• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق غدار وطن

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا " وہ دشمن جو بظاہر دوست ہو ، اس کے دانتوں کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے " یہ مقولہ نوبیل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق پر پوری طرح صادق آتا ہے . جس نے دوستی کی آڑ میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا . اسے 10 دسمبر 1979ء کو نوبیل پرائز ملا ، قادیانی جماعت کے آرگن روزنامہ " الفضل " نے لکھا تھا کہ جب اسے نوبیل انعام کی خبر ملی تو وہ فوراً اپنی عبادت گاہ میں گیا اور اپنے متعلق مرزا غلام قادیانی کذاب کی پیش گوئی پر اظہار تشکر کیا . اس موقع پر مرزا قادیانی کذاب کی بعض عبارتوں کو کھینچ تان کر ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق پر چسپاں کیا گیا اور فخریہ انداز میں کہا گیا کہ یہ دنیا کا واحد موحد سائنس دان ہے جسے نوبل پرائز ملا ہے ، حالانکہ اسلام کی رو سے رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر بڑے سے بڑا موحد کافر ہے . ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا منکر تھا ، وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنجہانی مرزا غلام قادیانی کذاب ( جس سے انگریز نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر نبوت کا اعلان کروایا تھا ) کو اللہ کا آخری نبی مانتا تھا اور اس طرح وہ اپنے عقائد کی رو سے دنیا کے تمام مسلمانوں کو کافر اور صرف اپنی جماعت کہ لوگوں کو مسلمان سمجھتا تھا . چونکہ قادیانیت مخبروں اور غداروں کا سیاسی گروہ ہے لہذا اس کی سرپرستی کرتے ہوۓ سامراج نے ان کے ایک فرد کو نوبیل انعام دیا ، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک رشوت ہے جو یہودیوں نے قادیانیت کو اپنے مفادات کے حصول کے لئے دی .
ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کو اپنی جماعت کی خدمات پر " فرزند احمدیت " بھی کہا جاتا ہے وہ اپنی جماعت کے ( اس وقت کے سربراہ ) مرزا ناصر احمد کے حکم پر 1966ء سے وفات تک مجلس افتاء کا باقاعدہ ممبر رہا ، اس کا ماموں حکیم فضل الرحمن 20 سال تک گھانا اور نائجیریا میں قادیانیت کا مبلغ رہا ، اس کا والد چوہدری محمد حسین جنوری 1941ء میں اسپکٹر آف سکولز ملتان ڈویژن کے دفتر میں بطور ڈویژنل ہیڈ کلرک تعنیات ہوا ، قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود نے اسے قادیانی جماعت ضلع ملتان کا امیر مقرر کر دیا جس میں تحصیل ملتان ، وہاڑی ، کبیر والا ، خانیوال ، میلسی ، شجاع آباد اور لودھراں کی تحصیلیں شامل تھیں . ایک دفعہ اس نے خانیوال میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قادیانی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوۓ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مرزا قادیانی کا ( نعوز باللہ ) موازانہ شروع کیا تو اجتماع میں ماجود مسلمانوں میں کہرام مچ گیا اور انہوں نے اشتعال میں آکر پورا جلسہ الٹ دیا ، چند نوجوانوں نے چوہدری محمد حسین کو پکڑ کر جوتے بھی مارے ، پولیس نے چوہدری محمد حسین کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا . دو دن بعد ملتان میں ایک قادیانی پولیس افسر نے مداخلت سے اس کی رہائی کروائی .
تحریک پاکستان کا مشہور غدار خضر حیات ٹوانہ ضلع سرگودھا کا بہت بڑا جاگیردار اور یونیسٹ سیاست دان تھا ، اس نے اپنی ریاست " کہلرا " میں جہاں ہزاروں مزدروں ، کسان اسکی ہزاروں ایکڑ اراضی پر محنت ومشقت کرتے تھے ، کبھی کوئی سکول نہ کھلنے دیا . اس خضر حیات ٹوانہ نے حکومت برطانیہ کو جنگ عظیم میں مدد دینے کے لئے 3 لاکھ روپے کا فنڈ اکٹھا کیا . مگر 1945ء میں جنگ عظیم اختتام کو پہنچ گئی جس کے بعد وہ 1946ء میں کانگریس پارلیمنٹری کے ساتھہ مخلوط وزارت کے زیر اہتمام پنجاب کا وزیر اعلی بنا دیا گیا . چونکہ اس کا جمع کیا ہوا جنگی فنڈ تاحال کسی مصرف میں نہ آسکا ، اس لئے اس نے انگریز کی تعلیمی پولیسی کے مطابق چھوٹے زمینداروں کے بچوں کو بیرون ملک اعلی تعلیم کے لئے بیجھنے کے لئے وظائف کا اجرا کیا ، اس مقصد کے لئے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کو بیرون ملک تعلیم کے لئے یہ وظیفہ مل جائے ، اس کے والد نے سر ظفر اللہ خان قادیانی جو ان دنوں واسرائے کی کونسل کا ممبر تھا کی سفارش پر ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سے ایک سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا کہ گورداسپور میں اس کی اراضی ہے جو اسے اس کے بھائی نے دی ہے جو اسی ضلع میں رہائش پذیر ہے اس طرح دوسرے امیدواروں کی طرح ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق بھی وہ وظیفہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا . یہ وظیفہ تین سال کی مدت کے لئے مخصوص تھا اور اس کی قیمت تین سو پچھتر پاونڈ سالانہ تھی ، اس زمانے کے ایکسچینج ریٹ کے مطابق ایک برطانوی پاونڈ تیرہ روپے کا ہوا کرتا تھا ، ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق نے اس وظیفے کے حصول کی کوشش کے ساتھہ ہی کیمبرج داخلے کی درخواست بھیج دی تھی ، جب اس کے ساتھ سکالرز کو اگلے سال ( یعنی 1947ء ) کیمبرج میں داخلہ دینے کا وعدہ کیا گیا تو عبدالسلام قادیانی زندیق کو اسی دن یعنی 3 ستمبر 1946ء کو کیمبرج کی طرف سے ایک لیٹر موصول ہوا جس میں اسے اطلاع دی گئی تھی کہ سینٹ جان کالج میں اس کے لئے ایک غیر متوقع خالی جگہ ماجود ہے ، یوں قادیانی زندیق کا کیمبرج میں داخلہ ہوگیا . قادیانی زندیق جب برطانیہ پہنچا تو لیورپول کی بندرگاہ پر جو شخص اسے سب سے ملا ، وہ سر ظفر اللہ خاں قادیانی تھا .
