• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(ڈاکٹر ایس محمود عباسی بخاری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ڈاکٹر ایس محمود عباسی بخاری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

ڈاکٹر ایس محمود عباسی بخاری: تومیں عرض یہ کر رہا تھا کہ تیشہ چلانے والوں نے، کلہاڑی چلانے والوں نے جس چیز پر کلہاڑی چلائی، جس چیز پر اپنی منافقت کاتیشہ چلایا۔ وہ بذات خود نخل رسول ﷺ تھا۔ جس کے بارے میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے:’’اے میرے محبوب! اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو یہ کائنات پیدا نہ کرتا۔‘‘ جس دریدہ دہنی سے اور جس ڈھٹائی سے ناموس رسالت ﷺ پر حملے کئے گئے ہیں۔ میڈم سپیکر! میں تھوڑی سی 2723اجمالاً اس پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ مجھے افسوس ہے شاید میرا نقطہ نظر غلط ہو۔ جس پہلو سے آئمہ قرآنی اور معرفت ربانی میں جس پہلو سے اس کو نمایاں کرنا چاہئے تھا، شاید ابھی تک اسمبلی کی بحث میں مقام رسالت ﷺ کو اور ناموس رسالت ﷺ کو نمایاں نہیں کیاگیا۔ جب تک یہ بتایا نہ جائے کہ مقام ختم المرسلین ﷺ کیا ہے۔ مقام نبوت کیا ہے۔ مقام رسالت کیا ہے۔ جناب سپیکر! یہ ناممکن ہے کہ تعین کیا جا سکے کہ جھوٹا نبی کیا ہے اور اس کا مقام کیا ہے؟
مولانا غلام غوث ہزاروی: پوائنٹ آف آرڈر۔ جناب والا! یہ محترم عباسی صاحب بڑی اچھی تقریر فرما رہے ہیں۔ لیکن اس ایک جملے میں انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ’’ اے پیغمبر! تم کو میں پیدا نہ کرتا تو میں یہ ساری کائنات پیدا نہ کرتا۔‘‘ یہ قرآن میں نہیں۔ ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ روایت میں بھی ضعف ہے۔ لیکن مفہوم صحیح ہے۔ قرآن میں نہیں ہے۔ یہ میں نے اس لئے عرض کر دی کہ کوئی اعتراض نہ کرے۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری:
قلندرجز دو حرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گوہر سے
جناب سپیکر! میں آگے بڑھتا ہوں۔ اس پوائنٹ آف آرڈر کی دلدل سے نکل کر۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: لیکن انہوں نے تو آپ کی تصحیح کی ہے۔ وہ تو آپ مان لیں ناں۔
ڈاکٹر ایس محمود عباسی بخاری: اچھا جی، میں آگے بڑھتاہوں۔ تو بات مقام رسالت ﷺ کی میں کر رہا تھا۔ میرا یہ مقام نہیں کہ میں مقام رسالت ﷺ کا تعیّن کروں۔ نہ میرے پاس اتنا علم ہے۔
نہ میں عارف، نہ مجدد، نہ محدث، نہ فقیہ ہوں
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کامقام
2724لیکن اپنی ادنیٰ سمجھ سے جو آیات قرآنی کے آئینے میں جناب سپیکر! میں نے مقام رسالت ﷺ دیکھا ہے۔ میں اس ایوان میں وہ پیش کروں گا۔ ضمناً یہ عرض کردوں کہ انگریز کا یہ خود کاشتہ پودا مسلمانوں کی میراث پر ضرب کاری لگانا چاہتا تھا، دو جہت سے۔ ایک جہت تھی جہاد، جسے قرآن میں قتال کا نام دیاگیا ہے اور جس سے انگریز بہادر ہمیشہ خائف رہا اور دوسری جہت تھی حب رسول ﷺ ۔ انگریز جانتا تھا کہ حب رسول ﷺ ایک ایسا پیمانہ ہے، ایک ایسا مرکز ہے، ایک ایسا مرکز ثقل ہے کہ اگر یہ مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے تو مسلمان ہمیشہ ایک مضبوط اور قائم امت کی صورت میں اس صفحہ ہستی پر برقرار رہیں گے۔ اس نے چاہا کہ اپنی اس مملکت کی حفاظت کے لئے جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ مشرق سے مغرب تک تھی۔ انگریز کا یہ ارادہ ہوا۔ اس نے یہ پالیسی بنائی اور اس وقت کی جو Condition (صورت حال) تھی، جو حالات تھے۔ اس وقت جو سیاسی حالات تھے۔ ان کے مطابق انگریز نے اپنی سوچ میں صحیح سوچا۔
اس کے علاوہ جناب سپیکر! ایک اور بات آئی۔ مہدی سوڈانی، حضور مقبول ﷺ کا نام لے کر اٹھے اور انہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کیا۔ اسی صدی میں چودھویں صدی کے آخر میں انگریز کو خدشہ لاحق ہو گیا کہ سواد اعظم کا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی موعود آئیں گے۔ لہٰذا شاید اصلی مہدی بھی آ جائے۔ اس نے پیش گوئی کے طور پر اپنا ایک نقلی مہدی تیار کیا۔ جیسا کہ میں ابھی اپنی بحث سے ثابت کروں گا کہ یہ مہدی کیونکر نقلی تھا۔ جس طریقے سے شان رسالت مآب ﷺ پر ان لوگوں نے حملے کئے ہیں۔ وہ ناقابل برداشت ہیں۔ کوئی بھی مسلمان جس میں حمیّت ہے۔ جس میں غیرت ہے۔ جس میں اخلاص کے ایک لہو کا ایک بھی جائز قطرہ باقی ہے۔ وہ ان کے اس لاف و گزاف کو برداشت نہیں کر سکتا۔
2725خیال زاغ کو بلبل سے برتری کا ہے
غلام زادے کو دعویٰ پیغمبری کا ہے
بت کریں آرزو خدائی کی
شان ہے تیری کبریائی کی
