرزائیت کے نام سے مشہور ہوا۔ یہاں پر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کی اس فتنہ کے متعلق مختصر سا تبصرہ ہدیہ ناظرین کیا جائے تاکہ اس بات کا صحیح اندازہ ہوسکے کہ اس فتنہ سے دنیائے اسلام کس درجہ ذہنی انتشار اور دینی تفرقہ کے خطرہ عظیم سے دوچار ہوئی۔ علائے وقت نے اس فتنہ کو فرو کرنے میں کتنا بڑا کارنامہ دیا اور اس میں پیر مہر علی شاہ صاحب رح کا کردار کتنا اہم اور عظیم الشان ہے۔
یہ تحریک قادیانیت حکومت برطانہ کی سر پرستی میں شروع ہوئی اور اس کا اصل مقصد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کے دلوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرو منزلت کو نکالنا اور دین اسلام کے ارشادات اور ان کے مطالب میں اس طرح کا ردوبدل کرنا تھا کہ مخالفین کو اپنے عزائم کی تکمیل میں امداد مل سکے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی ایک امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسالت کا سلسلہ ختم کردیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمہ طور پر اللہ تعالٰی کے آخری نبی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اس دنیا کے لیے خدا کی آخری شریعت تھی۔ اس شریعت اتنی وسعت رکھی گئی تھی کہ قیامت تک کے لیے پیش آنے والے انسانی مسائل کا حل اس میں موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی خبر قرآن کریم میں نہایت وضاحت اور غیر مبہم الفاظ میں دی گئی ہے۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْماً ۝
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔ (احزاب۔40)

اور متعدد احادیث مبارکہ سے اس کی تائید ہوتی ہے مثلاً صحیح مسلم میں بروایت سعد رض حدیث طویل کے ضمن میں مزکور ہے:۔
فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ءَ ما ترضٰی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون الا انہ لا نبوۃ بعدی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت علی رض سے) فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے ساتھ ایسے ہو جیسے موسٰے علیہ السلام کے ساتھ ہارون لیکن (نبوت کا لقب تمہیں نہیں مل سکتا) میرے بعد نبوت نہیں۔

مسلمانوں کے سارے مکاتیب فکر ختم نبوت کے مسئلہ پر اس وقت تک کاملاً متفق تھے جب تک بانی قادیانیت نے اپنے سلسلہ نبی ہونے کا دعوٰی نہیں کیا۔ اس کی ابتدا بھی انہوں نے عجیب انداز میں کی۔ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات کے سلسلہ میں یہ ذکر ہے کہ ان کو یہودیوں نے سولی پر چڑھا|1| اور یہ سمجھ لیا کہ وہ وفات پاگئے ہیں مگر وہ غلطی پر تھے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ یہ تذکرہ سورۃ النساء میں ان الفاظ میں ہے:۔
وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰكِنْ شُبِّہَ لَہُمْ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْہِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ يَقِيْنًا۝ بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَيْہِ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا۝
اور وہ کہتے ہیں ہم نے مسیح ابنِ مریم رسول اللہ کو قتل کردیا۔ حالانکہ انھوں نے نہیں قتل کیا اور نہ ہی صلیب چڑھایا مگر اس کی شبیہ کو۔ اور جو اس میں اختلاف کرتے ہیں وہ بھی بے خبر ہیں۔ ان کے پاس سوائے ظن کے اور کوئی دلیل نہیں۔ انھوں نے ہرگز قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اسے اپنے پاس اٹھا لیا اور خدا غالب ہے حکمت والا۔
(النساء: 157۔158)
صحیح مسلم کی احادیث مقدسہ میں آثار قیامت کے بیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ارشادات موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قیامت سے کچھ عرصہ پہلے دنیا میں شروفسادات بے انتہا ہوں گے اور دجال نامی ایک شخص کا ظہور ہوگا جو اپنے جادو اور شیطانی قوتوں کی امداد سے ایک وسیع قطعہ زمین پر قبضہ کرلے گا اور ایمان رکھنے والوں پر دائرہ حیات تنگ کردے گا۔ اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے مشرق میں سفید مینارہ کے قریب آسمان سے اتریں گے اس حال میں کہ آپ کے دونوں ہاتھ دو فروشتوں کے کندھوں پر ہوں گے آپ آکر دجال کو قتل کریں گے اور دنیا میں اسلام،ایمان اور امن کا بول بالا کریں گے۔ اور پھر سات سال|2| یہاں رہنے کے بعد وفات پاکر مدینہ شریف میں حرم پاک میں دفن ہوں گے ۔آپ کے ظہور سے پہلے نبی فاطمہ میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام محمد ہوگا اور لقب مہدی۔ وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کا ستقبال کرے گا اور پہلی نماز یہ حضرات مل کر پڑھیں گے۔ اس میں وہ عیسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں دنیا کو کفر والحاد کے اثرات سے پاک کرنے میں امداد دے گا۔
چونکہ ان احادیث مبارکہ میں صحیح سال کا تعین نہیں ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کئی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر قبل اس کے کہ وہ کسی عیسٰی کا استقبال کرتے وہ خود اس دنیا سے اٹھ جاتے رہے۔ بانی قادیانیت نے ان مدعیان سے ذرا مختلف طریقہ اختیار کیا سب سے پہلے انہوں نے علامائے سلف کے اس عقیدہ کو غلط بتایا کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے اور وہی پھر زمین پر واپس آئیں گے ان کے نظریہ کے مطابق عیسٰے علیہ السلام اپنے زمانے میں ہی انتقال فرما گئے تھے اور قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والا شخص محض مثیل مسیح ہوگا اس نظریہ کی اشاعت کے ساتھ ہی اسی مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کرکے خود کو مسیح موعود قرار دے دیا۔ اس ابتدا سے وہ ظلی نبوت کی طرف بڑھے اور بالآخر اپنے اصلی نبی ہونے کا اعلان کرکے امت مسلمہ کے اس اعتقاد پر ضرب لگائی جس سے وہ تیرہ سو سال سے مکلف تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

