(چودہ سو سال میں کسی نے یہ معنی نہیں کئے)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: مرزا صاحب! بات یہ ہے کہ لفظ کے لغوی معنے پر اگر ہم جائیں تو پھر بہت سے ایسے الفاظ ملیں گے جو آج کسی معنی میں مستعمل نہیں، کئی جگہ استعمال 1447ہوتے ہیں۔ اب ’’حدیث‘‘ جب ہم کہیں گے اِصطلاحی معنوں میں تو کوئی اور چیز ہوگی، آج کل کے بول چال کی زبان میں کچھ اور ہوگی۔ یہ سوال نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے اُصول جو بتایا ہے، وہ اپنی جگہ صحیح ہے۔ لیکن اس تیرہ، چودہ سو سال میں کسی اور مفسر نے، کسی بڑے عربی دان نے یہ معنے ’’آخرۃ‘‘ کے یہاں لئے ہیں، جن کو لوگ تسلیم کرتے ہیں؟ یا یہ کہ ہمارے اَئمہ مفسرین اور جو علمائے کرام گزرے ہیں یا یہ کہ یہ بالکل ایک نئی چیز ہے؟ اور نئی چیز بھی ایسی جس میں اُمت کے لئے یعنی اُمت کے اندر ایک اتنا بڑا اِفتراق پیدا ہوتا ہے کہ دو اُمتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ کوئی فرقے کا اِختلاف نہیں بنتا، بلکہ دو الگ الگ اُمتیں بن جاتی ہیں نبوّت کا دروازہ کھلنے سے اور اس سے وہ جب نبی آتا ہے تو اُمت اس کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ تو یہ وہ بنیاد ہے کہ جہاں سے مسلمانوں کی اُمت الگ ہوجاتی ہے اور مرزا صاحب کی اُمت الگ ہوجاتی ہے۔ تو اتنی بڑی بنیادی بات ہے۔ اس کی سند میں قدیم مفسرین میں آپ کچھ لوگوں کو اگر بتائیں تو پھر اسے دیکھا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ ’’قرآن میں اِختلاف کا دروازہ‘‘ کیا معنی۔۔۔؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جائے کہ کس حد تک اس پر اِعتبار کیا جاسکتا ہے؟ محض لفظ ’’آخرۃ‘‘ کا کسی اور معنیٰ میں استعمال ہونا تو آپ تو مجھ سے بہت بہتر جانتے ہیں کہ عربی میں ایک ایک لفظ ہے جو پچاس پچاس معنوں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ کہ وہ محل اور موقع کے اِعتبار سے ہوتا ہے۔ اس کے۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: Let this be answered, then you can put the next question. The question is: whether this interpretation has been put previously in 1300 years? If so, by whom? Or this interpretation has been put for the first time? This is your question.
(جناب چیئرمین: اس کا جواب آنے دیں، پھر آپ اگلا سوال کریں۔ سوال یہ ہے کہ: آیا یہ معنی گزشتہ تیرہ سو سال میں پہلے بھی کبھی کئے گئے؟ اگر ایسا ہے تو کتنوں نے یہ معنی کئے؟)
مرزا ناصر احمد: اگر آپ کے اس بیان کا یہ مفہوم ہے کہ مفسرین جو پہلے گزچکے ان کے علاوہ قرآن کریم کی کوئی تفسیر نہیں ہوسکتی تو ہم یہ عقیدہ نہیں رکھتے۔ نمبرایک۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: It solves the problem, it solves the problem. Let ...... You can explain, the witness can explain further.
(جناب چیئرمین: اس سے تو مسئلہ ہی حل ہوگیا، گواہ مزید وضاحت کرے)
1448مرزا ناصر احمد: دُوسرے یہ کہ اگر ہمیں وقت دیا جائے تو پہلے مفسرین کی تفسیروں میں سے ہم یہ اسی معنٰی کے جو ہم نے کئے ہیں، اس کی مثال ہم پیش کردیں گے۔
Mr. Chairman: Yes, the witness will be allowed to produce it.