ان جعلی نبیوں نے کیا فرمایا ہے؟ اور یہ فرمانے سے پہلے یہ اپنے مقام کو بھی جانتے تھے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ ہمارا سیاق و سباق کیا ہے۔ لہٰذا فلسفہ یہ تراشا گیا کہ شان رسالت کو گھٹایا جائے تاکہ جعلی نبوت کی شان جو ہے وہ بڑھ جائے۔ حتیٰ کہ یہ برابر آ جائے،معجزات سے ارتقاء کریں۔ شان عیسیٰ علیہ السلام کو کم کیا گیا۔ یہاں تک کہ افتراء پردازوں نے ان پر افتراء پردازی کی۔ نعوذ باﷲ زبان اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ان کی نانیاں اور دادیاں ایسی تھیں اور ایسا بھی یہ کیوں کیاگیا؟ جناب عیسیٰ علیہ السلام کو کیوں مجہول النسب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی؟
جناب سپیکر!قرآن کریم اﷲ کا ایک قانون ہے جو یونیورسل لاء ہے۔ جو کہ آفاقی اور ابدی قانون ہے۔ ازلی قانون ہے۔ جس کو کبھی موت نہیں آسکتی۔ وہ قانون ہے کہ نبی کبھی مجہول النسب نہیں ہوتا۔ نبی کا جو سلسلہ نسب ہے وہ ہمیشہ واضح ہوتا ہے اور دنیا میں جو بھی نسلیں انسان کی بستی ہیں۔ نبی ان میں ارفع ترین خون، ارفع ترین روایت، پاکیزہ ترین خون، پاکیزہ ترین خاندان کا فرد ہوتا ہے تو اسے یہ انعام ملتا ہے۔ اسے اس قابل سمجھا جاتا ہے۔ سلسلہ نسب کی بلندی۔ جناب سپیکر! یہ بھی دلیل ہے اور یہ بھی ایک انعام ہے۔ مجہول النسب لوگوں پر یہ انعام آہی نہیں سکتا۔
جیسا کہ میں ابھی قرآن کریم کی آیت سے ثابت کروں گا۔ ان لوگوں نے اپنے جعلی نبی کو سہارا دینے کے لئے تیشہ چلایا۔ وہ نسب پرچلا۔ اس لئے کہ ان کے پاس اپنا نسب نہیں تھا۔ دیکھئے براہین احمدیہ (کتاب البریہ حاشیہ ص۱۴۵، خزائن ج۱۳ص۱۶۳، اربعین نمبر۲ ص۱۷، خزائن ج۱۷ ص۳۶۵)میں لکھتے ہیں:’’مجھے الہام ہوا ہے کہ میں پارسی النسب ہوں۔‘‘ یعنی ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ پارسی النسب ہیں یا نہیں؟ حتیٰ کہ پارسی سے اپنے 2726خون کا رشتہ جوڑنے کے لئے انہوں نے الہام کا سہارا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مینگول نسل تھی۔ یہ تاتار کی نسل تھی۔ یہ صحرائے گوبی کے لوٹ مار کرنے والوں کی نسل تھی۔ یہ آوارہ ترکوں کی نسل تھی۔ یہ بالکل نہ پارسی النسب تھے، نہ یہ عربی النسل تھے۔ یہ جانتے تھے کہ میں خاندان سادات میں سے نہیں ہوں۔ میں خون بنو فاطمہ نہیںہوں۔ اس لئے انہوں نے بڑے الہامات کا سہارا لیا۔
اب ذرا ان کے خرافات سنئے جن پر میں اپنی تمام بحث کا دارومدار کر رہا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود کا ذہنی ارتقاء آنحضرت ﷺ سے زیادہ تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں بہت ترقی ہوئی اور یہ جزوی فضیلت ہے جو حضرت مسیح موعود کو آنحضرت ﷺ پر تھی۔‘‘ اس کے بعد فرماتے ہیں ’’یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ حضور پاک ﷺ سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔‘‘ یہ ہے (ڈائری خلیفہ قادیان، الفضل ۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ئ) اور اس کے بعد فرماتے ہیں ’’ظلی نبوت کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا۔ بلکہ آگے بڑھایا کہ نبی کریم ﷺ کے پہلو بہ پہلو کھڑا کیا۔‘‘ بلکہ بعض حسنات میں اور بھی آگے بڑھادیا۔
(کلمۃ الفصل ص۱۱۳، مصنف بشیر احمد ایم۔اے)
جناب سپیکر! میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ بروزی نبی کیا ہے اور ظلی نبی کیا ہے اور اس کا سایہ کیا چیز ہے؟ میں تو ایک بات بتانا چاہتاہوں۔ انہوں نے اپنی نبوت کا دارومدار تمام تر اس بات پر رکھا کہ ہر انسان، ہر خاطی او ر ہر ناقص اور ہر مجہول العقل انسان جب چاہے، جس وقت چاہے، اپنے زہد، اپنے علم، جو کہ بڑا محدود ہے، اس کی بناء پر ترقی کر سکتا ہے۔ترقی کرتا کرتا مجدد بن سکتاہے۔ محدث بن سکتا ہے۔ مولوی تو خیر ہر کوئی بن سکتا ہے۔ وہ محدث جو حدیث نہیں بلکہ کلمات الٰہیہ سے سرفراز ہوتا ہے، وہ بھی بن سکتا ہے۔ قطب بن سکتا ہے، غوث بن سکتا ہے، ابدال بن سکتا ہے۔ یہ خود ان کی اپنی 2727کوشش تھی۔ ٹھیک۔
جناب! اس کے بعد فرماتے ہیں’’بڑھتے بڑھتے ترقی کرتے کرتے وہ انبیاء علیہم السلام میں قدم بھی رکھ سکتا ہے۔مسیح موعود بھی بن سکتا ہے اور اس کے بعد آگے بڑھ کر وہ انبیاء سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ شان رسالت ﷺ خاتم النّبیین سے دوچار، دس قدم بہت آگے جا سکتا ہے۔ حضور والا! قرآن کی رو سے یہ ایک فاتر العقل انسان کا عقیدہ ہے۔ قرآن اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لئے قرآن کریم میں ایک آیت ہے جس کا میں ترجمہ کروں گا اور مولانا ہزاروی صاحب مجھے معافی دیں گے اگر کہیں میں لغزش کر جاؤں۔ میں مفہوم بتاتا ہوں کہ ہم نے میثاق ازل لیا انبیاء کی ارواح سے اور اے پیغمبر ﷺ ! ہم نے آپ ﷺ کو ان پر شاہد مقرر کیا، ان پر گواہ مقرر کیا۔ اس کے لئے جو قرآن میں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ وہ میثاق غیظ ہے۔ ہم نے بڑا زبردست عہد لیا۔
