(کفر سے کیا مراد ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ کی توجہ کچھ مرزا صاحب کے Followers (پیروکاروں) کی طرف دِلاؤں گا۔ پیشتر اس کے، کچھ سوال ایسے نہیں کہ ان کا اگر جواب دے دیں تو پھر آسانی ہوجائے گی۔ ’’کفر‘‘ سے کیا مراد ہے؟ میں آپ سے Simple (آسان) پوچھا ہوں کہ ’’اِنکار کرنے والا‘‘؟
1538جناب عبدالمنان عمر: جی، میں عرض کرنے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں سمجھتا ہوں، بے شک مطلب تو یہی ہے ناں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں عرض کرتا ہوں۔ ’’کفر‘‘ کے لفظ کو دو طرح اِستعمال کیا گیا ہے اِسلامی لٹریچر میں، اور یہی دو طرز کا اِستعمال مرزا صاحب کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اِرادۃً تارک الصلوٰۃ ہوجائے، وہ کافر ہوتا ہے۔ لیکن اس کو اِصطلاحی کفر نہیں کہتے۔ اِصطلاح میں جو اس کے لئے لفظ ہے، مجھے معاف کیجئے گا، وہ ہے ’’کفر دُون کفر‘‘ عربی کے الفاظ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رہتا تو اِنسان دائرۂ اسلام کے اندر ہے، لیکن حقیقی طور پر وہ مسلمان نہیں ہوتا۔ اس کی جو رُوح ہے اسلام کی، اس پر پوری طرح وہ شخص کاربند نہیں ہوتا۔ ان معنوں میں بھی ’’کفر‘‘ کا لفظ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: گنہگار ہوگیا ایک قسم۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ لیکن ’’کفر‘‘ کا جو حقیقی اِستعمال ہے، اس کے جو حقیقی معنے ہیں، وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص محمد مصطفیﷺ کی رسالت سے اور کلمہ طیبہ لا اِلٰہ اِلَّا اللہ سے منکر ہوجائے۔ اصل میں اِصطلاحاً کفر صرف اور صرف ان معنوں میں اِستعمال ہوسکتا ہے۔