Yes, Next question.
(جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، گواہ کو پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اگلا سوال)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اسی کے متعلق یہ ذرا سا عرض کرنا ہے کہ چودہ سو سال میں اگر عام طور پر اَسلاف نے، ہمارے بزرگوں نے، مفسرین نے یہ معنے نہیں کئے اور یہ معنے کوئی چھوٹے موٹے فرق پیدا نہیں کرتے، جو میں عرض کر رہا ہوں، بنیادی چیز یہ ہے اور یعنی اس طرح کی اگر کوئی معمولی بات ہوتی تو شاید اتنی اہم نہ ہوتی کہ کوئی نکتہ نکال لیا۔ فرق ایسا پیدا ہوتا ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے لوگ دو ٹکڑوں میں منقسم ہوجاتے ہیں۔ یا یہ کافر ہوجاتے ہیں، یا وہ کافر ہوجاتے ہیں۔ بڑا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔
Mr. Chiarman: That is argument.
(جناب چیئرمین: یہ تو بحث کی بات ہے)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: نہیں، میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں مفسرین کی ایک اچھی تعداد جن پر اُمت اِعتماد کرتی آئی ہے۔۔۔۔۔۔
Mr Chairman: That is, that is, Ansari Sahib, a question of argument, because it is admitted that they have put his interpretation. So, to support it, they will produce some authority.
Nex question.
(جناب چیئرمین: انصاری صاحب! یہ تو بحث (دلیل) والی بات ہے، کیونکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یہ مفہوم اور تعبیر کا مسئلہ ہے (اپنی تعبیر) کی تائید میں وہ (مرزا صاحب) ثبوت کریں گے۔ اگلا سوال)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ٹھیک ہے، جناب!
مرزا ناصر احمد: جو نئے معنی کی Support (تائید) کا تو حوالہ ہمارے پاس ہے ’’الفوزالکبیر‘‘ 1449کا یہاں بھی موجود:
’’مگر فقید ۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کہ متقدمین نے کلام اللہ کے خواص میں دو طرح پر کلام کیا ہے۔ ایک تو دُعا کے مشابہ اور سحر کے مشابہ۔ استغفراللہ من ذالک۔ مگر فقید پر خواص منقول کے علاوہ ایک جدید دروازہ کھولا گیا ہے۔ حضرت حق جل شانہ‘ نے ایک مرتبہ اسمائے حسنیٰ اور آیاتِ عظمیٰ اور ادعیہ متبرکہ کو میری گود میں رکھ کر فرمایا کہ تصرفِ عام کے لئے… تصرفِ عام کے لئے… یہ ہمارا عطیہ ہے۔‘‘
تو جہاں تک نئے معانی کا تعلق ہے، ہزاروں حوالے ہم دے سکتے ہیں اور جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے، اس آیت میں تو نبوّت کا کوئی ذِکر نہیں ہے۔ اس آیت کے جو معنٰی اور تفسیر آپ نے یہ پڑھی، اس میں کسی نبوّت کے دروازے کے کھلنے کا اس آیت میں ذِکر نہیں کیا گیا۔ باقی رہا وحی واِلہام اور مخاطبہ ومکالمہ، تو آپ کہتے ہیں کہ اُمت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مکالمہ ومخاطبہ اِلٰہیہ کا دروازہ بند ہوگیا اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ … آپ سے مختلف … کہ اُمتِ مسلمہ کے صلحاء کی اکثریت کا یہ عقیدہ ہے شروع سے آخر تک کہ نبی اکرمﷺ کے فیضان کے نتیجہ میں مکالمہ ومخاطبہ اِلٰہیہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا اور یہی یہ فرقان اور اِمتیاز ہے جو اُمتِ مسلمہ کو دیگر اُمم سے ہے، دُوسرے انبیاء کی اُمتوں سے، یہ میں نے اپنا عقیدہ بتادیا ہے۔
Mr. Chairman: Next question.