حضور مرزا صاحب! آپ کی روح پر فتن سے پوری معافی مانگتے ہوئے یہ کہوں گا کہ آپ اس میثاق میں شریک تھے۔ کیا خداوند کریم کے عہد ایسے ہوتے ہیں کہ مجہول ہو جاتا ہے؟ وعدہ لیا خداوند کریم نے وعدہ لینے والا۔ جناب اسپیکر! خداوند کریم کو وعدہ دینے والی ارواح مقدسہ سے پیمان ازل ہوا جب مخلوقات کی بھی پیدائش نہ ہوئی۔ ابھی آدم آب و طین کی کیفیت میں ہے۔ مٹی اور پانی کی کیفیت میں ہے۔ اس وقت وعدہ لیا جا رہا ہے ۔ کون لے رہا ہے قسام ازل، معیشت کو پیدا کرنے والا پروردگار، سبوح و قدوس، خدائے حمید و لایزال، معیشت کو پیدا کرنے والا، وہ دینے والا، روحیں گواہ حضور رسالت مآب ﷺ ۔ یہ مجہول کہاں سے ٹپک پڑے؟ کہ جن کو چالیس ، پینتالیس اور پچاس برس تک یہ بھی خبر نہیں کہ ان کا مقام کیا ہے۔ یہ مقام انسانیت میں بھی ہیں یا نہیں۔ ان کو یہ بھی خبر نہیں تھی۔ کہاں تھے یہ میثاق کے وقت یا کہہ دیجئے کہ قرآن غلط؟ کہہ دیجئے یہ لوگ مفتری۔ ہم آگے بڑھتے ہیں کہ انبیاء کے تعیّن میں اور انبیاء کی بعثت میں اﷲ کریم کا طریقہ کیا ہے اور بالکل یہ بھی قرآن کا فرمان ہے کہ اﷲ کریم اپنی سنت کو تبدیل نہیں 2728کرتا۔ جناب سپیکر! اﷲ کریم کی سنت میں تغیر وتبدل نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس لئے ’’ ان اﷲ لا یخلف المیعاد ‘‘ اﷲاپنے وعدوں کی بھی مخالفت نہیں کرتا۔ خلاف وعدہ کبھی نہیں کرتے۔ آئیے! ہم کتاب ربانی اور اس کے آئینہ کمالات میں اسی کا جائزہ لیں۔ سورئہ مریم میں ہم دیکھیں کیسے پیغمبر آتے ہیں۔ پیغمبروں کا ذہن کیا ہوتا ہے۔ پیغمبروں کی نفسیات کیا ہوتی ہے۔ پیغمبر دعا کیسے مانگتے ہیں۔ پیغمبروں کے وعدے کیسے ہوتے ہیں۔ پیغمبر مبعوث کیسے ہوتے ہیں۔ کیوں نہیں ہم قرآن کو دیکھتے ہیں۔ کتاب موجود ہے۔ سنئے سورئہ مریم۔ میں صرف ترجمہ پڑھوں گا۔ ’’جناب زکریا نے دعا مانگی کہ پروردگار! مجھے اپنے پاس سے وارث دے جو میرا بھی وارث بنے اور اولاد یعقوب کا وارث بنے۔‘‘ جناب محترمہ ! یہ ہے پیغمبر مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں۔ آنے والی نسلوں پر ان کی نظر ہوتی ہے اور وہ واضح ہوتے ہیں نہ وہ مجہول العقل ہوتے ہیں۔ نہ مبہم ہوتے ہیں۔ نہ ان کا ذہن دھندلایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ تو خداوند کریم کے نور سے روشن ہوتا ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل، یہ کیفیات پیغمبروں کے سامنے ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اور اس طرح جس طرح درہم ہتھیلی پر ہوتا ہے۔ اﷲ کریم فرماتے ہیں اے زکریا! ہم تمہیں بشارت دیتے ہیں ایک لڑکے کی، جس کا نام یحییٰ ہوگا اور ہم نے اس سے قبل کسی کو اس کا ہم نام نہیں بتایا۔
ذرا التزام نبوت دیکھئے۔ نام حافظۂ آدم سے، آدمی کی نسل سے نام کو قدرت نے چھپا لیا کہ ایک اپنے نبی کو میں نے یہ نام دینا ہے۔ یہ قرآن فرما رہا ہے۔ اے پروردگار! جناب زکریا فرماتے ہیں کہ میرے لڑکا کیسے ہوگا درآں حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہاء پر ہوں۔ فرمایا اس طرح کہ تمہارے پروردگار کے لئے یہ آسان ہے۔ اے یحییٰ! کتاب کو مضبوط پکڑو اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی سمجھ دے رکھی تھی۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر بچپن میں ہی سمجھ لے کر آتا ہے۔ پچاس برس تک مجہول نہیں رہتا۔ پچاس برس تک اپنے مقام سے غافل نہیں رہتا اور خاص آگے فرماتے ہیں 2729کتاب خدا خاص اپنے پاس سے رقت قلب اور پاکیزگی عطاء کی اور جناب یحییٰ بڑے پرہیز گار تھے اور نیکی کرنے والے تھے اپنے والدین کے ساتھ ، اور سرکش اور نافرمان نہ تھے۔
آگے سنئے، جناب سپیکر! قرآن کی زبان میں پیغمبر کا کیامقام ہے۔ ابھی یحییٰ پیدا نہیں ہوئے اور کلام ربانی کیا آرہا ہے۔ انہیں سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوں اور جس دن کہ وہ وفات پا ئیں گے اور جس دن کہ وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔کائنات، خلق کائنات بعثت پیغمبر کو سلام دیتی ہے۔ اس کے مولود پر بھی اور اس کے دنیا سے رخصت ہونے پر بھی۔ اب ذرا جناب اسپیکر! اندازہ کیجئے کہ جناب زکریا علیہ السلام مانگ کر بڑھاپے میں بچہ لیتے ہیں۔ ایک خارق عادت طریقے سے بچہ آتا ہے۔ کیوں آتا ہے خارق عادت طریقہ سے؟ کیا دنیا میں کوئی اور نہیں تھا جو پہلے مولوی بنتا، محدث بنتا، مجدد بنتا، فقیہہ بنتا،ترقی کرتا، نبوت پاتا۔ کیا کوئی دعا مانگنے والا روئے ارض پر باقی نہ تھا؟ جناب سپیکر! میری اس بحث کو تقویت پہنچتی ہے۔ فطرت نسب کی حفاظت کرتی ہے۔ پیغمبر بغیر نسب کے التزام کے آہی نہیں سکتا۔