حاشیہ:۔
ضروری نوٹ۔ اس فورم پر موجود سیف چشتیائی کے حاشیہ جات جو بغیر کسی وضاحت کے درج ہیں یہ سیف چشتیائی میں موجود نہ ہیں بلکہ ضروری حوالے اور تشریحات میری طرف سے لکھے گئے ہیں جو کہ اصل کتاب کا حصہ نہ ہیں جبکہ کتاب کے اصل حاشیہ جات میں لفظ
حاشیہ کتاب درج ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ حاشیہ اصل کتاب کا حصہ ہے اور اس کے الفاظ کا رنگ گہرا نیلا رکھا گیا ہے ۔ ضیاء رسول امینی۔
|1| کتاب سیف چشتیائی کے پیش لفظ میں یہ الفاظ کے ان کو یہودیوں نے سولی پر چڑھایا کا مطلب یہ ہے کہ ان کی شبیہ کو انہوں نے سولی پر چڑھایا کیونکہ اس واقعے کے دوران اللہ پاک نے ایک شخص کی شکل و صورت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متشابہ کردی اور اسی کو یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کے سولی پر چڑھایا جبکہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک نے سولی دیئے جانے سے قبل ہی اپنی طرف اٹھا لیا جیسا کے آیت میں وما قتلوہ وما صلبوہ کے الفاظ سے ظاہر ہے لیکن یہودی یہی سمجھے کہ شائد انہوں نے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھایا اور آج بھی سب یہودیوں کا یہی اعتقاد ہے۔
|2|
میری تحقیق کے مطابق احادیث مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا میں دوبارہ آنے اور رہنے کے عرصہ کو قریباً چالیس سال بتایا گیا ہے جبکہ حضرت امام مہدی کا بعد از ظہور عرصہ قریباً سات سال بتایا گیا ہے۔ (واللہ اعلم)