(جناب چیئرمین: اگلا سوال)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: نہیں، یہ ذرا ایک بات آپ نے فرمائی ہے۔ جہاں تک ان الفاظ کا تعلق ہے، شاید کوئی اِختلاف نہیں ہے۔ اِختلاف وہاں ہوتا ہے کہ جہاں لفظ ’’وحی‘‘ اِستعمال کرتے ہیں ہم۔ یعنی بہت سے بزرگوں کے ساتھ مخاطبہ ومکالمہ، صوفیا کے ساتھ، وہ ایک الگ بات ہے۔ بات اِختلاف کی ہوتی ہے ’’وحی‘‘ کے لفظ سے، اور ’’وحی‘‘ اب اسلامی شریعت کی اِصطلاح ہے، اِصطلاحی معنی بن گیا ہے۔ تو انگریزی میں بھی اگر آپ ڈکشنریز میں دیکھیں تو 1450’’وحی‘‘ کے ایک اِصطلاحی معنٰی ملیں گے کہ: ’’وہ کلام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو اپنے بندوں پر۔‘‘ تو گفتگو وہاں ہے۔ یہاں یہ دروازہ جو کھلا ہے، وہ یہ کہ جو کچھ بعد میں آنے والا ہے پیغام، یعنی پیغامِ اِلٰہی، اس پر اِیمان لانا ہے۔ اب دُوسروں، مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی ایسا پیغام نہیں آنا ہے کہ جو مسلمانوں کے لئے واجب الاطاعت ہو جبراً۔ اگر کسی بزرگ پر کوئی اِلہام ہوتا ہے، تو وہ ہوتا ہے ان کے لئے، لیکن اُمتِ مسلمہ پابند نہیں ہے کہ وہ اس کو لازماً مانے۔ بس یہ فرق ہے۔
مرزا ناصر احمد: اور اگر کسی پر۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: نہ، نہ،۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اِلہام ہو نازل کہ ’’قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑو‘‘ تو آپ کے نزدیک یہ واجب العمل نہیں ہوگا اُمت پر؟
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اُس کے کہنے کی وجہ سے نہیں ہوگا۔
Mr. Chairman: No, I don't want to enter in this. The qeustion was that the Ayat was read out, the translation was read out and the answer has come. Next question, yes. This sort of debat will not be allowed. Yes, next.
(جناب چیئرمین: میں اس بات میں نہیں آنا چاہتا۔ سوال یہ تھا کہ آیت پڑھی گئی، ترجمہ پڑھا گیا اور جواب آچکا ہے۔ اگلا سوال کریں۔ اس قسم کی بحث کی اجازت نہیں دی جاسکتی)
(Pause)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ایک چیز ہے، وہ اصل میں جناب! وقت کی تنگی کا قصہ ہے۔
جناب چیئرمین: نہیں، آپ پوچھیں آپ، بالکل۔ وقت کی تنگی ہم ریگولیٹ کرلیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں ایک ایسا سوال آپ سے وضاحت کے لئے پوچھنا چاہتا ہوں جس میں ۔۔۔۔۔۔ یہ تو بے شمار آیتیں ہیں قرآن کی جن کے متعلق مرزا صاحب نے کہا ہے کہ یہ میرے اُوپر نازل ہوئیں، وہ میں چند ایک پیش کردُوں ا، یعنی رسول اللہﷺپر نہیں، ان پر 1451نازل ہوئی ہیں۔ لیکن بعض کے معنٰی اس طرح کئے گئے ہیں کہ اس میں نبی کریمﷺ کی سخت ترین توہین ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: The first question would be .......
(جناب چیئرمین: پہلا سوال یہ ہوگا)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جی؟
Mr. Chairman: ...... first question would be: whether it was said by Mirza Ghulam Ahmad that certain Ayaat were revealed on him? This would be the first question. Then we will go into the second.