ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی صاحب تقریبا 20 سال مرزا غلام احمد قادیانی کے مرید رہنے کے بعد بقول مرزا قادیانی مرتد ہو گئے ۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف بغاوت کرنے بعد ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب نے مرزا غلام احمد قادیانی کی موت کی پیش گوئی کی ۔ ان کی اصل پیشگوئی یہ تھی جسے مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی بیان کیا ہے کہ
12 جولائی 1906 کے الہام کے مطابق مرزاقادیانی مسرف کذاب عیار ہے اور صادق کے شریر کے سامنے فنا ہو جائے گا اور میعاد فنا تین سال رکھی ہے ۔
یعنی جولائی 1909 تک مرزا قادیانی ڈاکٹر عبدالحکیم کی زندگی میں ہلاک ہو جائیں گے
اس کے بعد دو طرفہ بیانات کا سلسلہ چلا تو ڈاکٹر عبدالحکیم نے پیشگوئی کی میعاد کم کر دی جسے مرزا قادیانی نے روحانی خزائن جلد 23 ص337،336 پر خود یوں بیان کیا
"ایسا ہی کئی اور دشمن مسلمانوں میں سے میرے مقابل پر کھڑے ہوکر ہلاک ہوئے اور اُن کا نام و نشان نہ رہا۔ ہاں آخری دشمن اب ایک اور پیدا ہوا ہے جس کا نام عبد الحکیم خان ہے اوروہ ڈاکٹر ہے اور ریاست پٹیالہ کا رہنے والا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ میں ُس کی زندگی میں ہی ۴؍ اگست ۱۹۰۸ ء تک ہلاک ہو جاؤں گا۔ اور یہ اُس کی سچائی کے لئے ایک نشان ہوگا۔ یہ شخص الہام کا دعویٰ کرتا ہے اور مجھے دجّال اور کافر اور کذّاب قرار دیتا ہے۔ ۔۔ تب اُس نے یہ پیشگوئی کی کہ میں اُس کی زندگی میں ہی ۴؍ اگست ۱۹۰۸ ء تک اُس کے سامنے ہلاک ہوجاؤں گا۔ مگر خدا نے اُس کی پیشگوئی کے مقابل پر مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور خدا اُس کو ہلاک کرے گا او ر میں اُس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔ سو یہ وہ مقدمہ ہے جس کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی نظر میں صادق ہے خدا اُس کی مدد کرے گا۔"
مرزا غلام احمد قادیانی کی یہ کتاب 15 مئی 1908 کو شائع ہوئی اس کے ٹھیک دس دن بعد 26 مئی 1908 کو مرزا جی ، ڈاکٹر عبدالحکیم کے سامنے اس کی زندگی میں ہلاک ہو گئے ۔
ہمارا اصل استدلال تو مرزا قادیانی کی پیشگوئی سے ہے کہ اس نے ڈاکٹر عبدالحکیم کی اپنی زندگی میں مرنے کی پیشگوئی تھی جو غلط نکلی اور مرزا جی خود ہی اس کی زندگی میں ہلاک ہو گئے اور پتہ چل گیا کہ کون جھوٹا تھا
لیکن مرزائیوں کی یہ عادت ہے کہ وہ مرزا قادیانی کی پیشگوئی کی بجائے ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیشگوئی پر تنقید شروع کر دیتے ہیں کہ پیسہ اخبار اور اخبار اہل حدیث کی اشاعت مورخہ 15 مئی 1908 میں ڈاکٹر عبدالحکیم کے خطوط شائع ہوئے تھے جس میں اس نے 4 اگست تک کی بجائے 4 اگست کو مرزا قادیانی کے مرنے کی پیشگوئی کی ہے جبکہ مرزا قادیانی 26 مئی 1908 کو مرا نہ کہ 4 اگست 1908 کو
اس لئے ڈاکٹر عبدعبدالحکیم جھوٹا ہو گیا ۔
حالانکہ مرزا قادیانی کا اپنا بیان ہے کہ
اصل مدعا تو نفس مفہوم ہے وقتوں میں تو کبھی استعارات کا دخل ہو جاتا ہے (حاشیہ انجام آتھم ص 29)
اور ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیشگوئی کا نفس مفہوم یہ تھا کہ مرزا قادیانی اس کی زندگی میں فوت ہو جائے گا ۔ اس لئے اگر 4 اگست کی بجائے 26 مئی کو مرزا قادیانی فوت ہو گیا تو کیا حرج ہے ؟
اور مزے کی بات ہے کہ جب عیسائی پادری عبداللہ آتھم ،مرزا قادیانی کی بیان کردہ مقررہ مدت میں فوت نہ ہوا اس کے کافی مہینوں کے بعد فوت ہوا تو مرزا جی کہنے لگے
ڈپٹی آتھم تو بہرحال فوت ہو چکا ہے میعاد کے اندر مرا یا میعاد کے باہر آخر مر تو گیا ( خزائن 22 ص 566)
تو کیا اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ چلو مرزا قادیانی 4 اگست کو نہ سہی 26 مئی کو مر ا آخر مر تو ڈاکٹر عبدالحکیم کی زندگی میں ہی گیا ناں
ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب نے ہفت روزہ اہل حدیث مورخہ 3 جولائی 1908 ، جلد5 نمبر 35 ص 3
