(کسی احمدی لڑکی کی شادی غیراحمدی سے ہوسکتی ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، تو آپ کو اس پر کوئی اِعتراض نہیں ہے کہ اگر کسی احمدی لڑکی کی شادی کسی غیراحمدی مسلمان سے ہو؟
جناب عبدالمنان عمر: محض اس بنیاد پر، کیونکہ شادیوں میں آپ جانتے ہیں کہ بہت سے خیالات، بہت سی چیزیں کفو کے سلسلے میں دیکھنی پڑتی ہیں۔ اس لئے یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، یہ کوئی دِینی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک سوشل مسئلہ ہے۔ جیسے ہم اور آپ شادیوں کے موقع پر اور بہت سی باتیں دیکھتے ہیں، اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کسی ایسی جگہ شادی نہ ہو کہ جس میں اُن کے گھریلو تعلقات، میاں اور بیوی کے، محض مذہبی عقائد کی وجہ سے خراب ہوجائیں۔ اس نقطئہ نگاہ سے تو ہم ضرور دیکھیں گے اور یہ ہر شخص کا اِنفرادی فعل ہوگا۔ لیکن اس لئے وہ مرزا صاحب کو نہیں مانتا، اور یہ اتنا بڑا جرم اُس کا ہوگیا، اُس وجہ سے شادی مت کرو، یہ Stand نہیں ہے ہمارا اور بہت سے 1614اس وقت بھی بہت سے ہمارے سرکردہ لوگ ہیں، اُن کی شادیاں جو ہیں وہ ایسے گھرانوں میں ہوئی ہیں جو مرزا صاحب کے ماننے والے نہیں ہیں، اُن کی لڑکیاں ایسے گھرانوں میں آئی ہیں، جو مرزا صاحب کو ماننے والے ہیں۔ تو یہ چیز مذہبی نقطئہ نگاہ سے نہیں ہے۔
اب لیجئے سوشل تعلقات میں سے جنازہ وغیرہ، اب رہ گیا جنازہ وغیرہ۔ یہ بھی ایک ٹھیک ہے، مذہبی حصہ ہے، لیکن اس کا بہت سا سوشل حصہ ہے۔ تو اس کے متعلق میں آپ کو گزارش کروں گا کہ مرزا صاحب کا اور ہماری جماعت کا موقف یہ ہے کہ ہم لوگ ۔۔۔۔۔۔ میں ایک خط کا فوٹواسٹیٹ آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور یہ لکھنے والا شخص اس جماعت کا بہت بڑا اِنسان یعنی مولانا نورالدین ہے، اور وہ الفاظ اپنے نہیں لکھتا بلکہ مرزا صاحب کا لکھتا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’جو مخالف نہیں اور شرارت نہیں کرتے اور للہ الکریم نماز پڑھتے ہیں اُن کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔‘‘ یہ الفاظ حضرت مرزا صاحب کے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ یہ میں نے مرزا صاحب کا ایک خط پیش کیا ہے۔