ڈاکٹرعبدالسلام قادیانی زندیق 1948ء میں اپنی شادی کے سلسلے میں واپس پاکستان آنا چاہتا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا کر قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے اسے منع کر دیا ، 1949ء میں وہ پاکستان واپس آیا تو میاں افضل حسین جو پنجاب کے سابق وزیر اعلی سر فضل حسین کا چھوٹا بھائی تھا ان دنوں پبلک سروس کمیشن کا چئیرمین تھا ، اس نے کمال مہربانی کرتے ہوۓ قادیانی زندیق کے سکالرشپ میں توسیع کر دی ، اسی سال گرمیوں میں ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کی پہلی شادی اپنے چچا غلام حسین کی بیٹی امت الحفیظ بیگم سے ہوئی ، شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد وہ واپس برطانیہ چلا گیا .
اس نے 1951ء میں دوبارہ واپس آکر گورنمنٹ کالج لاہور میں ملازمت کا آغاز کیا . گورنمنٹ کالج میں پروفیسری کے دور میں قادیانی زندیق کو کیمبرج یونیورسٹی نے لیکچرشپ کے عہدے کی پیشکش کی تو قادیانی زندیق نے اسے بخوشی قبول کر لیا ، لہذا بمطابق حکومت پنجاب کے نوٹیفکیشن نمبر 6075/2 مورخہ 16 فروری 1954ء قادیانی زندیق کو مندرجہ ذیل شرائط پر کیمبرج میں ڈیپوٹیشن پر لیکچررشپ کے عہدہ پر کام کرنے کی اجازت دے دی گئی :
گورنر پنجاب کی جانب سے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق ایم اے ( پنجاب ) بی اے ( کیبنٹ ) پی ایچ ڈی ( کیبنٹ ) پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور کی خدمات بخوشی تین سال یا اس سے کم ( اگر وہ جلدی ہی پاکستان واپس آگئے ) مدت کے لئے بحثییت ریاضی سٹوکس لیکچرر یکم جنوری 1954ء سے کیمبرج کے سپرد کی جاتی ہے .
ڈاکٹرعبد السلام قادیانی زندیق کی کیمبرج میں تقریری کی شرائط حسب ذیل ہونگی :
سینٹ جان کالج کی فیلوشپ : 300 پاونڈ .....یونیورسٹی میں بحثییت لیکچرر تنخواہ : 450 پاونڈ .... دیگر الاؤنس : 50 پاونڈ .... کل : 800 پاونڈ
اس کے علاوہ اسے سینٹ جان کالج کی طرف سے ایک اپارٹمنٹ دیا گیا جہاں وہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھہ منتقل ہوگیا ، یاد رہے یہاں رہائش اور کھانا مفت تھا . جو لوگ اسے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کی جلاوطنی کا نام دیتے ہیں ، انہیں اس حقیقت کے پیش نظر اپنے من گھڑت مفروضے پر نظر ثانی کرکے پوری قوم سے معذرت خواہ ہونا چاہیے .
ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کی پرزور فرمائش پر ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی ( ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی ) کو صدر ایوب نے 1958ء میں اپنے دورحکومت میں ایٹمی توانائی کمیشن کا رکن بنایا اور پھر ایک سال کے اندر اندر اس کا چیئرمین بنا دیا گیا ، ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق نے امپیریل کالج لندن کے ریکٹر سر پیٹرک لنسٹیڈ کی ملی بھگت سے 500 کے قریب نیوکلئیر فزکس ، ریاضی ، صحت وطب اور حیاتیات کے طلبہ اور ماہرین کو بیرونی ممالک بلخصوص امریکہ اور برطانیہ کے تحقیقی مرکز میں حکومت کے خرچ پر اعلی تحقیق وتعلیم کے لئے بیجھنے کا منصوبہ بنایا ، ان طلبہ اور ماہرین کی اکثریت قادیانی مذہب سے تعلق رکھتی تھی ، ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق نے ڈاکٹر عثمانی سے اس منصوبہ کو منظور کرواکے ان لوگوں کو باہر بجھوا دیا جو واپس آکر ملک کے حساس اداروں کلیدی عہدوں بلخصوص ایٹمی انرجی کمیشن میں فائز ہوگئے . اس کے برعکس امریکی تعلیمی اداروں کے نیوکلئیر فزکس کے شعبہ میں مسلمان بلخصوص عرب طلبہ پر پابندی ہے جو اب تک برقرار ہے ، یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1974ء تک جب تک اس شعبہ میں قادیانیوں کے اثرات تھے ، ایٹمی قوت بننے کے سلسلے میں معمولی سا کام بھی نہیں ہوا ، حالانکہ صدر ایوب چاہتے تھے کہ ہندوستان کے مقابلہ میں دفاعی قوت مضبوط بنائی جائے لیکن قادیانیوں نے ان کی کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیا ، ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے بعد جب قادیانی گروپ کے اثرات ختم ہوۓ تو پاکستان نے اس شعبہ میں ترقی کی .
اسلام دشمن قوتوں کو ہمیشہ ہی ایسے بدقماش اور ننگ وطن آلہ کاروں کی ضرورت رہی ہے ، جو ملت اسلامیہ کے حساس اور خفیہ معاملات کی مخبری کرکے ان کے ناپاک عزائم کو پایا تکمیل تک پہنچائیں ، اس مقصد خبیثہ کے لئے انہیں اپنے پرانے نمک خوروں کا مکمل تعاون حاصل رہا ہے ، جنھیں انہوں نے اپنے خزانہ عامرہ کا منہ کھول کر ہر قسم کی پرتعیش مراعات فراہم کیں ، بلاشبہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق بھی ایسے ہی ضمیر فروش لوگوں میں شامل تھا .
