(ڈوئی نے مرزاقادیانی کے چیلنج کو نظرانداز کیا)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ فرق تو جو بھی ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اس نے بھی چیلنج کو Ignore (نظرانداز) کیا، بلکہ حقارت سے اُس نے کہا کہ: ’’میں اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔‘‘
مرزا ناصر احمد: اور حقارت کی سزا مل گئی اُس کو اور انہوں نے کہا: ’’کوئی دانا قبول نہیں کرسکتا۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، انہوں نے کہا: ’’اگر آپ یہ کریں گے، یہ شرط پوری کریں تو میں تیار ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ: ’’میں تیار ہوں۔ مگر آپ اگر۔۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ کوئی اپنی طرف سے شرط لگائی۔ تو بہرحال یہاں بھی اس نے اِنکار کردیا، اور یہاں بھی بددُعا کی اور وہاں بھی بددُعا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اس کے اِنکار کے بعد ایک پیش گوئی اس کے لئے شائع کی گئی۔
جناب یحییٰ بختیار: سب کچھ اس میں ہے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، سب کچھ تو نہیں ہے۔ یہ تو ایک رپورٹ ہے ناں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اور میں کہتا ہوں کہ جس وقت انہوں نے بددُعا کی ہے، اُس وقت کہا کہ: 1424’’تم بھی بددُعا کرو اور میں بھی بددُعا کرتا ہوں۔ جو جھوٹا وہ مرے گا۔‘‘
وہ مرگیا۔ پھر مولوی ثناء اللہ سے کہا: ’’تم بھی بددُعا کرو، میں بھی کرتا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے بددُعا کی کہ: ’’مجھے تنگ کر رہا ہے اور یہ ہیضہ اور طاعون سے مرے، جو بھی جھوٹا ہو۔‘‘ یہ میں Parallel (متوازی) کر رہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: یہ میں سمجھ گیا کہ آپ یہ Parallel (متوازی) کر رہے ہیں۔ تو میں یہ عرض کردیتا ہوں کہ میں اپنا Parallel (متوازی) کرکے تو پھر Submit (پیش) کردوں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ میں نے Attention آپ کی Draw کرنی تھی۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ٹھیک ہے، وہ نوٹ کرلیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اس لائن پر۔
Thank you very much, Sir. (جنابِ والا! آپ کا بہت بہت شکریہ)۔ اب یہ مولانا آپ سے کچھ تحریف پر کچھ پوچھیں گے۔
مرزا ناصر احمد: اس میں ایک کتاب دینے کا ہم نے وعدہ کیا تھا، وہ ایک ’’مباحثہ راولپنڈی‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی۔
مرزا ناصر احمد: ’’ایک غلطی کا اِزالہ۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: وہ بھی ریکارڈ پر آگیا۔ اس کی طرف۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اور وہ آپ نے ’’الفضل‘‘ کے متعلق کہا تھا اس کی فوٹواسٹیٹ کاپی…
Mr. Yahya Bakhtiar: Yes. Thank you very much.