اب ذرا التزام قدرت ملاحظہ فرمائیے۔ جناب مریم کے تقدس کے بارے میں عرض کرنا چاہتاہوں۔ قرآن حکیم میں سورئہ مریم میں ارشاد ہے کہ فرشتہ مریم مقدس کے سامنے ظاہر ہوا اور کہا میں پروردگار کا ایلچی ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔ وہ بولی میرے لڑکا کیسے ہو گا درآں حالیکہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا اور نہ میں بدچلن ہوں۔ فرشتہ کہتا ہے جناب اسپیکر! کہا یونہی ہوگا، تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ یہ میرے لئے آسان ہے تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشان بنادیں اوراپنی طرف سے سبب رحمت، اور یہ ایک طے شدہ بات ہے۔
جناب سپیکر! آگے کتاب خدا تعالیٰ ارشاد فرماتی ہے، یہ قرآن کریم کا ترجمہ مولانا عبدالماجد دریا آبادی کا ہے ’’اور پھر وہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں اور وہ لوگ بولے 2730اے مریم! تو نے بڑے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن! نہ تمہارے والد ہی برے آدمی تھے اور نہ تمہاری ماں ہی بدکار تھی۔ اس پر مریم نے اس بچہ کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ جناب سپیکر! اب وہ بچہ بولتا ہے۔ میں اپنی بحث کو اس نکتہ کی طرف لانا چاہتاتھا کہ ماں کی گود یا پنگھوڑے میں بچہ کیسے بولتا ہے۔ بچہ کی طرف اشارہ کیا۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام بولے اپنے پنگھوڑے سے۔ نہیں، پہلے وہ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم اس بچے سے کیسے بات چیت کریں جو ابھی گہوارہ میں پڑا ہوا نومولود بچہ ہے۔ اس پر جناب عیسیٰ علیہ السلام بولے میں اﷲ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور اس نے مجھے نبی بنایا اور اس نے مجھے بابرکت بنایا جہاں کہیں بھی ہوں، اور اسی نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا۔ جب تک میں زندہ رہوں، مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا اور میرے اوپر سلام ہے جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز میں مروںگا اورجس روز میں زندہ کرکے اٹھایاجاؤں گا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ڈاکٹر ایس محمود عباسی بخاری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب کا بقیہ حصہ )
جناب سپیکر! یہ آیات غور و فکر کے لئے ہیں۔ قرآن کریم دعوت فکر دیتا ہے۔ دعوت تفکر دیتا ہے قرآن کریم ہر قدم پر بتائیے کہ قدرت کو کیا ضرورت تھی خالق فطرت کو کہ پنگھوڑے میں بچے کی گفتگو کاانتطام کرے؟ ماں جواب نہ دے اور بچہ جواب دے۔ حضور والا! ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے، فرما رہے ہیں کہ کتاب لے کر آیاہوں۔ رسالت لے کر آیا ہوں۔ معلوم ہوانبی جب پیداہوتا ہے رسالت سے سرفراز ہوتا ہے۔ وہ جہالت کی ٹھوکریں کھانے کے لئے نہیں ہوتا۔ قسام ازل، تقدیر ازلی، قاضی تقدیر اس کو ماں کے پیٹ سے بلکہ روز ازل سے اس کو نبوت سے سرفراز کرکے بھیجتے ہیں۔ یہ روحیں ہی اور ہیں،یہ اجناس ہی اور ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو مدرسوں سے تعلیم پاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو پندرہ روپے کی کلرکی سے ڈسمس ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو قیصرائے ہند کو لکھتے ہیں ’’اے میرے جان و مال کی مالک۔‘‘ یہ وہ لوگ نہیں جو غیروں کے وظیفوں پر پلتے ہیں۔ پیغمبر کو پالنے والا خدا وند کریم ہے۔ اس کی حفاظت مشیت خود کرتی ہے۔
2731متعدد اراکین: بہت اچھے، بہت اچھے۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: جناب سپیکر! اس ضمن میں میں آگے عرض کروں گا کہ یہ سنت الٰہی ہے کہ نبی کتاب لے کر آتا ہے۔ نبی پیدائشی نبی ہوتا ہے۔ یہاں ایک سوال پوچھتا ہوں ان دوستوں سے جو کہتے ہیں، نعوذباﷲ،جو کہتے ہیں رسالت مآب ﷺ چالیس برس تک، نعوذ باﷲ، نعوذ باﷲ، نبی نہیں تھے۔ حالانکہ حدیث شریف میں انا اول العابدین میں سب سے پہلا عبادت گزار ہوں۔ یہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا۔ کیسے عبادت گزار ہوں۔ جناب اسپیکر! قرآن کی طرف آئیے۔ پہاڑ عبادت کر تے ہیں۔ درخت عبادت کرتے ہیں۔ کائنات عبادت کرتی ہے تو اول العابدین کا مطلب یہ ہوا کہ رسالت مآب نے اس وقت بھی عبادت کی جب کوئی موجودات، موجود نہ تھی۔ نبی اس وقت نبی ہوتا ہے جب موجودات نہیں ہوتی۔ ایک قدم آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔
[At this stage Dr.Mrs.Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr.Chairman(Sahibzada Farooq Ali).]
(اس مرحلہ پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت چھوڑ دی۔ جسے جناب چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی نے سنبھال لیا)
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: اجازت ہے جناب!