دوسرے شعبوں کی طرح نوبیل انعام میں بھی یہودیوں کی اجاراداری ہے ، ان کا غرور ، نخوت اور تعصب کسی ایسے شخص کو خاطر میں نہیں لاتا جو ان کی شازشوں اور مکروہ سرگرمیاں کا حامی اور الہ کار نہ ہو ، ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق ، یہودیوں کے اس میرٹ پر سو فیصد پورا اترتے تھے ، لہذا انہوں نے ایک شازش کے تحت قادیانی زندیق کو نوبیل انعام سے نوازا اور اس کی آڑ میں اپنے خفیہ مقاصد حاصل کیے ، قادیانی زندیق نے مغربی طاقتوں اور اسرائیل کے اشارے پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ناکام بنانے اور تمام دوسرے محب وطن سائنس دانوں کو بے حوصلہ کرنے کے متعدد اقدامات کیے ، پاکستان کے تمام ایٹمی راز ملک دشمن ممالک کو فراہم کیے . انہیں کہوٹہ ایٹمی سنٹر اور دوسرے حساس قومی معاملات کی ایک ایک خبر پہنچائی ، دراصل وہ چاہتا تھا کہ پاکستان کبھی دفاع کے معاملے میں خود کفیل نہ ہوسکے اور ہمیشہ بڑی طاقتوں کا دست نگر رہے .
گوئبلز نے کہا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو ، اتنا جھوٹ بولو کے اس پر سچ کا گمان ہونے لگے ، بلکل یہی فلسفہ قادیانی زندیق کے متعلق اپنایا گیا ، ہمارے نام نہاد صحافیوں اور دانشوروں نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اس " غدار پاکستان " کو ہیرو بنا کر پیش کیا جو انتہائی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے ، قادیانی زندیق کو ہیرو بنا کر پیش کرنے والے ان عقل کے اندھوں سے پوچھنا چاہیے کہ قادیانی زندیق نے مختلف ادوار میں حکومت پاکستان سے تمام تر مراعات حاصل کرنے کے باوجود اپنی پوری زندگی " تحقیق " کے نتیجے میں عالم اسلام بلخصوص پاکستان کو کیا تحفہ دیا ؟؟؟ . اس کی کون سی ایجاد یا دریافت ہے ؟ ، جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا ، اس کا کون سا کارنامہ ہے جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچا ؟؟ اس کی کون سی ایسی خدمت ہے جس سے اہل پاکستان کے مسائل میں ذرا سی کمی واقع ہوئی ؟؟ اس نے کون سا ایسا تیر مارا جس پر اسے نوبیل انعام سے نوازا گیا ؟؟ یہ سوالات آج تک تشنہ جوابات ہیں .
ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق مسلمانوں کو کیا سمجھتا تھا ؟ اس سلسلے میں معروف صحافی وکالم نویس جناب تنویر قیصر صاحب نے ایک دلچسپ مگر فکر انگیز واقعہ میں اپنی ذاتی معاملات میں بتایا ، یہ واقعہ انہی کی زبانی سنئیے : کہتے ہیں کہ " ایک دفعہ لندن میں قیام کے دوران بی بی سی لندن کی طرف سے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بطور معاون ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کے گھر ان کا تفصیلی انٹرویو کرنے گیا
میرے دوست نے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کا تفصیلی انٹرویو کیا اور ڈاکٹر صاحب نے بھی بڑی تفصیلات کے ساتھہ جوابات دیے
انٹرویو کے دوران میں بلکل خاموش ، پوری دلچسپی کے ساتھ سوال وجواب سنتا رہا ، دوران انٹرویو انہوں نے ملازم کو کھانا دستر خوان پر لگانے کا حکم دیا ، انٹرویو کے تقریباً آخر میں ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق نے مجھے مخاطب کیا اور بولے ، اپ معاون کے طور پر تشریف لائے ہیں مگر اپ نے کوئی سوال نہیں کیا ؟ میری خواہش ہے کہ اپ بھی سوال کریں ، ان کے اصرار پر میں نے بڑی عاجزی سے کہا چونکہ میرا دوست اپ سے بڑا جامع انٹرویو کر رہا ہے اور میں اس میں کوئی تشنگی نہیں محسوس کر رہا ، ویسے بھی میں اپ کی شخصیت اور اپ کے کام کو اچھی طرح جانتا ہوں ، میں نے اپ کے متعلق خاصا پڑھا ہے . جھنگ سے لیکر اٹلی تک اپ کی تمام سرگرمیاں میری نظروں سے گزرتی رہی ہیں لیکن پھر ایک خاص مصلحت کے تحت میں اس سلسلہ میں کوئی سوال کرنا مناسب نہیں سمجھتا . اس پر ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق فخریہ انداز میں مسکرائے اور ایک مرتبہ پھر اپنے علمی گھمنڈ اور غرور سے مجھے " مفتوح " سمجھتے ہوۓ " فاتح " کے انداز میں "حملہ اوار " ہوتے ہوے کہا : نہیں اپ ضرور سوال کریں ، مجھے بہت خوشی ہوگی . بال آخر ڈاکٹر صاحب کے پرزور اصرار پر میں نے انہیں کہا کہ اپ وعدہ فرمائیں کہ اپ بغیر کسی تفصیل میں گئے میرے سوال کا دو ٹوک الفاظ ہاں یا نہیں میں جواب دیں گے . ڈاکٹر صاحب نے وعدہ فرمایا : ٹھیک بلکل ایسا ہوگا .
میں نے ڈاکٹر سے پوچھا چونکہ اپ قادیانی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جو نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بحثییت آخری نبی کی منکر ہے بلکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول مانتے ہیں جبکہ مسلمان مرزا قادیانی کی نبوت کا انکار کرتے ہیں . اپ بتائیں کہ مدعی نبوت مرزا غلام قادیانی کو نبی نہ ماننے پر اپ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں ؟
اس پر ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق بغیر کسی توقف کے بولے کہ " میں ہر اس شخص کو کافر سمجھتا ہوں جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتا " ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کے اس جواب پر میں نے انہیں کہا کہ میں مزید سوال کرنا نہیں چاہتا . اس موقع پر انہوں نے اخلاق سے گری ہوئی ایک عجیب حرکت کی کہ اپنے ملازم کو بلا کر دسترخوان سے کھانا اٹھوا دیا ، پھر ڈاکٹر صاحب کو پریشان دیکھ کر ہم دونوں دوست ان سے اجازت لیکر رخصت ہوۓ "
اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق ایک متعصب اور جنونی قادیانی تھا ، جو سائنس کی آڑ میں قادیانیت پھیلاتا رہا ، اس نے پوری زندگی ایسی بات نہیں کی جو اسلام اور پاکستان دشمن ممالک کے مقاصد کے متصادم ہو ، پاکستان کے دفاع کے متعلق بھارت ، اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ایک لفظ بھی کہنا اس کی ایمان دوستی کے منافی تھا .

