کاش ہم بھی درسِ عبرت حاصل کریں
بسا اوقات کوئی دل سوز تقریر، نصیحت آمیز واقعہ اورکوئی چبھتاہوا جملہ انسان کی زندگی میں ایسے گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے جو رفتارِ زمانہ اور مرورِ ایام کے باوجود بھی باقی رہتے ہیں؛ بلکہ وہی واقعہ اور جملہ اس کی زندگی کا رخ متعین کردیتا ہے، اس کی شخصیت کی تعمیر و تزئین اوراس کے موقف کی تعیین کرتا ہے، نتیجتاً ایک دن اُس کے سامنے یہ حقیقت آشکاراہوجاتی ہے کہ اگر اُس تقریر، واقعے اور اس جملے کے انمٹ نقوش اس کی ذات میں نہ ہوتے تو اس کی وہ حیثیت نہ ہوتی جو اِس وقت ہے اور نہ ہی وہ اُن کارناموں کو عملی جامہ پہناپاتا جس کی اسے توفیق ملی۔
کسی رسالے میں ایک واقعہ پڑھا تھا کہ فارسی کے مشہور شاعر مرزا قتیل (بے دل) نے ایک عارفانہ نظم لکھی جو کسی طرح ایران پہنچ گئی، وہاں ایک صاحب بہت متاثر ہوئے اور باقاعدہ مرزا صاحب کی زیارت و ملاقات کے لیے ہندوستان آئے، جب مرزا صاحب کے دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ مرزا صاحب داڑھی منڈارہے ہیں، انھوں نے حیرت و استعجاب سے عرض کیا: ”آغاریش می تراشی“ (جناب! آپ بھی داڑھی منڈاتے ہیں) مرزا صاحب نے شوخی سے جواب دیا: ”بلے ریش می تراشم، دل کسے نمی تراشم“ (ہاں! داڑھی تراشتا ہوں کسی کا دل نہیں دکھاتا ہوں) بے دِل صاحب کے مخاطب بھی صاحبِ دل ہی تھے، نہایت عاجزی و انکساری اور درمندی سے ”بے دِل“ سے مخاطب ہوئے اور بولے: ”ہاں، ہاں! آپ کسی کا دل نہیں دکھاتے لیکن داڑھی منڈاکر اور سنتِ رسول کو ڈھاکر اپنے پیارے رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر آرے ضرور چلاتے ہیں۔“
دل سے نکلی ہوئی یہ بات ”بے دل“ کے ”دل“ پر گری، لیکن بجلی بن کر نہیں، ابررحمت بن کر، اور انھیں پانی پانی کرگئی، حاضر جوابی اور شوخی کی جگہ ندامت و شرمندگی نے لے لی، اوراس نے بے دِل کو ایسا ”بیکل“ کردیاکہ داڑھی نہ منڈانے کا فیصلہ کئے بغیر انھیں چین نہ آیا، فوراً گناہ کااقرار کرتے ہوئے گویاہوئے:
جزاک اللہ چشمم باز کردی مرا با جانِ جاں ہم راز کردی
اللہ تمہیں جزائے خیر دے تم نے میری آنکھیں کھول دیں اور مجھے محبوب سے باخبر کردیا۔
ایک جملے نے ان کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا، دل کی دنیاہی بدل ڈالی اور ان کی زندگی میں ایسے گہرے نقوش ثبت کردئیے جو خود ان کے لیے بھی باعثِ سعادت بنے اور دوسروں کے لیے درسِ عبرت ہیں۔
آؤ تھوڑی دیر کے لیے دل پر پتھر رکھ کر سوچیں، تصور کریں کہ ہمارے اعمال بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہیں، اعمال کی اس گٹھری میں کیا کچھ نہیں ہے، جھوٹ، غیبت، بہتان، چغلی، حسد، خیانت، بغض، عداوت، بہتان تراشی، دل آزاری، بددیانتی، ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی، ایذا رسانی سب کچھ ہے، نہ امر بالمعروف کی فکر، نہ نہی عن المنکر سے کوئی واسطہ، نہ دل میں خدا کا خوف،نہ عمل میں کوئی احتیاط، فواحش و منکرات کے رسیا، طاعات و عبادات سے بیزار، نہ ہماری زبانوں سے کوئی محفوظ، نہ ہمارے ہاتھوں سے کوئی مامون، حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد، دونوں کی حق تلفی اور دونوں شکوہ سنج ان کرتوتوں کا احاطہ کیوں کرممکن ہو اور ان کے بیان کی تاب قلم کہاں سے لائے؟ علامہ اقبال نے ہمارے انھیں کرتوتوں کانقشہ یوں کھینچا ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں یہود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں ہنود
یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
واقعہ بھی یہی ہے سب کچھ ہونے کے باوجود ہم حقیقی اسلام سے کوسوں دور ہیں، وہ اسلام جو ظاہر و باطن میں یکسانیت کا تقاضا کرتا ہے، جو زبان وہاتھ سے بھی دوسروں کو ایذارسانی کی اجازت نہیں دیتا، وہ اسلام جو چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی تعظیم کا حکم دیتاہے، وہ اسلام جو ناداروں، یتیموں اور مسکینوں کی دیکھ ریکھ اوران کے دکھ درد میں شرکت کا حکم دیتا ہے، وہ اسلام جو بھوکوں کو کھاناکھلانے، سلام کو عام کرنے، نیکی پھیلانے اور برائیوں سے روکنے کا حکم دیتاہے، وہ اسلام جو راستے سے بھی تکلیف دہ چیز کے دور کرنے کا حکم دیتا ہے، وہ اسلام جو اپنے ماننے والوں کو مساوات اور اتحاد و اتفاق کی تعلیم دیتا ہے، وہ اسلام جو امن و سلامتی اور زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کو انسانیت کی تعلیم دیتاہے۔ آج ہمارے اندر اِسی حقیقی اسلام کی کمی ہے۔
چنانچہ جب ہم اپنے معاشرے کاجائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جن کا اسلام صرف نماز تک محدود ہے، اور دوسرے کچھ لوگوں کا حال یہ ہے کہ نماز کے سات کچھ اور بھی دینی کام انجام دے لیتے ہیں لیکن جب تقریبات اور رنج وغم کے مواقع میں اسلامی قانون بتایا جاتا ہے اور تجارت و معیشت کے احکام سنائے جاتے ہیں تو کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں اور منکر ہوجاتے ہیں، اور احکامِ اسلام پر عمل کرنے سے جی چراتے ہیں؛ بلکہ بعض تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے روزی کا معاملہ ہے (گویا روزی کمانے کے بارے میں اسلام کا کوئی قانون ہی نہیں) العیاذ باللہ ۔