جناب اسپیکر! جناب ابراہیم علیہ السلام کے ذکرمیں ارشاد خداوندی سنئے:’’تو ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیا اور ہم نے ہر ایک کو نبی بنایا اور ان سب کو اپنی رحمت عطاء کی۔‘‘ جناب موسیٰ علیہ السلام سے ایک ہی قانون قدرت چلا آرہا ہے۔ قانون خداوندی ایک ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے :’’اور ہم نے اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون کو نبی کی حیثیت عطا کی۔ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام عطا کئے اور ہر ایک کو ہم نے صالح بنایا اور لوط علیہ السلام کو ہم نے علم اور حکمت دی اور ہم نے داؤد علیہ السلام کے ساتھ پہاڑوں کو تابع کر دیا اورپرندے ان کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے۔ اسماعیل علیہ السلام، ادریس علیہ السلام اور ذوالکفل کوہم نے اپنی رحمت میں داخل کر لیا تھا۔ بیشک وہ بڑے صالح لوگوں میں سے تھے۔‘‘
2732جناب اسپیکر! اسی طرح سورئہ احزاب میں یہ بات نوشتہ الٰہی میں لکھی جا چکی تھی:’’ اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے تمام پیغمبروں یعنی نبیوں سے عہد لیا اور آپ سے بھی، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ ابن مریم سے بھی، اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا۔ میثیاق غلیظ (پختہ) لیا تاکہ ان سچوں سے ان کے سچ کی بابت سوال کیا جائے۔ جناب سپیکر! قرآن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی روز ازل سے پیدا ہوتے ہیں۔ نبی روز ازل بنائے جاتے ہیں۔ نبی عالم ارواح میں بنائے جاتے ہیں۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: پوائنٹ آف آرڈر، جناب! یہ بار بار ’’جناب اسپیکر، جناب اسپیکر!، جناب اسپیکر!‘‘فرمار ہے ہیں۔ میرے خیال میں اس وقت ’’جناب چیئرمین زیادہ مناسب ہوگا۔
متعدد اراکین: سنا نہیں گیا۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: میں کہہ رہا ہوں کہ بار بار،ہمارے بخاری صاحب ’’جناب اسپیکر، جناب اسپیکر‘‘ فرمارہے ہیں۔ ان کو یہ فرمانا چاہئے کہ ’’جناب چیئرمین۔‘‘ یہ مناسب ہے۔ ویسے یہ اسپیکر ہیں لیکن اس وقت ’’چیئرمین‘‘ ہیں اور ویسے بھی ’’جناب چیئرمین‘‘ کہنا مناسب ہے۔
ڈاکٹر ایس محمودعباس بخاری: مہربانی۔ میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ سورئہ شوریٰ میں ارشاد خداوندی ہے:’’اﷲ نے تمہارے لئے وہی دن مقرر کیا جس کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیاتھا،اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کیا ہے۔ جس کا ہم نے ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام کو بھی حکم دیاتھا۔ یعنی کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔‘‘ اور اس کے بعد سورئہ آل عمران میں ہے:’’ہم نے فضیلت دی آل ابراہیم اورآل عمران کو جہانوں پر۔‘‘
حضور والا! یہ قاعدہ ہے۔یہ وہ طریقہ ہے، یہ سنت الٰہی ہے۔ خاندان کبھی مجہول نہیں ہوتا پیغمبرکا۔ نسب کبھی پیغمبرکا مجہول نہیں ہوتا۔ جن مجہول النسب لوگوں نے اس 2733کے بعد جھوٹی نبوت کے دعوے کئے۔ یہ دلیل ہے ان کے جھوٹے ہونے کی۔ میں ایک بات یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں، جناب! اگر ہم یہ تسلیم کریں ایک لمحہ کے لئے بھی، جہالت کسی لمحے پر وارد ہوتی ہے، تو جناب! جہالت ظلم ہے، اور کوئی نبی ظلم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اﷲ کریم فرماتے ہیں کہ میرا عہد ظالمین کو نہیں پہنچا۔ بالکل نہیں پہنچ سکتا۔ یہ تو دو انعام ہیں۔ عہد اور انعام ایک ہی چیز ہے۔ انعام کاعہد ہے۔ یہ ظالمین کو پہنچ نہیں سکتا۔ نبی نہ جھوٹ بول سکتا ہے، نہ ہی مجہول ہو سکتا ہے، نہ نبی فاتر العقل ہو سکتا ہے۔ نہ نبی اپنے مقام سے گم کردہ راہ ہو سکتا ہے۔ نہ نبی کوئی گناہ کر سکتا بڑا یا چھوٹا۔ اس لئے جناب! کیونکہ اگر نبی یہ کرے گا توکسی کو ہدایت کیوں کر دے گا۔
خضر کیوں کر بتائے راہ اگر
ماہی کہے دریا کہاں ہے
اگر نبی کہے ہدایت کہاں ہے۔ فلاں وقت ہدایت کے بغیر تھا۔ فلاں وقت میری ہدایت سمیت ہے۔یہ بڑا مشکل ہو جاتاہے۔
چمک سورج میں کیا باقی رہے گی
اگر بیزار ہو اپنی کرن سے
نبی کبھی اپنی کرن سے بیزار نہیں ہوتا۔ وہ نور خداوندی کا امین ہوتاہے۔ وہ آئینہ کمالات خداوندی ہوتا ہے۔ حضور والا! اب ہم بات کرتے ہیں اپنے آقائے کائنات جناب سرور رسالت مآب ﷺ کی۔
حسن یوسف، دم عیسیٰ، یدبیضاداری
آنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہاداری
جناب والا! نبوت کسبی شے نہیںہے، یہ وہبی چیز ہے۔ یہ عنایت ہوتی ہے۔ یہ میدان گھوڑ دوڑ کی دوڑ میں جیتی نہیں جاتی۔ خدانخواستہ، نعوذ باﷲ، خاکم بدہن، یہ ریس کا کپ نہیں ہے جسے مرزا قادیانی کی طرح جیت لیں۔ یہ جیتی نہیںجا سکتی، یہ عطا ہوتی ہے۔