انشاء اللہ دوسری قسط میں اپ لوگوں کو نوبیل انعام کیا ہے کہ بارے میں بتاؤں گا .
واسلام
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اسلام علیکم

ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق اور نوبیل انعام

دوستوں 15 اکتوبر 1979ء کو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کے لئے نوبیل انعام تجویز ہوا ، اور 10 دسمبر 1979ء کو یہ انعام دے دیا گیا .
یہ انعام کیا ہے ؟ ، اور قادیانی اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ان امور پر غور وفکر کی ضرورت تھی مگر ان امور پر پردہ ڈالنے کے لئے یہودی قادیانی لابی نے اس کا بے پناہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ کسی کو اس پر غور وفکر کا موقع ہی نہ ملا ، یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ نوبیل کا حصول گویا ایک مافوق الفطرت معجزہ ہے . جو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کے ذریعہ ظہور پذیر ہوا ، اس کو مرزا غلام قادیانی کذاب کی صداقت کی دلیل بنانے کی کوشش کی گئی ، بہت سے مسلمان جن کو نہیں معلوم کہ نوبل انعام کیا چیز ہے اور جو نہیں جانتے تھے کہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کون تھا ؟ اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوۓ بغیر نہ رہ سکے ، اس لئے آج ضروری ہے کہ نوبل انعام کی حقیقت کو واضح کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ ہے کیا چیز ؟