بانی قادیانیت اور ان کی ابتدائی زندگی
تحریک قادیانیت کے بانی کا نام مرزا غلام احمد تھا وہ برٹش انڈیا میں صوبہ پنجاب کے ضلع گرداسپور کے موضع قادیان میں ؁1839 میں پیدا ہوئے|1| ان کے والد کا نام مرزا غلام مرتضٰی تھا جو سمرقندی مغل گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کا پیشہ طبابت اور زمیندارہ تھا۔ مرزا غلام احمد علوم مروجہ عربی فارسی اور طب کی تحصیل سے فارغ ہو کر ؁1864میں ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے دفتر مین بطور اہل مد قریباً چار سال ملازمت کرتے رہے۔ بعد میں ملازمت چھوڑ کر اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا ساتھ ساتھ مذہبی کتب کا مطالعہ بھی جاری رکھا اور مذہبی مناظرات وغیرہ مین حصہ لیتے رہے جہاں تک معلوم ہوسکا ہے ان کے آباو اجداد حنفی المذہب مسلمان تھے اور خود مرزا صاحب بھی اوائل زندگی میں انہی کے قدم بقدم چلتے رہے۔ اس وقت تک مرزا صاحب کے عقائد وہی تھے جو ایک صحیح العقیدہ سنی مسلمان کے ہونے چاہئیں وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے بھی اسی قدر قائل تھے جیسے دیگر مسلمان۔ ان ایام میں مرزا صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی اور نزول کے عقیدہ پر بھی ایمان رکھتے تھے۔
حاشیہۛ۔
|1| مرزا غلام قادیانی کی عمر کے بارے بھی خود مرزا نے اور اسکی ذریت نے بھی عجیب چال چلی ہے جہاں جہاں بھی کسی نام نہاد الہام یا عمر کے بارے کسی پیش گوئی وغیرہ کو فٹ کرنا ہوتا وہاں اسی کے مطابق عمر لکھ دی جاتی رہی۔ مرزا قادیانی کی عمر کے اس اتار چڑھاؤ کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی پیدائش کا سال بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ :۔

{میری پیدائش سنہ 1839ء یا سنہ 1840 ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے ، اور میں سنہ 1857 ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا اور ابھی ریش وبرودت کا آغاز نہیں تھا۔}
(کتاب البریہ، رخ 13 صفحہ 177 حاشیہ) ۔

آپ ؁1836 یا ؁1837 میں پیدا ہوئے۔ مرزا بشیر الدین محمود، سیرت مسیح موعود صفحہ 6


مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ
؁1857 کی جنگ آزادی کے بعد اپنی سیاسی بالا دستی کھو دینے کی وجہ سے مسلمان سخت ذہنی پریشانی اور مایوسی کا شکار ہوچکے تھے اور اپنے اس اضمحلال سے چھٹکارا حاصل کرنے لیے ہر طرف منتظر آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ کب کوئی مرد خدا انہیں اس ابتلا سے نجات دلائے اس تذبذب اور اضطراب کے زمانہ میں مسلمانوں کے ذہنی پر جو نفسیاتی کیفیت طاری تھی مرزا صاحب کو ان کے رفیق حکیم نورالدین نے اس سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ خود کو مثیل مسیح کا لبادہ اوڑھ کر قوم کے سامنے پیش کریں تو ساری قوم دل و جان سے ان کا خیر مقدم کرے گی اور وہ احیائے ملت کے لیے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے سکیں گے۔ مرزا صاحب نے اپنے پیرو کار حکیم نورالدین کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے سب سے پہلے مثیل مسیح ہونے کا دعوٰی کیا اور کہا۔
“مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہیں اور نہ میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے جس طرح محدثییت نبوت سے مشابہ ہے ایسا ہی میری روحانی حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حالت سے مشابہت رکھتی ہے”۔ ﴿اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت جلد دوم مولفہ میر قاسم علی قادیانی﴾
حاشیہ۔
اس عبارت کا دوسرا حوالہ(ایک عاجز مسافر کا اشتہار قابل توجہ جمیع مسلمانان انصاف شعار و حضرات علمائے نامدار مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 215طبع چہارم)

مثیل مسیح سے مسیح موعود
مرزا صاحب اپنے اس دعوے مثیل مسیح پر زیادہ عرصہ قائم نہ رہے بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھے اور سب سے پہلے حیات مسیح کے عقیدے کو غلط بتا کر وفات مسیح کا اعلان کیا اور پھر اپنے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا اعلان ان الفاظ مین کیا:۔
“میرا دعوٰے یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدا تعالٰی کی تمام پاک کتابوں میں پیش گوئیاں ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا” (تحفہ گولڑویہ) |1|
ان اعلانات کے بعد احادیث نزول مسیح کے مختلف پہلووں کو اپنی ذات پر درست ثابت کرنے کے لیے مرزا صاحب نے استعارہ اور تاویل سے کام لیا جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے۔ مسلم کی احادیث کے مطابق مسیح موعود کی تشریف آوری ان حالات میں ہونی تھی
نُزُوْلُہ وَ مَکَانُہ بِاالشَامِ بَلْ بِدَمِشْقِ عِنْدَ الْمُنَارَۃِ الشّرَقَیَّۃ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ملک شام یعنی دمشق میں شرقی منارہ پر ہوگا۔
عَلَیْہِ ثَوْبَانِ مُعْصَرَانِ۔
نزول کے وقت دو زرد رنگ کی چادریں پہن رکھی ہوں گی
|2|
3۔ مسلمانوں کا امام ان سے نماز پڑھانے کی درخواست کرے گا تو فرمائیں گے اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ (تمہارا امام نماز تم میں سے ہے) اور صحیح اور متواتر احادیث سے واضع ہے کہ یہ امام حضرت مہدی علیہ السلام ہوں گے جو بنی فاطمہ میں سے ہوں گے۔
مرزا صاحب نے ان شرائط کی تکمیل اپنی ذات کے متعلق کی اور اپنی مسجد کو مسجد اقصٰی اور اپنی ذات کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل ظاہر کیا۔