2734جناب والا!اسی ضمن میں ایک میں عرض کرنا چاہتاہوں کہ کیا واضح کیاگیا۔ مہدی کا جھگڑا ہے۔ میں اپنی بات کو اجمالاً ختم کرنا چاہتا ہوں۔ بحث بڑی طویل ہو جاے گی۔ اتنا کچھ آثار مہدی میں او ر کتابوں میں، جو کتابیں آج بھی ہمیں روشنی دے رہی ہیں۔ سواد اعظم کی متفقہ کتابیں، ان میںحضور والا! بالکل واضح طور پر مہدی کے خواص لکھے ہیں اور ان میں ان کی صرف ایک خاصیت بیان کرنا چاہتا ہوں اور اس پر میں اپنی بحث کا انجام کرنا چاہتاہوں۔ ابوداؤد، ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے کہ مہدی اولاد فاطمہ ؓ سے ہوگا اور حضور پاک ﷺ کی عترت میں سے ہوگا۔ ایک بڑی مستند کتاب جس کا میں نے نام لیا ہے، عبداﷲ ابن مسعودؓ، دریائے علم۔ ترمذی میں اور ابوداؤد میں روایت ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ فرماتے ہیں کہ مہدی میرا ہم نام ہو گا اور تحقیق وہ میری عترت میں سے ہوگا۔ وہ میری آل میں سے ہوگا۔ جب وہ آئے گا، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ اس کے بعد پھر ابی اسحاق کی روایت ہے:’’تحقیق مہدی اولاد فاطمہؓ میں سے ہو گا اور اخلاق و عادات اور صورت میں حضورپاک ﷺ کے مشابہ ہوگا۔‘‘
جناب والا! اس قسم کے بے شمار حوالے موجود ہیں۔ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہدی بھی مجہول النسب نہیں ہوگا۔ چہ جائیکہ ایک آدمی آج تک اپنا خاندان نہیں ثابت کرسکا کہ وہ فارسی ہے،ایرانی ہے، ترک ہے یا منگول ہے۔ کہاں سے ٹپکے، کہاں سے آئے۔ کس سیارے سے ان کو کس راکٹ میںبٹھا کر یہاں پرلے آئے۔ ان کو اپناعلم نہیں ہے۔ دوسروں کو ان کا علم کیا بتائیں گے؟
جناب والا! یہاں پر میں ایک حدیث پیش کرنا چاہتاہوں۔ جو تمام جھگڑوںکو بڑی واضح کر دیتی ہے۔ میں اس حدیث کے حوالہ جات بھی لے آیا ہوں۔ اگر علماء کرام ان حوالہ جات کو دیکھنا چاہتے ہیں تو میں انشاء اﷲ ان کوبھی دے دوں گا۔ اسمبلی کو پیش کردوں گا۔ حوالے بڑے لمبے ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ میں ان سب کو یہاں دہرا سکوں۔
2735حدیث ثقلین یہ ہے، اس کے بے شمار راوی ہیں۔ اس کو تقریباً چار سو صحابہؓ نے روایت کیا ہے۔ سواد اعظم کی تقریباً ساڑھے سات سو ایسی کتابوں میں اس حدیث کا ذکر ہے۔ یہ تواتر کے دور سے بھی نکل چکی ہے۔ غالباً اتنی مستند اور اتنی ثقہ حدیث بہت کم نظروں سے گزری ہوگی۔ ان تمام لوگوں نے جنہوں نے اس کو مروی کیا ہے۔ جناب علیؓ، دو، تین، چار سن ہجری سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں حدیث کا ترجمہ کرتاہوں:
’’میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ یعنی کتاب اﷲ اور اپنی آل۔ عترت اور اپنے اہل بیت۔ اگر ان سے تمسک کرو گے تو قیامت تک گمراہ نہیں ہوگے۔ بیشک یہ دونوں اکٹھے رہیں گے۔ حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے پاس اکٹھے وارد ہوں۔‘‘حضور والا! جیسا کہ میں نے پہلے حوالوں سے پڑھا ہے کہ مہدی عترت رسول میں سے ہوگا۔ یہ حدیث ثقلین عترت رسول ﷺ کو واضح کرتی ہے۔
میں بات مختصر کرتے ہوے دو چار حوالے پیش کرنا چاہتاہوں۔ اس کے بعد میں یہ عرض کروں گا اور یہ سوال پوچھوں گا کہ اگر عترت رسول ﷺ میں سے (مرزاصاحب) نہیں تھے؟ اگر مجہول النسب تھے؟ تو ان کی نبوت کی وہ بنیاد ہی…
Mr. Chairman: Short Break for fifteen minutes for tea. We will reassemble at 12:15 p.m.
(مسٹر چیئرمین: چائے کے لئے پندرہ منٹ کا مختصر وقفہ۔ ہم سوا بارہ بجے دوبارہ اجلاس شروع کریں گے)
The special Committee adjourned for tea break to reassemble at 12:15 p.m.
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے لئے دوپہر سوا بارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا)
The special Committee ressembled after tea break. Mr.Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ جناب چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی اجلاس کی صدارت کررہے ہیں)
جناب چیئرمین: ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری!
2736ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: جناب چیئرمین! میں حدیث ثقلین کی بات کر رہا تھا۔ جس میں میں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا کہ کوئی نبی یا مہدی نہیں آسکتا جب تک کہ وہ عترت رسول ﷺ نہ ہو اور حدیث ثقلین اس پروارد نہ ہوتی ہو۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ بہت سے حوالہ جات بھی لایا تاکہ میں اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرسکوں اور جناب والا! میں قدرے فخر سے یہ حوالہ جات پیش کروں گا کہ غالباً اتنے حوالہ جات کسی ایک حدیث کے لئے بہت کم اکٹھے ہوئے ہوںگے۔چار، پانچ حوالے پڑھنے کے بعد یہ حوالہ جات کا دفتر میں آپ کی خدمت میں جمع کرا دوں گا تاکہ یہ بھی یہاں پرریکارڈ رہے اور وہ دوست جو حدیث ثقلین کی سند دیکھنا چاہیں۔ وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں اور میری بات پایۂ ثبوت تک پہنچ سکے۔
مخرجین حدیث ثقلین۔ سید بن مسروق السعی سن وفات ۱۲۶ھ۔ جو راوی صحابی ہیں۔ وہ زید بن ارقم ہیں۔ حوالہ جات صحیح مسلم رکن بن زبیع بن العمیلہ، سن وفات ۱۳۱ھ، صحابی زید بن ثابت۔ حوالہ مسلم، احمد حنبل، ابوھیان یحییٰ بن سعید بن ہیان۔ سن وفات ۱۴۵ھ۔ حوالہ مسلم، احمد حنبل۔ صحیح مسلم عبدالملک بن ابی سلطان سن۱۴۵ھ، صحابی راوی ابوسعید الخدری، مسلم، احمد، حنبل۔ محمد بن اسحاق بن لساالمدنی۔ اسرائیل بن یونس ابو یوسف الکونی۔ عبدالرحمن بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود الکفی۔ محمد بن طلحہٰ بن معارف العانی الکونی۔ ابوغبانہ و ذاہب بن عبداﷲ و العشری۔ شریک بن عبداﷲ والقاض۔علی ہذا القیاس!
