(ہم اس کے مذہب کو کھا جائیں گے)
ایک سوال تھا ’’الفضل‘‘۱۶؍جولائی ۱۹۴۹ئ: ’’یہ گھبراتے ہیں…‘‘ یہ ہے، اس طرح آگے چلتا ہے اور پھر آخر میں ہے: ’’ہم اس کے مذہب کو کھاجائیں گے۔‘‘
یہ سوال تھا کہ گویا کہ مسلمان فرقوں کو یہ کہا گیا ہے۔ ۱۶؍ جولائی ۱۹۴۹ء میں ایسا کوئی مضمون نہیں۔لیکن جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ آگے پیچھے دیکھیں گے، جہاں تک ممکن ہوا، ۲۵؍ جولائی ۱۹۴۹ء ۔ میں ایک مضمون ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ سے--- یعنی ’’۱۶‘‘ کی بجائے ۲۵؍ جولائی، ۱۹۴۹ئ۔ اگر اجازت ہو تو اس سوال کرنے پر میں شکریہ بھی ادا کردوں، کیونکہ بڑی اچھی چیز سامنے آئے گی، سب کے ۔ یہ اس کے اقتباس ہیں، ۲۵ جولائی والے کے:
’’اللہ کی طرف سے جب بھی دنیا میں کوئی آواز بلند کی جاتی ہے دنیا کے لوگ اس کی ضرور مخالفت کرتے ہیں۔ بغیر مخالفت کے خدائی تحریکیں دنیا میں کبھی جاری نہیں ہوئیں۔ خدائی تحریک جب بھی دنیا میں جاری کی جاتی ہے، اس کے متعلق بلاوجہ اور بلاسبب لوگوں میں بغض اور کینہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اتنا بغض اور کینہ کہ اسے دیکھ کر حیرت آجاتی ہے ایک مسلمان کو…‘‘
اب وہ جو ہے سوال: ’’ایک مسلمان کو محمد رسول اللہﷺ سے جو محبت ہے اس کو الگ کرکے، اسے آپﷺ سے جو عقیدت ہے اسے بھلاکر، اگر صرف آپﷺ کی ذات بابرکات کو دیکھا جائے تو آپﷺ کی ذات انتہائی بے شر، انتہائی بے نقص اور دنیا کے لئے نہایت ایثار اور قربانی کرنے والی معلوم ہوتی ہے۔ آپﷺ اپنی 867ساری زندگی میںکسی ایک شخص کا بھی حق مارتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ آپﷺ کسی جگہ دنگا اور فساد میںمشغول نظر نہیں آتے۔ لیکن قریباً پونے چودہ سو سال کا عرصہ ہوچکا، دشمن آپ کی مخالفت کرنے اور آپ کے متعلق بغض اور کینہ رکھنے سے باز نہیں آتا۔ جو شخص بھی اٹھتا ہے اور مذہب پر کچھ لکھنا چاہتاہے، وہ فوراً آپﷺ کی ذات پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ اس کا بھی یا تو کوئی جسمانی سبب ہوگا یا روحانی سبب ہوگا۔ رسول کریمﷺ کی مخالفت کا کوئی جسمانی سبب تو نظر نہیں آتا…‘‘
آگے جسمانی سبب کے اوپر کچھ نوٹ دیا ہوا ہے، اور وہ میں نے چھوڑدیا ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ: ’’اس کی کوئی روحانی وجہ ہونی چاہئے، اس کی کوئی روحانی وجہ ہے اور وہ صرف یہی ہے کہ رسول کریمﷺ کے مخالفین کے دل محسوس کرتے ہیں کہ اسلام ایک صداقت ہے، اگر اسے روکا نہ گیا تو یہ صداقت پھیل جائے گی اور انہیں مغلوب کرلے گی۔ یہی ایک چیز ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو محمد رسول اللہﷺ کی ذات سے سخت دشمنی ہے۔ اس مخالفت کے باقی جتنے بھی وجوہ بیان کئے جاتے ہیں وہ آپ سے زیادہ شان کے ساتھ دوسرے نبیوں میں موجود ہیں۔ اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ اس دشمنی کی وجہ لڑائی اور جھگڑا نہیں بلکہ ایک روحانی چیز ہے جس کی وجہ سے یہ دشمنی پیدا ہوگئی ہے اور وہ یہی ہے کہ اسلام ایک حقیقت رکھنے والا مذہب ہے، اسلام غالب آجانے والا مذہب ہے، اسلام دوسرے مذاہب کو کھاجانے والامذہب ہے۔ اسے دیکھ کر مخالفین کے کان فوراً کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ مقابلہ کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔‘‘
868’’تو کھاجانے والا‘‘اپنا نہیں کہا، بلکہ اسلام کے متعلق ساری بات ہورہی ہے اور فرما یہ رہے ہیں کہ ’’اسلام دوسرے مذاہب کو کھاجانے والا مذہب ہے۔‘‘ اور سوال یہ پوچھا گیا کہ گویا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ کہا ہے کہ ’’ہم تمہیں کھاجائیں گے۔‘‘ آگے اور ایک اقتباس جو اس کو Complete (مکمل) کرتاہے: ’’یہ لوگ چونکہ محمد رسول اللہﷺ کا شکار ہیں۔ یہ لوگ چونکہ محمد رسول اللہﷺ کا شکار ہیں، اس لئے وہ آپﷺ کے مخالف ہوگئے ہیں اور یہی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے لوگ آپﷺ کے دشمن ہیں اور اگر یہی وجہ ہے تو یہ بات ہمارے لئے غم کا موجب نہیں ہونی چاہئے، بلکہ خوشی کا موجب ہونی چاہئے۔ لوگ گھبراتے ہیں کہ مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔ لوگ جھنجھلااٹھتے ہیں کہ ان کی عداوت کیوں کی جاتی ہے۔ لوگ چڑتے ہیں کہ انہیں دکھ کیوں دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر گالیاں دینے اور دکھ دینے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ہمارا (یعنی اسلام کا) شکار ہیں تو پھر ہمیں گھبرانانہیں چاہئے اور نہ کسی قسم کا فکر کرنا چاہئے، بلکہ ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ دشمن یہ محسوس کرتا ہے (دشمن اسلام)کہ اگر ہمیں کوئی نئی حرکت پیدا ہوئی تو اس کے مذہب کو کھاجائیں گے۔‘‘
تو سارا یہ بیان جو ہے نبیﷺ کے متعلق ہے۔