مسیح موعود سے نبوت تک
مرزا صاحب اپنے مسیح موعود ہونے کے دعوے تک قریباً دس سال قائم رہے اور پھر ختم نبوت کے معروف اسلامی نظریہ کو (جس کے وہ خود بھی معتقد رہے تھے) غلط قرار دے کر نومبر ؁1901 میں اپنی نبوت کا اعلان کردیا۔
اپنے اس دعوے کے بعد مرزا صاحب کچھ عرصہ تک اپنے آپ کو ظلی نبی ظاہر کرتے رہے۔ ان کے کہنے کے مطابق اگرچہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا تھا مگر نبوت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے ہی مل سکتی تھی نہ کہ براہ راست جیسا کہ پہلے زمانہ میں ہوا کرتا تھا۔ اور خاتم النبیین کے معنی یہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی مہر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہوسکتی تھی۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسے انبیاء پیدا ہوں گے جن کی نبوت کی تصدیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مہر سے فرمائیں گے ان انبیاء کی نبوت کا معیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو قائم کرنا ہوگا۔
کچھ عرصہ اسی طرح ظل رہنے کے بعد مرزا صاحب آخر اس منزل پر پہنچ گئے جس کے تصور سے کاملین بھی کانپتے تھے یعنی انہوں نے مستقل صاحب شریعت نبی اور خاتم النبیین ہونے کا دعوی کردیا اور ان شبدیز قلم نے اس ادب گاہ کو بھی پھلانگ جانے کی جسارت کی جس کے نزدیک بھٹکنے سے نہ صرف جبرائیل علیہ السلام کے پر جلتے تھے بلکہ مشائخ عظام کو آزادی سے سانس تک لینے کی جراءت نہ تھی۔
ادب گاہ ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدرح وبایزیدرح آں جا
اپنی تصنیف حقیقت الوحی میں قرآن کریم کی وہ آیات جو آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازل ہوئی تھیں انہیں اپنی طرف منسوب کرکے اپنی ذات کو ان کا مصداق ظاہر کیا۔
مستقل نبوت کا لبادہ اوڑھنے کے بعد یہ ضروری تھا کہ اس کے دیگر لوازمات بھی سامنے لائے جاتے۔ چنانچہ مرزا صاحب نے یہ بھی دعوٰے کیا کہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے اور وحی سے کہیں زیادہ الہامات تھے جو مرزا صاحب نے اپنے دعاوی کے ثبوت میں پیش کیے۔ مرزا صاحب کے بہت سے الہامات پیش گوئیوں کی شکل میں ہیں جنہیں وہ اپنی صداقت کا معیار اور نشان قرار دیتے رہے۔

حاشیہ۔

مرزا غلام قادیانی نے اپنی پیشگوئیوں کو اپنی صداقت کا معیار ٹھہراتے ہوئے لکھا۔
“بد خیال لوگون کو واضح ہو کہ ہمارا صدق اور کذب جانچنے کے لیے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا”۔
آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 382
“اگر ثابت ہو کہ میری سو پیشگوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں” ( اربعین حصہ ۴ ص 25 ۔ روحانی خزائن ج17 ص 461 )
یاد رہے کہ مرزا قادیانی نے بے شمار پیش گویاں کیں مگر اللہ پاک کی قدرت کہ شاید ہی کوی پیش گوی ہو جو کہ درست نکلی ہو وہ بھی کھینچ تان کے ورنہ مرزا قادیانی کی تمام پیش گویاں جھوٹی نکلیں۔ جن کا احوال مرزا قادیانی کی اپنی کتابوں میں موجود ہے۔