نوبل انعام کیا چیز ہے ؟
محمد عجیب اصغر قادیانی نے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق پر ایک کتابچہ " پہلا احمدی مسلمان سائنس دان عبدالسلام " کے نام سے بچوں کے لئے لکھا ہے ، جس میں وہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے حوالے سے لکھتا ہے : " بچو نوبل انعام ایک سوئیڈش سائنس دان مسٹر الفرڈ بن ہارڈ نوبیل کی یاد میں دیا جاتا ہے . نوبیل 21 اکتوبر 1833ء میں سٹاک ہوم کے مقام پر جو کہ سوئیڈن کا دارالحکومت ہے پیدا ہوا اور 10 دسمبر 1896ء کو اٹلی میں فوت ہوا . نوبیل ایک بہت بڑا کیمیا دان اور انجینئر تھا ، اس کی وصیت کے مطابق ایک فاونڈیشن بنائی گئی جس کا نام نوبیل فاونڈیشن رکھا گیا ، یہ فاونڈیشن ہر سال 15 انعامات دیتی ہے ، ان انعامات کی تقسیم کا آغاز دسمبر 1901ء میں ہوا جو کہ الفرڈ نوبیل کی پانچویں برسی تھی .
نوبل انعام فزکس ، فزیالوجی ، کیمسٹری یا میڈیسن ، ادب اور امن کے شعبوں اور میدانوں میں نمایاں اور امتیازی کارنامہ سر انجام دینے والے کو دیا جاتا ہے ، ہر انعام ایک طلائی تغمہ اور سرٹیفکیٹ اور رقم بطور انعام جو کہ تقریباً 80 ہزار پاؤنڈ پر مشتمل ہوتی ہے دی جاتی ہے . نوبل انعام حاصل کرنے والے امیدواروں کے نام مختلیف ایجنسیوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں ، اور وہ انعام کے صحیح حقدار کا فیصلہ کرتی ہیں ، مَثَلاً فزکس اور کیمسٹری رائل اکیڈمی آف سائنس سٹاک ہوم کے سپرد ہوتی ہے ، فزیالوجی رائل اکیڈمی آف سائنس سٹاک ہوم کے سپرد ہوتی ہے . اپ کا مضمون سویڈش اکیڈمی آف فرانس اور اسپین کے سپرد اور امن کا انعام ایک کمیٹی کے سپرد ہوتا ہے جس کے پانچ ممبر ہوتے ہیں جو کہ ناروجین پارلیمنٹ چنتی ہے ( بحوالہ کتاب مذکورہ )
نوبل انعام کے بارے میں مزید معلومات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے :
( 1 ) الفریڈ برنارڈ نوبل ڈائنا مائٹ کا موجد اور اور سائنٹسٹ تھا ، جنگی آلات ، بارود اور تار پیڈ وغیرہ پر تحقیقات کرتا رہا ، بالا آخر اس نے جنگی آلات تیار کرنے والی دنیا کی سب سے نامور کمپنی " بوفورز کمپنی " خرید لی ،
( 2 ) ڈائنا مائٹ کے تجربات کرتے اس کے بھائی کی اور تین اور اشخاص کی موت واقع ہوئی ، جو اس کے تجربات کی بھینٹ چڑھ گئے . اس سے اس شخص پر قنوطیت کی کیفیت طاری ہوئی ، اور گویا اس کے کفارہ میں اس نے اپنی جائیداد کا بڑا حصہ " نوبل انعام " کے لئے واقف کر دیا .
( 3 ) اوقف کی اصل رقم ( اس زمانہ کہ ایکسچنج کے مطابق ) تراسی لاکھ گیارہ ہزار ڈالر تھی ، وصیت یہ کی گئی کہ اصل رقم بینک میں محفوظ رہے گی اور اس کے " سود " سے انعامات کی رقم پانچ شعبوں میں مساوی تقسیم کی جائے ، ہر شعبہ میں اگر ایک ہی آدمی انعام کا مستحق قرار دیا جائے تو اس شعبہ کے حصہ کی پوری انعامی رقم اس کو دی جائے اور اگر کسی شعبے میں ایک سے زائد افراد کے نام ( جن کی تعداد تین سو سے زیادہ کسی صورت نہیں ہونی چاہیے ) انعام کے لئے تجویز کیے جائیں تو تو اس شعبہ کے حصہ کی سودی رقم ان افراد میں برابر تقسیم کر دی جائے ، ایک شرط یہ بھی رکھی گئی کہ اگر مجوزہ شخص انعام وصول کرنے سے انکار کر دے تو اس کا حصہ اصل زر میں شامل کر دیا جائے . چناچہ 1948ء میں ہر شعبہ کے حصہ میں سود کی یہ سالانہ رقم بتیس ہزار ڈالر آئی ، اور 1980ء میں یہ سودی رقم بڑھ کر دو لاکھ دس ہزار ڈالر ہو گئی . فزکس کے شعبہ میں تقریباً سو افراد کو یہ سودی انعام مل چکا ہے .
1930ء میں سرسی وی رمن ( ہندوستانی ہندو ) واحد شخص تھا جس کو فزکس میں نوبل انعام ملا اور 1983ء میں ایک اور ہندوستانی امریکن کو یہ انعام ملا ، ادب کے شعبہ میں رابند ناتھ ٹیگور بنگالی ہندو کو 1913ء میں یہ نوبل انعام ملا ، گزشتہ چند سالوں میں جنوبی امریکہ کے چند باشندوں اور جاپان کے ادیب کو نوبل انعام ملا ، امن کے شعبہ میں 1973ء میں امریکہ کہ ہنری کیسنجر اور شمالی ویت نام کے مسٹر تھو کو نوبل انعام ملا ، لیکن مسٹر تھو کی غیرت نے اس انعام کو وصول کرنے سے انکار کر دیا ان دونوں کے لئے یہ انعامات ویت نام میں جنگ بندی کی بات چیت کی بنا پر تجویز کیا گیا تھا . 1979ء میں ہندی قومیت کی حامل ایک متجردہ خاتون " ٹریسا " کو امن کے " نوبل انعام " سے نوازا گیا ، اور 1978ء میں مصر کے سابق صدر انور سادات اور اسرائیل کے اس وقت کے وزیراعظم مسٹر بیگن کو " امن کا نوبل انعام " عطا کیا گیا . مخض اس خوشی میں کہ موخزالذکر ( مسٹر بیگن ) نے اول الذکر ( انور سادات ) سے " اسرائیل " کو باقاعدہ تسلیم کرالیا تھا .