جناب چیئرمین! بے شمار حوالہ جات ہیں۔ اس میں کم سے کم چار سو صحابہ کرامؓ کے نام درج ہیں۔ پانچ سو، چھ سو کتابوں کے حوالہ جات ہیں۔ جناب والا! اس سے میرے کہنے کامقصد یہ ہے کہ میں اپنی تمام بحث کو سمیٹتا ہوں، Conclude کرتاہوں۔بحوالہ آیات قرآنی ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں جناب والا! کہ:
۱… نبی نجیب الطرفین ہوتاہے۔
۲… 2737نبی کا سلسلہ نسب واضح ہوتا ہے۔
۳… نبی پر کبھی بھی جہالت وارد نہیں ہوتی۔
۴… یہ لازمی ہے کہ نبی کی حفاظت اور اطاعت فطرت خود کرے۔
۵… بطن مادر میں اور صلب پدر میں نبی ہوتاہے۔
۶… نبوت وہبی ہوتی ہے، کبھی بھی کسبی نہیں ہوتی۔
۷… ایک اوربات کی حضور والا! یہاں صراحت کرتا جاؤں، قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’ وما ینطق عن الھویٰ ان ھوالا وحیی یوحی ‘‘{نہیں بولتے نبی کریم اپنی خواہش سے ، سوائے وحی الٰہی کے۔}
حضور!نطق اور کلام میں فرق ہے۔ کلام وہ چیز ہوتی ہے جس میں زبان الفاظ کو کسی مفہوم یا کسی تواتر کے ساتھ ادا کرتی ہے۔ لیکن حضور والا! نطق اسے کہتے ہیں جو بے معنی بھی ہو۔ مثلاً میں کہتا ہوں کہ روٹی ووٹی، پانی وانی، جانا وانا، تو اس میں جو مہملات ہیں۔ وہ بھی ینطق میں شامل ہیں۔ حتیٰ کہ علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ جناب والا! سوتے ہوئے خراٹے لینا بھی ینطق ہے۔ نبی کا بروئے قرآن ینطق بھی جو ہے حضور والا! قرآن حکیم نے اس کو وحی الٰہی قرار دیا ہے۔ اس سیاق و سباق کو اگر ہم اس نبی کے سیاق و سباق سے لگائیں جس نے اس دور میں آکر مسلمانوں میں انتشار و افتراق پیدا کیا اورجھوٹے الہامات اور رویائے کاذبہ کو رویائے صادقہ کے روپ میں پیش کر کے جو مس گائیڈنس یا گمراہی پھیلائی۔ اسی پیمانے سے ہم ا س کو ماپ سکتے ہیں۔ تو حضور والا! پتہ چلتا ہے کہ حق کہا ں ہے اورباطل کہا ں ہے۔ یعنی حق آ گیا اورباطل چلا گیا۔ یقینا باطل ہے بھی جانے والی شے۔
اس کے بعد جناب والا! آٹھویں نشانی! نبوت کی یہ ہے کہ نبی مجہول و مبہم کبھی نہیں ہوتے۔ نویں نشانی! اس کی یہ ہے کہ پیدائش اور موت نبی کریم کی، یا کوئی بھی نبی ہو، 2738ہمیشہ مسعود و مبارک ہوتی ہے۔ دسویں! اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کا سلسلہ نسب عارفین و انعام یافتگان سے ہوتا ہے۔ اگر باپ نبی ہے، یا دادا نبی ہے، یا نانا نبی ہے، یا ماں صدیقہ ہے، یا دادی صدیقہ ہے، یعنی طاہرین کا، معصومین کا اورانعام یافتگان کا ایک سلسلہ ہوتا ہے حضور والا! جو کہ چلتا ہے۔
اس کے بنا نبی نہیں آتا۔ یہ قانون قرآن کے خلاف ہے، یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔ ایک اور دلچسپ بات میں عرض کرتا جاؤں ضمناً وہ بھی نبی کی پہچان ہے کہ اگر کسی بھی نبی کے جسم کی ہڈی آسمان کے نیچے ننگی ہو جائے تو اس وقت بادل آ جاتے ہیں، بارش برستی ہے۔ اس کے لئے بھی میں ۲،۳ سو حوالے پیش کروں گا۔ جب کسی نبی کی ہڈی ننگی ہوئی اورہڈی اس کی باہر برآمد ہو گئی۔ بارش آئی، طوفان آیا، حتیٰ کہ وہ ہڈی پھر کوّر ہو گئی۔ قدرت کاملہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کے پاک وجود کی ہڈی کی بے حرمتی ہو۔ اس کو ہمیشہ باران رحمت چھپا لیتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کسی کاذب نبی کی ہڈی نکالی جائے اورباران رحمت کاتماشہ دیکھا جائے۔ لیکن میں ثبوت میں پیش کر سکتا ہوں۔
اس کے بعد نبوت کے سلسلے میں، میں عرض کروں گا کہ یہ بھی قرآنی تصریح ہے کہ نبی کی بشارت بہت پہلے مل جاتی ہے۔ حتیٰ کہ جناب ابراہیم علیہ السلام کے وقت میں ہزاروں برس پہلے جناب ناموس موسیٰ علیہ السلام کی بشارت دی گئی۔ جناب عیسیٰ عمران کی بشارت دی گئی اور حضور رسالت مآب ﷺ کی بشارت دی گئی۔