(جناب یحییٰ بختیار: جی۔ آپ کا بہت بہت شکریہ)
1425میرے پاس جو تھی ناں، وہ چھوٹی کاپی تھی۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔ وہ ساری ہم نے یہ کرادی ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: تو میں نے اس لئے کہا کہ یہ ساری Misunderstanding (غلط فہمی) نہ ہو۔ اب Last Page (آخری صفحہ) یہ ہے، جو اس کا ہے، وہ ہے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: آپ نے ۔۔۔۔۔۔ جی؟
جناب یحییٰ بختیار: میں نے وہ نوٹ بھیج دیا تھا۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، وہ مل گیا مجھے۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Thank you, Sir. Nothing more. (جناب یحییٰ بختیار: آپ کا شکریہ جنابِ والا، اس کے علاوہ کچھ نہیں)
مرزا ناصر احمد: یہ آپ نے فرمایا تھا حضرت انصاری صاحب یہ سوال کریں گے تحریفِ معنوی کے متعلق یا تحریفِ قرآن کے متعلق۔
جناب یحییٰ بختیار: انہوں نے کہا: تحریف کے متعلق، کیونکہ وہی اس Subject (موضوع) کو Deal (ڈیل) کر رہے تھے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں کچھ اُصولی باتیں ہیں، وہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں شروع میں اور اس کے بعد پھر۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو آپ کی مرضی ہے۔ وہ تو آپ کے ڈیلی گیشن کی طرف سے آپ سب کے۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک اسپیکر صاحب، چیئرمین صاحب کا یہ رول ہے کہ اگر خود لیڈر بول سکے تو وہ بولیں گے۔ اگر وہ محسوس کریں کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، جیسا کہ مولانا صدرالدین صاحب بوڑھے آدمی ہیں، He cannot answer, he cannot hear (وہ جواب نہیں دے سکتے، وہ سن نہیں سکتے) تو انہوں نے کہا کہ جو Alternate ہو وہی کرے۔ آپ ماشاء اللہ اچھی طرح بول بھی سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ میں سن بھی سکتا ہوں۔ میں نے تو یہ۔۔۔۔۔۔
1426جناب یحییٰ بختیار: باقی یہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے Prepare کیا ہے، یہ Deal کریں گے، میرا خیال ہے کہ وہ تو ایسی بات نہیں ہے۔ آپ حافظ بھی ہیں اور۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہی کرلیں گے۔
Mr. Chairman: I think, my observation is that it would be better if the reply is by the witness himself.
(جناب چیئرمین: میرا خیال ہے کہ یہ بہتر ہوگا کہ گواہ خود جواب دے)
Mr. Yahya Bakhtiar: There is another complication also, Sir.
(جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا! اس میں ایک اُلجھن اور بھی ہے)
Mr Chairman: My observation is based on the ground that the Committee has authorised the Attorney-General to put the question only and, as far as Tehreef-i-Qur'an is concerned, since we had ourselves acknowledged that the knowledge of the Attorney-General in Arabic text is not as good as an in others, so, for the Arabic text, the help of Maulana Zafar Ahmad Ansari has been obtaind.
(جناب چیئرمین: یہ میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ کمیٹی نے صرف اٹارنی جنرل کو سوال پوچھنے کی اجازت دی ہے، البتہ جہاں تک تحریفِ قرآن کا تعلق ہے، چونکہ ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ چونکہ اٹارنی جنرل عربی زبان میں دُوسرے علوم کی طرح ماہر نہیں، اس لئے مولانا ظفراحمد انصاری کی مدد حاصل کی جائے)
Mr. Yahya Bakhtiar: That is what I submitted to Mirza Sahib ......
(جناب یحییٰ بختیار: میں نے مرزا صاحب سے گزارش کی تھی)
Mr. Chairman: That is the reason.
(جناب چیئرمین: بس یہی وجہ ہے)
Mr. Yahya Bakhtiar: ...... that I am not competent to deal with this question and Mirza Sahib is fully competent to answer. And if he asks any other member of the Delegation, the difficulty is that he will have to be given oath and he will have to second his evidence. So, to avoid that,......
(جناب یحییٰ بختیار: کہ میں اس سوال کو نپٹانے کے لئے پوری طرح مجاز نہیں ہوں اور مرزا صاحب جواب دینے کے پوری طرح مجاز ہیں۔ اگر وفد کے کسی دُوسرے ممبر کو جواب دینے کے لئے کہا جائے گا، تو پھر اس ممبر کو حلف دینا ہوگا اور انہیں اس کی گواہی کی تائید کرنا ہوگی۔ چنانچہ اس سے بچنے کے لئے۔۔۔۔)
مرزا ناصر احمد: نہیں، Oath میں تو پانچ سیکنڈ شاید لگتے ہیں۔
Mr. Chairman: No, we are getting the help of Maulana Zafar Ahmad Ansari only because Maulana Ansari can speak fluently Arabic. That is the reason. If the Attorney-General had been fully conversant with the Arabic language, the question would have been put by the Attorney-General. Now it is up to 1427the witness. The weight attached and the responsibility ...... The witness himself has been replying ......