مندرجہ بالا اشارات سے درج ذیل امور معلوم ہوۓ

اول یہ کہ انعامات اس شخص مسٹر نوبل کی یاد میں دیے جاتے ہیں جس نے دنیا کو مہلک ہتھیاروں کا سبق پڑھایا اور جو امریکہ ، روس ، فرانس اور برطانیہ وغیرہ کی کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے .
دوم یہ انعام جس رقم سے دیے جاتے ہیں وہ خالص سود کی رقم ہیں ، جس کے لینے دینے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ملعون قرار دیا ہے " عن جابر رضی اللہ عنه قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکل الر بامو کله کاتبه وشاھدیه وقال ھم سواء " صحیح مسلم جلد 2 ) ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ، سود لینے والے پر ، اس کے دینے والے پر ، اس کے لکھنے والے پر ، اس کے گواہوں پر اور فرمایا کہ اور یہ سب ( گناہ میں ) برابر ہیں
اور جس کو قران کریم نے خدا اور رسول کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے " فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسوله " ( سورۂ البقرہ )

سوم یہ کہ یہ انعام نہ کوئی خرق عادت معجزہ ہے اور نہ انسانی تاریخ کا کوئی غیر معمولی واقعہ ہے ، مختلیف ممالک میں سرکاری اور نجی طور پر مختلیف قسم کے انعامات جو ہر سال تقسیم کیے جاتے ہیں اسی قسم کا ایک انعام یہ " نوبل انعام " بھی ہے ، چناچہ یہ " نوبل انعام " ہر سال کچھ لوگوں کو ملتا ہے ، ہندوستان اور بنگال کہ ہندوں کو بھی مل چکا ہے ،اسرائیل کے یہودی کو بھی مل چکا ہے اور نصرانی مبلغہ " ٹریسا " بھی اس شرف ( اگر اس کو شرف کہنا صحیح ہے ) مشرف ہوچکی ہے .
الغرض یہ نوبل انعام جو قریباً ایک صدی سے مروج ہے سینکڑوں اشخاص کو مل چکا ہے ، کیا یہ کہیں سننے میں آیا ہے کہ سینکڑوں یہودی ، نصرانی ، اور دہرئیے یہ کہہ کر دنیا پر پل پڑے ہوں کہ ہمیں نوبل انعام کا ملنا ہمارے مذھب کی حقانیت کی دلیل ہے ، یہ میرے مذھب کے حق پر ہونے کا معجزہ ہے ؟ ، لہذا میرا دین اور میرا نظریہ حیات سب سے اعلی وارفع ہے ؟
اور ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کو جو انعام دیا گیا تھا وہ ایک مشترکہ انعام تھا جو طبعیات کے شعبہ میں 1979ء میں تین اشخاص کو دیا گیا جن میں قادیانی زندیق بھی تھا ، اس سے بڑا کارنامہ تو اس ہندو کا تھا جس نے 1930ء میں طبعیات کا انعام تن تنہا حاصل کیا ، اب اگر ایک قادیانی زندیق کو طبعیات کا مشترکہ انعام ملنا اس کے مذھب کی حقانیت دلیل ہے تو اس سے نصف صدی قبل ایک ہندو کو تن تنہا یہی انعام ملنا بدرجہ اولیٰ ہندو مذھب کی حقانیت کی دلیل ہونی چاہیے ، اس لئے اس کو ایک غیر معمولی اور خرق عادت واقعہ کی حیثیت سے پیش کرنا قادیانی مراق کی شعبدہ کاری ہے ( یاد رہے کہ قادیانیوں کے گروہ مرزا غلام قادیانی کذاب کو مراق اور ہسٹیریا کی بیماری تھی ان بیماریوں میں ) ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے .
چہارم یہ کہ ان انعامات کی تقسیم میں تقسیم کنندگان کی کچھ سیاسی ومذہبی مصلحتیں کارفرما ہوتی ہیں اور جن افراد کو ان انعامات کے لئے منتخب کیا جاتا ہے ، ان کے انتخاب میں بھی یہی مصلحتیں جھلکتی ہیں ، چناچہ ان سینکڑوں افراد کی ناموں کی فہرست پر سرسری نظر ڈالئے . جن کو نوبل انعام سے نوازا گیا ان میں اپ کو الا ماشاء اللہ سب کے سب یہودی ، عیسائی ، اور دہرئیے نظر آئیں گے ، سویڈن کے منصفوں کی نگاہ میں پوری صدی میں ایک مسلمان بھی ایسا پیدا نہیں ہوا جو طب ، ادب ، طبعیات وغیرہ کے کسی شعبہ میں کوئی اہم کارنامہ سر انجام دے سکا ہو ، ہر شخص منصفان سویڈن کی نگاہ انتخاب کی داد دے گا ، جب وہ یہ دیکھے گا کہ رابند ناتھ ٹیگور ہندو کو بنگالی زبان کی شاعری پر ، جاپانی ادیب کو اپنی زبان میں ادبی کارنامے پر اور جنوبی امریکہ کی ریاستوں کے باشندوں کے اپنی زبان میں ادبی کارناموں کو مستند سمجھتے ہوۓ لائق انعام سمجھا گیا ، لیکن برکو چک پاک وہند کے کسی ادیب ، کسی شاعر اور کسی صاحب فن کی طرف منصفان سویڈن کی نظریں نہ اٹھہ سکیں ... کیوں صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھے ؟؟ مثال کے طور پر ہمارے علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کو لیجئے ، پوری دنیا میں ان کے ادب وزبان کا غلغلہ بلند ہے . انگلستان کے نامور پروفیسروں ان کے ادبی شہ پاروں کو انگریزی میں منتقل کیا ، لیکن وہ نوبل انعام کے مستحق نہیں گردانے گئے ہیں ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے ، حکیم اجمل خان مرحوم نے شعبہ طب ، ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی وغیرہ نے سائنسی ریسرچ میں کیا کیا کارنامے انجام دیے ، لیکن نوبل انعام کے مستحق نہ ٹھہرے ، یہ تو چند مثالیں مخض برائے تذکرہ زبان قلم پر آگئیں ، ورنہ ایک صدی کے پوری دنیا اسلام کے نابغہ افراد کی فہرست کون مرتب کر سکتا ہے ، لیکن کسی کو نوبل انعام کے لائق نہیں سمجھا گیا اور ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق میں کوئی خوبی تھی یا نہیں تھی مگر اس کی یہی خوبی تھی کہ وہ قادیانی زندیق تھا . اسلام اور مسلمانوں کا یہودیوں سے بھی بڑھ کر دشمن تھا ، بس اس کی یہی خوبی منصفان سویڈن کو پسند آگئی اور نوبل انعام اس کے قدموں میں نچھاور کر دیا گیا .
پنجم یہ کہ بعض غیور اور باحمیت افراد اس سودی انعام کے وصول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایک خاص قسم کی " رشوت " ہے

