(ڈوئی امریکن کے متعلق سوال)
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی، جس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ علیجاہ ہے۔ تو مرزا صاحب نے ان کو چیلنج کیا۔ تو اگر آپ دیکھیں تو جس طرح مرزا صاحب نے مولانا ثناء اللہ کو چیلنج کیا ہے، اسی طرح سے یہ ہے۔ ہوبہو معاملہ یہ بھی ہے اور۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اور جس طرح مولوی ثناء اللہ صاحب کا رَدِّعمل تھا، وہی ڈوئی کا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مولوی صاحب نے تو پھر بھی کہا کہ: ’’اگر یہ بات ہے تو میں تیار ہوں‘‘ اس نے تو Ignore (نظرانداز) کردیا، اس نے تو کہا: ’’میں جواب نہیں دیتا، میں نہیں مانتا۔‘‘ یہ میں پوائنٹ آؤٹ کرنا چاہتا تھا آپ کو۔
1421مرزا ناصر احمد: اس کا یعنی سوال یہ ہے کہ ہم موازنہ کرکے تو اس کی رپورٹ دے دیں؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں، اس واسطے کہہ رہا ہوں کہ دو Parallel Cases (متوازی کیسز) ہیں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: بالکل۔ اسی لئے آپ کی توجہ Page.179 یہ جو "True Islam" (سچا اسلام) ہے۔۔۔۔۔۔
Mirza Nasir Ahmad: "Ahmadiyyat or True Islam"? (مرزا ناصر احمد: احمدیت یا سچا اسلام؟)
جناب یحییٰ بختیار: Page. 179، یہ جو میرا ایڈیشن ہے ناں، 1937ء کا، اُس سے ہے یہ۔
مرزا ناصر احمد: 37ء کا؟
جناب یحییٰ بختیار: یہ جو ڈوئی کی اسٹوری جب آتی ہے ناں، اس میں وہ بیان کرتے ہی ناں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: میں سمجھ گیا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ان میں کوئی Parallel (متوازی) ہے، کوئی اِختلاف ہے، کیا چیز ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں Parallel Cases (متوازی کیسز) ہیں۔
مرزا ناصر احمد: وہ تو چیک کرکے Written Statement (تحریری دستاویز) دے دیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس پوائنٹ آف ویو سے دیکھیں کہ یہاں بھی وہ کہتا ہے کہ…
They are parallel cases:
"This challenge was first given in 1902 and was repeated in 1903 but Doui paid no attention to it and some of the 1422American papers began to inquire as to why he has not given reply".
(یہ دو متوازی معاملات ہیں۔ یہ چیلنج پہلے ۱۹۰۲ء میں دیا گیا، پھر ۱۹۰۳ء میں دُہرایا گیا، مگر ڈوئی نے کوئی توجہ نہ دی اور کچھ اخباروں نے دریافت کرنا شروع کردیا کہ اس نے کیوں جواب نہیں دیا)
مرزا ناصر احمد: اس کی پوری تفصیل ہے ہمارے پاس، وہ نقل کرکے دے دیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ یہاں ساری تفصیل دی ہوئی ہے اس کتاب میں۔
مرزا ناصر احمد: اس میں اتنی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اخبار ’’امریکن ایکسپریس‘‘ کو Quote کیا گیا ہے۔
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، بہت کچھ دیا ہوا ہے اس میں۔ تو اسی طرح اُس نے اِنکار کردیا۔ پھر اس کے بعد یہ کہتے ہیں کہ وہ دُعا جو تھی وہ قبول ہوگئی اور وہ ذلیل ہوگئے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، ایک نے Ignore (نظرانداز) کیا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی:
Then he was asked. He said, "I refuse to take notice......."
(تب اس سے پوچھا گیا، اس نے جواب دیا کہ: اس نے اس پر توجہ نہیں دی)
وہ میں نے آگے نہیں پڑھا۔
Mirza Nasir Ahmad: "I refuse to take notice and I refuse to accept."
Ther is a lot of difference between the two.
(مرزا ناصر احمد: میں اس کو قابلِ توجہ نہیں سمجھتا، اور نہ میں اس کو قبول نہیں کرتا۔ ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے)
Mr. Yahya Bakhtiar: Exactly, Sir, he refused. Maulana after all said that "I am willing to accept."
(جناب یحییٰ بختیار: بالکل جنابِ والا! اس نے مولانا کو اِنکار کیا ہے، آخرکار اس نے کہا کہ میں اسے قبول کرنے کو تیار ہوں)
مرزا ناصر احمد: بہرحال، یہ موازنہ کرکے آپ کو لکھ دیں گے، Submit (پیش) کردیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہاں لکھا تھا اس نے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جی، میں سوال سمجھ گیا ہوں، وہ سارے حوالے نکال کے۔۔۔۔۔۔
1423Mr. Yahya Bakhtiar: "Dr. Doui paid no attention to it and some of the American papers began to inquire as to why he has not given a reply. He himself says in his own paper of December 1903: "There is a Muhammadan Messaih in India who has repeatedly written to me that Jesus Christ lies buried in Kashmir and people ask me why I don't answer him. Do you imagine that I should reply to such wags and lies. If I were to put down my foot on them, I would crush out their lives. I give them a chance to fly away and live."
(جنا ب یحییٰ بختیار: ڈاکٹر ڈوئی نے کوئی توجہ نہ دی۔ چند امریکی اخباروں نے دریافت کرنا شروع کردیا کہ اس نے کیوں جواب نہیں دیا؟ وہ خود اپنے اخبار دسمبر ۱۹۰۳ء میں کہتا ہے: ’’ہندوستان میں ایک محمڈن مسیحا ہے جس نے کئی بار مجھے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کشمیر میں دفن ہیں اور لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اس کو جواب کیوں نہیں دیتا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے ایسے مکروہ جھوٹ کا جواب دینا چاہئے؟ اگر میں نے اپنا قدم ان پر رکھا تو میں انہیں ملیامیٹ کردوں گا۔ میں انہیں ایک موقع دیتا ہوں کہ بھاگ جائیں اور اپنی جان بچائیں۔‘‘)
تو بڑی بات کی اس نے۔ تو میں یہ کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: میں نے یہی کہا تھا ناں کہ بڑا فرق ہے۔