جناب والا! ایک اوربات جو ازروئے قرآن ہم سے ثابت ہوتی ہے کہ نبی کو اس کی موت کے بعدکاذب نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ یا نبی کو اس کی اتمام حجت کے بعد کاذب نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اگر کاذب ٹھہرائیں گے اور وہ فی الحقیقت نبی ہے تو عذاب آکر رہے گا۔ جیسے حضرت نوح علیہ السلام کا آیا۔ حضرت یونس علیہ السلام کا آیا۔ حضرت لوط علیہ السلام کا آیا۔ حضرت ہود علیہ السلام کا آیا۔ یا اسے ماننا پڑے گا یا عذاب آئے گا۔ اگر یہ سچے 2739نبی تھے۔ جو کہتے تھے کسی زمانے میں کہ ’’چھوڑو، مردہ علی کی بات نہ کرو، چھوڑو، مردہ حسین کی بات نہ کرو۔‘‘ کیا ہم یہ تصریح نہ لائیں، یہ دلیل نہ لائیں کہ ’’چھوڑو، مردہ مرزا صاحب کی بات نہ کرو۔ وہ بھی پرانے مردے ہو گئے۔ ان کا کیا ذکر کرنا۔‘‘ نہ عذاب آیا، نہ ہدایت آئی، یہ کیسے نبی ہیں؟
جناب والا! بہر حال یہاں پر ایک اوربات قرآنی لحاظ سے عرض کرنا چاہتا ہوں اور بات ضمناً عرض کردوں کہ مشکوٰۃ شریف اور ابوداؤد اور ترمذی کا ایک اورحوالہ میرے ہاتھ آیا ہے کہ بتحقیق رسالت مآب علیہ السلام نے فرمایا کہ مہدی ہر حال میں آل رسول اور بنو فاطمہ میں سے ہوں گے اور اس کے بعد اگلی روایت ہے، حدیث سے کہ عیسیٰ بہ نصرت مہدی آئیں گے۔ مہدی سات برس حکمرانی،عالمی حکمرانی کریں گے اور زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔ کوئی حاجت مند اور مظلوم نہیں رہے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس برس رہیں گے۔
میں پوچھنا چاہتا ہوں نبوت کے ان دعویداروں سے کہ زمین پر کوئی حاجت مند نہیں رہا؟ کیا انسانی مسائل ختم ہوئے ہیں؟ کیا عدل ہو رہا ہے؟ کیا لڑائیاں نہیں ہو رہی ہیں؟ کیا ان کی بعثت کے وقت کے بعد سے عالمی جنگیں نہیں لڑی گئیں؟ یہ کہتے تھے کہ جہاد بند کر دو۔ مجھے بتائیں کہ کیا فلسطین نہیں لٹا؟ کیا بیت المقدس نہیں برباد ہوا؟ کیا کیا کچھ نہیں ہوا ہے۔ عالم اسلام پر کیا کیا چرکے نہ چل گئے۔ انہوں نے کہا کہ جہاد ضروری نہیں ہے تو جہاد کب کریں گے؟ کیا قبروں میں جانے کے بعد کریں گے؟ عدل کہاںآیا ہے؟ عالمی حکمرانی کہاں آئی ہے؟ کہاں زمین انصاف سے بھر گئی ہے؟ حضور والا! یہ بات بھی نہیں ہوئی ہے۔ اس چیز سے بھی ثابت ہوا ہے حدیث کی رو سے بھی کہ یہ نبی جو تھے چاہے بروزی اور ظلی تھے، جو بھی چیز تھے۔ کاذب نبی تھے۔
2740اس کے بعد حضور والا! علامہ محمود الصارم، مصر کا ایک حوالہ عرض کرتا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں کہ بروزی اورظلی نبوت کوئی شے نہیں۔ نہ کبھی کوئی بروزی نبی آیا ہے اور نہ کبھی کوئی بروزی نبی آئے گا۔ نہ جناب ابراہیم علیہ السلام کا کوئی بروز آیا اور نہ آل ابراہیم کا کوئی بروز آیا۔ نہ کوئی بروز علیؓ کا آیا نہ کوئی بروز حسینؓ کا آیا۔ نہ کوئی بروز جناب صدیقؓ کا پیدا ہوا اور نہ کوئی بروز جناب عمر فاروقؓ کا پیدا ہوا اور بروز کون سا آئے گا۔ یہ زرتشتی کا عقیدہ ہے، یہ ہندوآنہ طریقہ ہے۔ آواگواون کا یہ مسئلہ ہے، تناسخ کا مسئلہ ہے، اور یہ وہی آدمی پیش کر سکتا ہے جو مجہول الذہن ہو، مجہول الفہم ہو۔
اور ایک بات عرض کروں گا یہاں پر جس کو ابھی تک بحث میں نہیں لیاگیا۔ اس نبی، اس بیسویں صدی کے نبی نے فرمایا کہ مہدی اور عیسیٰ دونوں اس (کی) شخصیت میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ حالانکہ حضور! تواتر سے ثابت ہے۔ متواترات سے ثابت ہے کہ مہدی کی اور شخصیت ہے ، جناب عیسیٰ علیہ السلام کی اور شخصیت ہے۔ یہ دو الگ شخصیتیں ہوں گی۔ ان کے نشانات علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو آسمان سے نازل ہوں گے۔ دمشق میں اتریں گے۔ فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ ہوں گے۔ دو زرد چادریں اوڑھے ہوئے ہوںگے۔ سرخ و سفید رنگ کے ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ نمازصبح کی اقامت کریں گے۔ یہودیوں کو شکست دیں گے۔جزیہ بند کریں گے۔ حج کریں گے۔ آدمی کی گھاٹی سے لبیک کریں گے۔ شادی کریں گے۔ مسلمان ان کے جنازہ میں شرکت کریں گے۔ روضہ نبی ﷺ میں مدفون ہوں گے۔ عیسیٰ ابن مریم روح اﷲ اور کلمۃ اﷲ ہوں گے۔ صلیب کو توڑیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ کیا خنزیر قتل ہو گیا؟ کیا صلیب ٹوٹ گئی ہے۔ کیا یہ کلمۃ اﷲ تھے؟ کیا یہ روضہ نبی ﷺ میں مدفون ہوگئے؟
حضور والا! یہ بگڑی ہوئی نفسیات ہے۔ یہ ایک ایسی نفسیات ہے جس نفسیات کو اﷲ ہی سنبھالے۔ یہ ایک بہت بڑا انتشار تھا۔ یہ ایک بہت بڑی عالم اسلام کے ساتھ سازش تھی۔ ناموس پیغمبر کے ساتھ یہ 2741بہت بڑا گھناؤنا کھیل تھا۔
 
Top