یہ تھا آرٹیکل " ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق غدار وطن کا دوسرا حصہ انشاء اللہ تیسرے حصے میں " ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی زندیق کو نوبل انعام کیوں دیا گیا " کو تفصیلی طور پر اپ لوگوں کو سامنے پیش کروں گا .
واسلام
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ہمارے بعض ہم وطنوں کی اسلامی رواداری اور ڈاکٹر عبد السلام قادیانی زندیق


ہمارے جدید طبقہ کی رائے یہ ہے کہ عبدالسلام قادیانی زندیق کی سائنسی مہارت کی تعریف کرنی چاہیے اور اس کے عقیدہ ومذہب سے صرف نظر کرنا چاہیے . چناچہ ہمارے ملک کے ایک معروف ادارے سے شائع ہونے والے پرچے میں ڈاکٹر عبد السلام قادیانی زندیق کی تعریف میں بہت کچھ لکھا گیا . ایک دردمند مسلمان نے اس پر ادارہ کے سربراہ کو خط لکھا ، پاکستان کی اس معروف ترین شخصیت کی جانب سے اس خط کا جو جواب ملا ، اس میں مندرجہ بالا نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے ، ضروری تمہید کے بعد جوابی خط کا متن یہ ہے : " ڈاکٹر عبد السلام (قادیانی زندیق )کے سلسلے میں اپ نے جو لکھا اس میں جذبات کی شدت ہے . لیکن اپ سوچیں تو ایک مسلمان کی حثییت سے ہمیں روادار اور کشادہ دل ہونا چاہیے . غیر ملکیوں اور غیر مذاہب کے سائنس دانوں اور دوسرے بہت سے ماہرین کے متعلق ہم روزانہ تحریریں پڑھتے رہتے ہیں ، ان کی اچھی باتوں کی تعریف کرتے ہیں . ان کے کارناموں کی قدر کرتے ہیں ، ان کی ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں پھر ان کے متعلق دوسری تمام باتیں لکھتے ہیں لیکن یہ کہیں نہیں لکھتے کہ ان کا مذہب کیا ہے یا کیا تھا . کیونکہ ہمیں اس سے غرض نہیں ، ہم تو ان کی ان باتوں سے سروکار رکھتے ہیں جو انہوں نے انسانوں اور دنیا کے فائدے کے لئے کئے .یقین ہے اپ مطمئن ہو جائیں گے " :

یہ نقطہ نظر واقعی اسلامی فراخ قلبی کا مظہر ہے . اور ہم بھی تہہ دل سے اس کے حامی ہیں لیکن اگر کوئی صاحب کمال اسلام کے مفادات کی جڑیں کاٹتا ہوا اگر اس کے اور اس کی جماعت کے رویہ سے اسلامی ممالک کو خطرات لاحق ہوں ، اگر وہ اپنے کمال کو اپنے باطل مذہب کی اشاعت کے لئے استعمال کرتا ہو تو اس کے کمال کے اعتراف کے ساتھہ ساتھہ اس سے لاحق خطرات سے قوم کو اگاہ کرنا بھی اہل فکر ونظر کا فریضہ ہونا چاہیے . ڈاکٹر عبد السلام قادیانی زندیق قادیانیت کا پرجوش داعی ومبلغ تھا ، اس کی جماعت اور اس کے پیشوا ہمیشہ سے مسلمانوں کے حریف اور اعدائے اسلام کا حلیف رہا ہے ، اور وہ پوری دنیا میں یہ جھوٹا شور وغوفا کرتا رہا ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں پر ظلم ہو رہا ہے ، کیا مسلمان کو ایسے دشمن کی تعریف کرنا جس سے عالم اسلام کو خطرات ہوں ، اسلامی عزت وحمیت کا مظہر ہے ؟؟

مندرجہ بالا خط میں جس طبقہ کی نمائندگی کی گئی ہے ہمیں افسوس ہے جو جوش رواداری میں اسلامی عزت وحمیت کے تقاضوں کو پشت انداز کر رہا ہے . اور اس طبقہ میں تین قسم کے لوگ ہیں
اول وہ ناواقف اور جاہل لوگ ہیں جو نہیں جانتے کہ قادیانیوں کے عقائد ونظریات کیا ہے ؟اور ان کو یہ پتہ ہے کہ قادیانیوں کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض وعداوت کے کیسے جذبات موجزن ہیں
دوسری قسم وہ تعلیم یافتہ طبقہ ہے جو ملحد ولادین ہیں جن کو دین اور اہل دین سے بغض ونفرت ہے اور دین سے بیزاری ان کے نزدیک گویا فیشن میں داخل ہے ، وہ مذہب کی بنیاد پر افراد اور ملتوں کی تقسیم ہی کا قائل نہیں ، وہ مومن وکافر ایماندار اور بے ایمان اہل حق اور اہل باطل سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ایک ہی ترازو سے تولتا ہے اس کے نزدیک دین اور دینداری کا نام لینا ہی سب سے بڑا جرم ہے

تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو دین پسند کہلاتے ہیں . دینی موضوعات اور اور اصلاح معاشرہ پر بڑے بڑے مقالے تحریر فرماتے ہیں ، بظاہر اسلام کے داعی اور نقیب نظر آتے ہیں لیکن ان کے نزدیک دین بس اسی نعرہ بازی اور مقالہ نگاری کا نام ہے ، انہیں اپنی قومی وملی مصروفیات کے ہجوم میں کبھی اہل دین اور اہل دل کی صحبت کا موقع نہیں ملا اس لئے ان کے حریم قلب میں دینی حمیت وغیرت کے بجائے مصلحت پسندی کا سکہ رائج ہے اور یہ حضرات بڑی معصومیت سے رواداری اور کشادہ دلی کا واعظ فرماتے رہتے ہیں . لیکن ان کا یہ سارا واعظ خدا اور رسول اور دین وملت کے غداروں سے رواداری تک محدود ہے اگر ان کی ذاتی املاک کو کوئی شخص پہنچائے ان کی اپنی عزت وناموس پر حملہ کرے وہ رواداری کا سارا واعظ بھول جائیں گے ، ان کی رگ حمیت پھڑک اٹھے گی اور ان کا جذبہ انتقام بیدار ہو جائے گا اور وہ اس موذی کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دم لیں گے ، لیکن اگر کوئی خدا اور رسول کی عزت پر حملہ کرتا ہو ، دین میں قطع وبرید کرتا ہو ، اکابر امت پر کیچڑ اچھالتا ہو ، اس کے خلاف ان کی قلم وزبان سے ایک حرف نہیں نکلے گا ، بلکہ یہ حضرات ایسے موزیوں کا تعاقب کرنے والوں کو درس رواداری دینے لگیں گے .
اس " دین پسند " طبقہ کو معلوم ہے کہ مرزا غلام قادیانی کذاب دجال خود کو " محمد رسول اللہ " کی حثییت سے پیش کرتا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ قادیانی ٹولہ مرزا غلام قادیانی کذاب دجال کو محمد رسول اللہ مسیح موعود اور مہدی موعود مانتا ہے ( نعوز باللہ ) ، انہیں علم ہے قادیانی اسلام اور مسلمانوں کہ بدترین دشمن اور خدا اور رسول کے غدار ہیں وہ باخبر ہیں تمام قادیانی پاکستان کو " لعنتی سرزمین " سممجھتے ہیں اور پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے بین الاقوامی سازشیں کر رہے ہیں لیکن ان تمام امور کے باوجود یہ " دین پسند " طبقہ قادیانیوں کے حق میں رواداری کا درس دیتا ہے . تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی قومیں جن میں مذکورہ بالا تین طبقات کی اکثریت ہو وہ جلد یا بدیر تحلیل ہو کر رہ جاتی ہے . خصوصاََ تیسری قسم کے لوگ جو دینی حمیت وغیرت سے خالی اور احساس خود تحفظی سے عاری ہوں وہ بہت جلد مقہور ومحکوم ہو کر رہ جاتے ہیں .


جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا رواداری اور کشادہ دلی کے ہم بھی قائل ہیں لیکن اس رواداری کے یہ مطلب نہیں کہ میرا باپ دنیا سے چلا جائے ، اور کل کو دوسرا شخص آکر کہے کہ میں تمہارا باپ ہوں دوسرا روپ لیکر آیا ہوں لہذا تم حقوق پدری مجھ سے بجا لاؤ اور میں رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اس موذی کو باپ تسلیم کر لوں .... نہیں .... بلکہ اگر مجھ میں ذرا بھی انسانی غیرت ہوگی تو میں اس ناہنجار کے جوتے رسید کروں گا . اب اس بے غیرتی اور دیوثی کا تماشہ دیکھئے کے ڈاکٹر عبد السلام قادیانی زندیق کا باوا مرزا غلام قادیانی کذاب دجال کہتا ہے کہ میں " محمد رسول اللہ " ہوں اور مسلمان کہلانے والے اور محمد رسول اللہ کو ماننے والے اس قادیانی زندیق سے رواداری کا درس دیتے ہیں .
 
Top