مرزا صاحب اور قرآن و حدیث
قطعی نبی بننے اور صاحب وحی و الہام ہونے کے دعوےٰ کے بعد مرزا صاحب نے اپنی توجہ قرآن و حدیث کی طرف بڑھائی تاکہ ان میں اپنے مقصد کے حصول کے لیے ضروری ردوبدل کیا جاسکے بقول ان کے “خدا نے مجھے مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے اور مجھے بتلایا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی اور قرآن کے صحیح معنوں سے مجھے اطلاع بخشی ہے” (اربعین نمبر 4)|1| اور “ جو شخص حکم ہوکر آیا ہے اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کردے”۔ (تحفہ گولڑویہ)|2|
قرآن و حدیث کے مطالب بدل ڈالنے کے اس خود ساختہ اختیار کو مرزا صاحب نے مسلمانوں سے ہع مسئلہ پر اختلاف کھڑا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ وہ نہ صرف امت محمدیہ کے مذہبی عقائد اور دینی نظریات ہی سے الگ ہوئے بلکہ اس کی اکثر و بیشتر قومی اقدار اور ملی تقاضوں سے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔
اگر وہ تمام مسائل یہاں بیان کیے جائیں جن میں مرزا صاحب نے امت مسلمہ سے اختلاف کیا تو اس کے لیے کئی جلدیں درکار ہوں گی ان میں سے مختصراً صرف چند ایک بطور نمونہ درج کیے جاتے ہیں۔


نزول ملائکہ
مرزا صاحب نے فرشتوں کو ارواح کواکب قرار دیا ہے ایام الصلح میں تحقیق فرمایا کہ فرشتے اگر زمین پر نازل ہوں تو آسمان سے ستارے گر جائیں۔
روحِ انسانی
بروئے قرآن روح عالم امر سے ہے اور عالم امر ان موجودات کا نام ہے جو حِس اور خیال اور جہت اور مکان سے ماوریٰ ہیں لیکن مرزا صاحب نے اپنی تقریر جلسہ مذاہب لاہور مورخہ 27 دسمبر ؁1896 میں انسانی روح کے متعلق تحریر کیا۔

“ ہم روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ گندے زخموں میں ہزارہا کیڑت پڑ جاتے ہیں سو یہی بات صحیح ہے کہ روح ایک لطیف نور ہے جو اس جرم کے اندر ہی پیدا ہوجاتا ہے جو رحم میں پرورش پاتا ہے اور جس کا خمیر ابتداء سے نطفہ میں موجود ہوتا ہے”
3۔یوم الدین کے متعلق کہا:۔
وَسَمّٰی زَمَانَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ یَوْمَ الدِّیْنَ لِاَ نَّہُ یُحْیٰ فِیْہِ الدِّیْنُ۔ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے زمانہ کا نام یوم الدین رکھا کیونکہ اس زمانے میں دین کو زندہ کیا جائے گا۔
حالانکہ قرآن حکیم میں جابجا یوم الدین کے معی روز قیامت کے لیے گئے ہیں۔
جہاد بالسیف
مرزا صاحب نے اس زمانہ میں جبکہ عیسائی حکومتیں خصوصاً انگلستان فرانس اور روس اسلامی سلطنتوں کو تہہ وبالا کر رہی تھیں، جہاد بالسیف کو تمام مسلمانوں پر حرام قرار دیا اور اہل اسلام احادیث کے حوالہ سے جس مہدی اور مسیح کے منتظر تھے انہیں خونی مہدی اور خونی مسیح کہا(تبلیغ رسالت جلد نہم)

5۔معراج جسمانی
مرزا غلام احمد ازالہ اوہام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج جسمانی کے متعلق لکھتے ہیں کہ معراج(معاذاللہ) اس جسم کثیف سے نہ تھی بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کا کشف تھا اور اس قسم کے کشفوں میں مؤلف (یعنی مرزا صاحب) خود صاحب تجربہ ہے۔
6۔احترام انبیاء
عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں کئی طرح کے نازیبا الفاظ استعمال کیے اور مسلمانوں سے کہا کہ میں عیسائی مناظرین کے مقابلے میں ان کے یسوع مسیح کے متعلق بات کر رہا ہوں جو ایک معبود باطل اور فرضی شخصیت ہے لیکن جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نبی کے متعلق بات کرتے تو بھی انداز گفتگو کچھ زیادہ مختلف نہ ہوتا۔ (دافع البلاء مؤلفہ مرزا صاحب)
7۔ آل نبی کا حترام
مرزا صاحب نے اپنی تصنیفات اور اشتہارات مین جابجا اپنے آپ کو آل نبی، وارث رسول اللہ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس سعی میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صُلبی اور خونی رشتہ کو مقابلۃً کم مرتبہ و کم پائیہ دکھانا چاہا۔
8۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے متعلق قادیانیوں کی زبان درازی

مرزا صاحب کے اپنے ارشادات دربارۃ آئمہ اہل بیت اور صحابہ کرام اس قدر ثقیل ہین کہ انہیں مصلحتاً یہاں درج نہیں کیا جاتا۔
تمام امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کفر کا فتویٰ
مرزا صاحب کے بتدریج ارتقائے نبوت کی داستان مختصراً اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ احادیث مقدسہ کے مطابق مسیح موعود کے ظہور کے بعد تمام دنیا کے انسانوں نے اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنا تھا جن میں عیسائی یہودی اور تمام دیگر عقائد رکھنے والے انسان بھی شامل ہوں گے۔ مگر مرزا صاحب نے جب دیکھا کہ ان کی دعوت پر لبیک کہنے کی تعداد بہت کم ہے تو انہوں نے اپنے تمام نہ ماننے والوں کو کافر قرار دے دی۔ فرمایا۔
“خدا تعالٰی نے میرے اوپر ظاہر کیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے” (ارشاد مرزا صاحب مندرجہ رسالۃ الذکر الحکیم نمبر 4)
قادیانیت کے پس پردہ کار فرما قوتیں
یہ اندازہ لگانا کہ مرزا صاحب کی اس تحریک کے پس پردہ وہ کون سی اسلام دشمن قوتیں کارفرما تھیں مشکل نہیں ہے ؁1857 کی جبگ آزادی کے بعد انگریز حکومت ہندوستانی مسلمانوں سے بدظن ہو چکی تھی مگر مرزا صاحب اور ان کی جماعت پر ان کی خاص نظر عنائت تھی۔ مرزا صاحب نے دیگر مسلمان زعماء اور علماء کے خلاف قِسم قِسم کی درخواستیں اور محضر نامے حکومت کو ارسال کیے جن سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ حکومت برطانیہ کے خاص حاشیہ بردار تھے۔
اور جب دیکھا کہ آزادی ملک اور حصول اقتدار کی دوڑ میں ہندو مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار ہیں تو اپنی جماعت کے حق میں ہندؤوں کو ہموار کرنے کے لیےان کی پستکون اور رشی مُنیوں کی تعریف میں لکھنا اور لیکچر دینا شروع کردیا۔ اور اپنی کتاب شہادت القرآن میں حکومت برطانیہ کی اطاعت کو نصفُ الاسلام قرار دیا۔

مرزا صاحب کے دعاوی کا امت مسلمہ پر ردعمل
مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ وہ ایک ازلی ابدی عالمگیر ملت بیضا کا رکن ہے جس مین بے شمار انبیاء کرام مبعوث ہوئے اور جناب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ ان کے دین میں چار چیزیں حجت ہیں۔ 1 کتاب اللہ 2 حدیث نبوی 3 اجتہاد سلف اور 4 اجماع امت جو ان چاروں کے میزان پر حق ثابت ہو ان کے لیے وہی حق ہے اور جو باطل ہو وہ باطل۔ مرزا صاحب کی نبوت اس میزان پر حق ثابت نہیں ہوتی تھی اس لیے اسے ماننا مسلمان کے لیے ممکن نہ تھا۔
مسلمان کو یہ بھی معلوم تھا کی نبوت ایک بہت ہی ارفع و اعلٰی چیز ہے۔ اور محض چند پیش گوئیوں کی صداقت میزان ایمان نہیں ہوسکتی۔ نبوت کا دعوےٰ کر دینا آسان ہے مگر اس کے معیار پر پورا اترنا آسان نہیں خصوصاً جب دعوےٰ اس فخر انبیاء کے بروز ہونے کا ہو جس کی تعریف میں خدا خود رطب اللسان ہےاور جس کے زُہد و اتّقا ایثار و سخا و مجاہدات اہل خانہ اور عوام الناس کے ساتھ حسن سلوک اور زندگی کے دیگر حسیں پہلووں کا بیان 14 سو سال سے مکمل نہیں ہوسکا۔ اس ذات عالی کے ساتھ مرزا صاحب کی زندگی کا موازنہ کرنا ہی گستاخی ہے۔
اس کے برعکس مرزا صاحب کا فرمان تھا کہ وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے اور وہ خود خدا کے رسول اور نبی ہیں۔ کتاب اللہ کے وہی معنی درست ہیں جنہیں وہ درست کہیں حدیث نبوی کے جس حصہ کو وہ چاہین لے لیں اور جس حصہ کو وہ چاہیں رد کردیں۔ اجتہاد سلف و خلف ختم ہے کیونکہ نبی (یعنی وہ خود) آگئے ہیں اور اجماع کے نام بھی کوئی چیز نہیں رہی کیونکہ خدا تعالٰی ان سے کلام فرماتا ہے۔ اور انہیں اپنی کتاب کے صحیح مفہوم اور حدیث کے صحیح اور بناوٹی ہونے پر مطلع کرتا ہے۔ اس حقیقت کے وہ خود شاہد ہیں۔ اور جو شخص ان کی شہادت پر ایمان نہیں رکھتا اور ان سے بیعت نہیں کرتا وہ خارج از اسلام ہے۔
مرزا صاحب کے ان فرمانوں کو مان لینے کا نتیجہ یہ ہوتا کہ امت خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا ایمان اپنی ہستی اور اپنا وجود بالکل ختم ہوجاتا۔ اس کے علوم و قوانین مقدس اقدار تاریخی شخصیتیں ثقافت اور اس کا نظام و معاشرہ سب مٹ جاتے۔ اس کی عقیدت اور فکر کا مرکز یکسر بدل جاتا جناب ختمی مرتبت تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و قیادت کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ جاتی۔ قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تاویل فقہ اور اجماع کا استدلال اور استنباط اس نہج پر چل نکلتے جو اسلامی روایات اور درایت اور امت کے احساس عمومی کے خلاف ہی نہیں بلکہ انسانیت کے احساس عمومی کے بھی برعکس ہوتا۔ نہ صرف یہ بلکہ امت اسلامیہ اس تحریک قادیانیت کی محسن برطانوی حکومت کے سمندناز کی نخچرین بن کے رہ جاتی۔
مرزا صاحب کا دعویٰ اس نوعیت کا تھا کہ اس کا ساری امت مسلمہ پر ایک شدید ردعمل ہونا لازمی تھا۔ تمام علمائے اسلام اور اہل دانش اس کی مخالفت مین متفق ہوگئے اور قادیانیت کے مقابلہ میں یکجان ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے اپنی تصانیف اور مواعظ کے ذریعے عامۃ المسلمین کو اس قدر باخبر کردیا کہ قادیانیت کی تبلیغ اس ملک مین بالکل بے اثر ہوکر رہ گئی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مرزا صاحب کو سرکار برطانیہ کی حفاظت اور سر پرستی حاصل نہ ہوتی تو ان کا حشر بھی وہی ہوتا جو ان سے قبل آنے والے ایسے مدعیان کا ہوا تھا۔ اس سلسلہ میں سید عطاءاللہ شاہ بخاری اور ان کی جماعت احرار، مولوی ثناءاللہ صاحب امرتسری، مولوی ظفر علی خان مدیر اخبار زمیندار، جناب علامہ اقبال اور حضرت قبلہ عالم کے مخلصین مولوی محرم علی چشتی مدیر اخبار رفیق ہند لاہور اور قاضی سراج الدین مدیر اخبار چوھدویں صدی راولپنڈی نے خاص طور پر قابل ذکر کام کیا خود ٖقبلہ عالم رحمتہ اللہ علیہ گولڑوی کی ذات پاک سے قدرت نے بہت عظیم کام لیا۔

مزید پڑھیں

 
آخری تدوین :

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ماشااللہ بہت عمدہ کاوش ہے بھائی ۔
بھائی پوسٹ میں لکھی ہوئی عربی پر عربی فونٹ لگائیں تاکہ عربی واضح ہو جائے جزاک اللہُ خیرا
 

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جی شکریہ ۔ اس میں کچھ تدوین اور بھی کرنے کی ضرورت ہے وہ میں کردوں گا۔ انشاءاللہ۔
توجہ دلانے کے لیے شکریہ
 
Top