(جناب چیئرمین: ہم مولانا ظفراحمد انصاری کی مدد محض اس لئے لے رہے ہیں کہ وہ عربی روانی سے بول سکتے ہیں، وجہ یہی ہے، اگر اٹارنی جنرل صاحب عربی زبان کے پورے ماہر ہوتے تو سوال یقینا وہی کرتے۔ اب یہ گواہ پر منحصر ہے، جواب کو کس قدر وزن دیا جاسکے گا، اور کس قدر ذمہ داری، اب تک تو گواہ خود ہی جواب دے رہا ہے)
مرزا ناصر احمد: ہاں، ذمہ داری میری ہوگی۔
جناب چیئرمین: ایک منٹ میری بات سن لیں۔ If the answer is by the Chairman, it would be better.
مرزا ناصر احمد: لیکن۔ آپ اجازت دیتے ہیں کہ وہ بھی بول لے؟
جناب چیئرمین: وہ بول سکتے ہیں، لیکن میں یہی کہوں گا کہ اگر آپ خود جواب دیں گے تو اس میں اتھارٹی بھی Better (بہتر) ہوگی، اس میں Weight (وزن) بھی زیادہ ہوگا، اس پر Responsibility (ذمہ داری) بھی زیادہ ہوگی۔
مرزا ناصر احمد: جب میں ذمہ داری لے رہا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ میری بجائے وہ بولیں۔ اگر آپ کی اجازت ہو۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے جی، ہمیں کوئی اِعتراض نہیں ہے۔ میں نے پوزیشن Explain (واضح) کردی ہے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، اصل فیصلہ تو Chair (صدر) نے کرنا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: چیئرمین صاحب نے تو کہہ دیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: That will carry more weight because, in ten days, all the answers have come from the witness himself. The members of the Delegation are there to help the witness. So, it would be better. We cannot force the witness to reply to any question. So, on the same pretext, it would be better if the witness himself replies because witness is more conversant than the members of the Delegation, it is presumed, It would be better.
(جناب چیئرمین: اس کا وزن اور اہمیت زیادہ ہوگی، کیونکہ گزشتہ دس دنوں میں تمام جوابات گواہ نے خود دئیے ہیں، وفد کے اراکین گواہ کی امداد کو موجود ہیں۔ چنانچہ یہی صورت بہتر ہوگی۔ ہم گواہ کو جواب دینے پر مجبور نہیں کرسکتے، اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ گواہ خود جواب دے، وہ وفد کے اراکین کی نسبت زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ خیال یہی ہے کہ یہ بہتر رہے گا)
Mr. Yahyah Bakhtiar: It is left to your discretion.
(جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ کی صوابدید کی بات ہے)
Mr. Chairman: It is up to the witness.
(جناب چیئرمین: اس کا اِنحصار گواہ پر ہے)
1428Mr. Yahya Bakhtiar: It is left to your discretion.
(جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ کی صوابدید کی بات ہے)
مرزا ناصر احمد: بس ٹھیک ہے پھر۱؎۔
Mr. Chairman: Yes, Maualan Zafar Ahmad Ansari. (جناب چیئرمین: جی، مولانا ظفر احمد انصاری صاحب)
مولانا ظفر احمد انصاری: آپ کچھ اُصولی باتیں کہنا چاہتے تھے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ پہلے اِنکار، اب تیار، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے!اصل میں جب اٹارنی صاحب نے کہا کہ مولانا انصاری سوال کریں گے تو جواب آںغزل میں مرزا ناصر نے کہا کہ میرا بھی نمائندہ جواب دے گا، اس رعونت کو جب قبول نہ کیا گیا تو اسی تنخواہ پر خود راضی ہوگئے۔۔۔!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