میں 4 اگست تک اور 4 اگست کو کی وضاحت کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف بغاوت کرنے بعد ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب نے مرزا غلام احمد قادیانی کی موت کی پیش گوئی کی ۔ ان کی اصل پیشگوئی یہ تھی جسے مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی بیان کیا ہے کہ
12 جولائی 1906 کے الہام کے مطابق مرزاقادیانی مسرف کذاب عیار ہے اور صادق کے شریر کے سامنے فنا ہو جائے گا اور میعاد فنا تین سال رکھی ہے ۔
یعنی جولائی 1909 تک مرزا قادیانی ڈاکٹر عبدالحکیم کی زندگی میں ہلاک ہو جائیں گے
اس کے بعد دو طرفہ بیانات کا سلسلہ چلا تو ڈاکٹر عبدالحکیم نے پیشگوئی کی میعاد کم کر دی جسے مرزا قادیانی نے روحانی خزائن جلد 23 ص337،336 پر خود یوں بیان کیا
"ایسا ہی کئی اور دشمن مسلمانوں میں سے میرے مقابل پر کھڑے ہوکر ہلاک ہوئے اور اُن کا نام و نشان نہ رہا۔ ہاں آخری دشمن اب ایک اور پیدا ہوا ہے جس کا نام عبد الحکیم خان ہے اوروہ ڈاکٹر ہے اور ریاست پٹیالہ کا رہنے والا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ میں ُس کی زندگی میں ہی ۴؍ اگست ۱۹۰۸ ء تک ہلاک ہو جاؤں گا۔ اور یہ اُس کی سچائی کے لئے ایک نشان ہوگا۔ یہ شخص الہام کا دعویٰ کرتا ہے اور مجھے دجّال اور کافر اور کذّاب قرار دیتا ہے۔ ۔۔ تب اُس نے یہ پیشگوئی کی کہ میں اُس کی زندگی میں ہی ۴؍ اگست ۱۹۰۸ ء تک اُس کے سامنے ہلاک ہوجاؤں گا۔ مگر خدا نے اُس کی پیشگوئی کے مقابل پر مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور خدا اُس کو ہلاک کرے گا او ر میں اُس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔ سو یہ وہ مقدمہ ہے جس کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی نظر میں صادق ہے خدا اُس کی مدد کرے گا۔"
مرزا غلام احمد قادیانی کی یہ کتاب 15 مئی 1908 کو شائع ہوئی اس کے ٹھیک دس دن بعد 26 مئی 1908 کو مرزا جی ، ڈاکٹر عبدالحکیم کے سامنے اس کی زندگی میں ہلاک ہو گئے ۔
ہمارا اصل استدلال تو مرزا قادیانی کی پیشگوئی سے ہے کہ اس نے ڈاکٹر عبدالحکیم کی اپنی زندگی میں مرنے کی پیشگوئی تھی جو غلط نکلی اور مرزا جی خود ہی اس کی زندگی میں ہلاک ہو گئے اور پتہ چل گیا کہ کون جھوٹا تھا
لیکن مرزائیوں کی یہ عادت ہے کہ وہ مرزا قادیانی کی پیشگوئی کی بجائے ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیشگوئی پر تنقید شروع کر دیتے ہیں کہ پیسہ اخبار اور اخبار اہل حدیث کی اشاعت مورخہ 15 مئی 1908 میں ڈاکٹر عبدالحکیم کے خطوط شائع ہوئے تھے جس میں اس نے 4 اگست تک کی بجائے 4 اگست کو مرزا قادیانی کے مرنے کی پیشگوئی کی ہے جبکہ مرزا قادیانی 26 مئی 1908 کو مرا نہ کہ 4 اگست 1908 کو
اس لئے ڈاکٹر عبدعبدالحکیم جھوٹا ہو گیا ۔
حالانکہ مرزا قادیانی کا اپنا بیان ہے کہ
اصل مدعا تو نفس مفہوم ہے وقتوں میں تو کبھی استعارات کا دخل ہو جاتا ہے (حاشیہ انجام آتھم ص 29)
اور ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیشگوئی کا نفس مفہوم یہ تھا کہ مرزا قادیانی اس کی زندگی میں فوت ہو جائے گا ۔ اس لئے اگر 4 اگست کی بجائے 26 مئی کو مرزا قادیانی فوت ہو گیا تو کیا حرج ہے ؟
اور مزے کی بات ہے کہ جب عیسائی پادری عبداللہ آتھم ،مرزا قادیانی کی بیان کردہ مقررہ مدت میں فوت نہ ہوا اس کے کافی مہینوں کے بعد فوت ہوا تو مرزا جی کہنے لگے
ڈپٹی آتھم تو بہرحال فوت ہو چکا ہے میعاد کے اندر مرا یا میعاد کے باہر آخر مر تو گیا ( خزائن 22 ص 566)
تو کیا اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ چلو مرزا قادیانی 4 اگست کو نہ سہی 26 مئی کو مر ا آخر مر تو ڈاکٹر عبدالحکیم کی زندگی میں ہی گیا ناں
ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب نے ہفت روزہ اہل حدیث مورخہ 3 جولائی 1908 ، جلد5 نمبر 35 ص 3
میں 4 اگست تک اور 4 اگست کو کی وضاحت کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

آخری تدوین
: