(۱۸۵۷ء غدر کے متعلق)
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، جوابات بہت ہیں۔ (Pause)
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! یہ جو ۱۹۴۹ء کا خطبہ ہے اس کی ایک کاپی یہاں فائل کرادیں گے جی؟
مرزا ناصر احمد: میں دیکھتا ہوں، اگر Spare (فالتو) ہوگی تو ضرور۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں، بعد میں کرادیں جی۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔ ایک سوال تھا ۱۸۵۷ء کے غدر کے متعلق۔ تو وہ اس میں جو نوٹ ہم نے کہا ہے… اس میں یہ تو صرف لفظ نوٹ ہوسکتے ہیں: ’’چوروں اور قزاقوں کی طرح غدر کرنے والوں نے غدر کیا۔‘‘
تو اگر آپ پھر آپ … سوال ہو یہاں تو دہرادیں۔ میرے پاس جواب ویسے ہے۔ یہ میں پوچھ اس لئے رہا ہوں کہ جو حوالہ دیا گیا تھا اس میں ’’چوروں اور قزاقوں کی طرح‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ تو ویسے ، ویسے میںجواب دے دیتا ہوں۔ (اپنے وفد کے ایک رکن سے) مجھے دے دو۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! آپ کے پاس کیا ہے؟
874مرزا ناصر احمد: یہاں انہوں نے جو لکھا ہے ’’چوروں اور قزاقوں…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ’’…اور حرامیوں…‘‘
مرزا ناصر احمد: ’’‘‘…قزاقوں کی طرح، حرامیوں کی طرح۔‘‘ (Pause)
غدر یا later on (بعد ازاں) تحریک آزادی کے نام سے ایک واقعہ ۱۸۵۸ء میں ہوا، ۱۸۵۷ء میں ہوا۔ یہ واقعہ اس سال سے کہیں پہلے کا ہے جس سال جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی ، اس کے متعلق اس زمانہ کے لوگوں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ ہمارے سامنے ہو تب ہم صحیح نیتجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ چنانچہ سنئے: سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں رسالہ ’’اشاعت السنۃ‘‘ جلد:۶،نمبر:۷، ۲۸۸ صفحے پر اہل حدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے اس میں لکھا ہے--- کہ : ’’مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے اصل معنی جہاد کے لحاظ سے --- اصل معنی جہاد کے لحاظ سے بغاوتِ ۱۸۵۷ء کو شرعی جہاد نہیں سمجھا (بلکہ اس کو کیا، سمجھا)بلکہ اس کو بے ایمانی، عہد شکنی، فساد، عناد خیال کرکے اس میں شمولیت اور اس کی معاونت کو معصیت ---گناہ قرار دیا۔‘‘
یہ مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی۔
خواجہ حسن نظامی صاحب معروف ایک ہستی ہیں، وہ فرماتے ہیں: ’’یہ اقرار کرنا قرین انصاف ہے کہ ہندوستانی فوج والوں اور دیسی باشندوں نے بھی غدر کے شروع میں سفاکی اور بے رحمی کو حد سے بڑھا دیا تھا اور ان کے ستم ایسے ہولناک تھے کہ ہر قسم کی سزا ان کے لئے جائز کہی جاسکتی ہے۔ انہوں نے بے کس عورتوں کو قتل کیا۔ انہوں نے حاملہ عورتوں کو ذبح کرنے سے دریغ نہ کیا۔ انہوں نے دودھ پیتے بچوں کو اچھالا اور سنگینوں کی نوکوں پر روک کر بے زبان معصومو875ں کو چھید ڈالا۔ وہ حاملہ عورتوں کے پیٹ میں تلواریں گھونپ دیتے تھے۔ غرض کوئی ظلم وستم ایسا نہ تھا جو ان کے ہاتھ سے انگریزوں اور ان کے بیوی بچوں پر نہ ٹوٹا ہو۔ ان کے شرمناک افعال نے تمام ہندوستان کو ہمیشہ کے لئے رحم وانصاف کی نظروں میں ذلیل کردیا۔ میرا سر شرم وندامت سے (یہ حسن نظامی صاحب ہیں) میرا سر شرم وندامت سے اونچا نہیں ہوتا جب میں اپنی قوم کی اس دردناک سفاکی کا حال پڑھتا ہوں جو اس نے دہلی شہر کے اندر ۱۱؍مئی ۱۸۵۷ء اور اس کے بعد کے زمانہ میں رو ا رکھی۔‘‘ (دہلی کی جان کنی ص۲۳، از خواجہ حسن نظامی)
انہوں نے خود لکھا ہے یہ۔
بہادر شاہ ظفر۔ بہادر شاہ ظفر نے ۹؍مارچ ۱۸۵۸ء کو دیوان خاص قلعہ دہلی میں عدالت کے سامنے جو تحریری بیان دیا اس میں لکھا کہ: ’’میں نے دو پالکیاں روانہ کیں اور حکم دے دیا کہ توپیں بھی بھیج دی جائیں۔ اس کے بعد میں نے سنا پالکیاں پہنچنے بھی نہ پائی تھیں کہ مسٹر فیزئیر، قلعہ دار اور لیڈیاں سب کے سب قتل کردیئے گئے۔ (اس سے) زیادہ دیر نہیںہوئی تھی کہ باغی سپاہ دیوان خاص میں گُھس آئی، عبادت خانہ میں بھی ہر طرف پھیل گئی اور مجھے چاروں طرف سے گھیر کر پہرہ متعین کردیا۔ یہ نمک حرام- یہ نمک حرام- کئی انگریز مرد اور عورت کو گرفتار کرکے لائے۔ ان کو انہوں نے میگزین میں پکڑا تھا اور ان کے قتل کا قصد کرنے لگے۔ آخری وقت اگرچہ میں مفسد بلوائیوں کو حتی المقدور باز رکھنے کی کوشش کرتا رہا، مگر انہوں نے میری طرف مطلق التفات نہیں کیا اور ان بے چاروں کو قتل کرنے باہر لے گئے۔ احکام کی نسبت معاملہ کی اصل حالت یہ ہے کہ جس روز سپاہ آئی، انگریزی افسروں کو قتل کیا اور مجھے قید کرلیا، میں ان کے اختیار میں رہا، میرا اپنا کوئی اختیار نہیں تھا۔ ‘‘
876یہ لکھنے والے ہیں ’’بہادر شاہ کا مقدمہ‘‘ از خواجہ حسن نظامی اور اس کے اوپر خواجہ حسن نظامی صاحب فرماتے ہیں کہ بہادر شاہ بادشاہ کے اپنے دستخط ہیں۔
سرسید احمد خاں: ’’غور کرنا چاہئے کہ اس زمانہ میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا، ایسے خراب اور بَد رویہ اور بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری کے اور تماش بینی اور ناچ اور رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا۔ بھلا یہ کیوں کر پیشوا اور مقتدا جہاد… کے گنے جاسکتے تھے؟ اس ہنگامے میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوئی… سب جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اور اسباب ، جو امانت تھا، اس میں خیانت کرنا، ملازمین کو نمک حرامی کرنامذہب کی رو سے درست نہ تھی۔ صریح ظاہر ہے کہ بے گناہوں کا قتل، علی الخصوص عورتوں اور بچوں اور بڈھوں کا، مذہب کے بموجب گناہ عظیم تھا۔ پھر کیوں کر یہ ہنگامہ غدر جہاد ہوسکتا تھا؟ ہاں، البتہ چند بدذاتوں نے دنیا کی طمع، اپنی منفعت اور اپنے خیالات کو پورا کرنے اور جاہلوں کے بہکانے کو ، اپنے ساتھ جمعیت کو جمع کرنے کو جہاد کا نام دے لیا۔ پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرام زدگیوں میں سے ایک حرام زدگی تھی، نہ واقعہ میں جہاد۔ مگر جب بریلی کی فوج دہلی پہنچی اور دوبارہ فتویٰ ہوا، جو مشہور ہوا اور جس میں جہاد کرنا واجب لکھا ہے، بلاشبہ اصلی نہیں۔ چھاپنے والے اس فتویٰ نے جو ایک مفسد اور نہایت قدیمی بدذات آدمی تھا…جاہلوں کے بہکانے اور ورغلانے کو لوگوں کے نام لکھ کر اور چھاپ کر اس کو رونق دی تھی، بلکہ ایک آدھ مہر ایسے شخص کی چھاپ دی تھی، جو قبل غدر مرچکا تھا۔‘‘ یہ ’’اسباب بغاوت ہند ‘‘ صفحہ ایک ہی ہے۔
877مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں: ’’عہد وایمان والوں سے لڑنا ہرگز شرعی جہاد…ملکی ہو خواہ مذہبی… نہیں ہوسکتا… عہد وایمان والوں سے لڑنا ہرگز شرعی جہاد نہیں ہوسکتا، بلکہ عناد وفساد کہلاتا ہے۔ مفسدہ ۱۸۵۷ء میں جو مسلمان شریک ہوئے تھے وہ سخت گنہگار ور بحکم قرآن وحدیث وہ مفسد وباغی کردار تھے… بدرکردار تھے… اکثر ان میں عوام کالانعام تھے۔ بعض جو خواص وعلماء کہلاتے تھے… وہ بھی اصل علومِ دین قرآن وحدیث سے بے بہرہ تھے یا نافہم وبے سمجھ۔‘‘ (رسالہ اشاعت السنۃج۹،نمبر۱۰ص۳۰۹-۳۱۰،۱۸۸۶ئ)
پھر نواب صدیق حسن خاں صاحب جو فرماتے ہیں وہ بھی سنئے۔ نواب صدیق حسن خاں صاحب نے کتاب ’’ہدایت السائل‘‘ اور دوسری متعدد کتابوں میں یہ لکھا ہے: ’’ہندوستان کے بلاد دارالسلام ہیں، نہ دار الحرب۔ برٹش گورنمنٹ سے ہندوستان کے تمام رؤسائ، رعایا کا ہمیشہ کے لئے معاہدہ دوستی ہوچکا ہے۔ لہٰذا ہندوستان کے کسی شخص کا برٹش گورنمنٹ سے جہاد کرنا اور اس معاہدہ کو توڑنا جائز نہیں ہے۔ جو غدر ۱۸۵۷ء میں برٹش گورنمنٹ سے مفسدوں نے سلوک کیا وہ فساد تھا، نہ جہاد۔‘‘
پھر شمس العلماء مولانا ذکاء اللہ خان صاحب فرماتے ہیں: ’’جب تک دہلی میں بخت خان نہیں آیا جہاد کے فتویٰ کا چرچہ شہر میں بہت کم تھا۔ یہ کام لچے شہدے مسلمانوں کا تھا کہ وہ ’’جہاد جہاد ‘‘پکارتے پھرتے تھے۔ مگر جب بخت خان ، جس کا نام اہل شہر نے کم بخت878 خان رکھا… دہلی میں آیا تو اُس نے یہ فتویٰ لکھایا۔ اس نے جامعہ مسجد میں مولویوں کو جمع کرکے جہاد کے فتویٰ پر دستخط ومہریں ان کی کرالیں اور مفتی صدرالدین نے بھی ان کے جبر سے… اپنی جعلی مہر کردی۔ لیکن مولوی محبوب علی وخواجہ ضیاء الدین نے فتویٰ پر مہریں نہیں دیں اور بے باکانہ کہہ دیا کہ شرائط جہاد موافقت مذاہب اسلام موجود نہیں۔ جن مولویوں نے فتویٰ پر مہریں کی تھیں وہ کبھی پہاڑی پر انگریزوں سے لڑنے نہیں گئے۔ مولوی نذیر حسین، جو وہابیوں کے مقتدا اور پیشوا تھے، ان کے گھر میں تو ایک میم چھپی بیٹھی تھی۔‘‘
یہ ’’تاریخ عروجِ عہد سلطنت انگلشتہ در ہند‘‘ حصہ سوئم ۶۷۵ اور ۶۷۶۔ یہ مولانا خان بہادر شمس العلماء محمد ذکاء اللہ صاحب کی تحریر ہے۔ اس … پس … ہاں، ایک اور رہ گیا۔
شیخ عبدالقادر صاحب، بڑی معروف ہستی ہیں، شیخ عبدالقادر صاحب، بی۔اے بیرسٹر ایٹ لائ، سیکرٹری شرافت کمیٹی، سیالکوٹ،اپنے رسالہ ’’ترکوں کے اپنوں پر فرضی مظالم‘‘ میں تسلیم کرتے ہیں کہ: ’’۱۸۵۷ء میںہندوستان میں غدر مچا۔اس غدر کو فرو کرنے کے لئے انگریزوں کی افواج کو مصر سے گزر کر ہندوستان پہنچنے کی اجازت۔ حضور خلیفہ المسلمین سلطان المعظم نے ہی دی تھی۔ جنوبی افریقہ میں جنگ بوئرز ہوئی۔ ترکوں نے انگلستان کا ساتھ دیا۔ ہزارہا ترکوں نے انگریزی جھنڈے کے نیچے لڑنے مرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کردیں۔ مساجد میں انگریزوں کی فتح اور نصرت کے لئے دعائیں کی گئیں۔‘‘
879اس پس منظر میں اس تحریر پر اعتراض کوئی وزن نہیں رکھتا، جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ بجز بدچلنی اور فسق وفجور اسلام کے رئیسوں کو اور کچھ یاد نہ تھا، جس کا اثر عوام پر بھی بہت پڑ گیا تھا۔ انہی ایام میں انہوںنے ایک ناجائز اور ناگوار طریقہ سے سرکار انگریزی سے باوجود نمک خوار اور رعیت ہونے کے مقابلہ کیا، حالانکہ ایسا مقابلہ اور ایسا جہاد ان کے لئے شرعاً جائز نہیں تھا۔‘‘
جو میں نے پہلے حوالے پڑھے ہیں، اس کے مقابلہ میں یہ بہت ہی نرم حوالہ ہے، اور کوئی اس کے اوپر اعتراض نہیں(اپنے وفد کے ایک رکن سے) اور بھی ہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: آپ کے پاس اور ہیں ابھی؟
مرزا ناصر احمد: جی، جی۔
جناب یحییٰ بختیار: میں بعد میں سوال کروں گا آپ سے۔
مرزا ناصر احمد: جی، جی۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ صرف وہ پڑھ لیجئے۔
مرزا ناصر احمد: جی۔
ایک یہ ایک سوال تھا ’’تبلیغ رسالت‘‘ جلد نہم۔ وہ ، وہ ’’جہنمیوں ‘‘ کے متعلق۔ وہ صرف ایک ہی سوال ہے، ایک ہی عبارت کے متعلق۔ وہ دوبارہ آگیا تھا۔ پہلے میں اس کا جواب دے چکا ہوں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک سوال ہے’’سیرت الابدال‘‘ ایک کتاب ہے، اس کے صفحہ:۱۵۳ پر …۹۳ پر… Hundred and ninty three (۱۹۳) پر … اس صفحے پر کوئی عبارت کے متعلق ایک اعتراض ہے۔ تو اگر وہ عبارت … وہ نوٹ نہیں ہم کرسکے… وہ عبارت اگر پڑھ دی جائے، صفحہ:۱۹۳ کی، تو زیادہ اچھا ہے۔ ورنہ میں اس کے بغیر جواب دے دیتا ہوں۔
880جناب یحییٰ بختیار: یہ کونسی کتاب ہے؟
مرزا ناصر احمد: (سیرت الابدال ص۱۹۳) پر کوئی عبارت ہے، جس کے متعلق سوال کیا گیا تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ اگلے سوال کا جواب دے دیں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میں اسی کا جواب دے دیتا ہوں۔ پھر اور کوئی ضرورت پڑے تو آپ سپلیمنٹری میں کردیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ’’سیرت الابدال‘‘ جو کتاب ہے اس کے صرف سولہ صفحے ہیں تو ان سولہ صفحوں میں سے وہ کون سا ص۱۹۳ تلاش کیا گیا ہے جس پر اعتراض کیا گیا ہے؟ کتاب کے سارے صفحے ہی سولہ ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ کسی دوسرے Volume (جلد)کا ہوگا۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Madam Deputy Speaker (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi)]
(اس موقع پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
----------
مرزا ناصر احمد: کسی Volume (جلد) میں بھی… ہم نے وہ چیک کیا۔ جو اکٹھے چھپی ہیں کئی کتابیں اکٹھی، اس Volume (جلد) میں بھی ۱۴۸ پر ختم ہوجاتی ہے، ایک سو چوالیس کے اوپر یہ ختم ہوجاتی ہے یہ کتاب۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ حوالہ ہے ہی نہیں؟
مرزا ناصر احمد: یہ صفحہ ہی کوئی نہیں۔ میں اب آتاہوں، میں جواب دیتا ہوں اسے۔ ۱۹۳ صفحہ ہی موجود نہیںکسی ایڈیشن میں بھی۔ یعنی جہاں اکٹھی کتابیں چھپی ہیں، یہ ہے۔ اکٹھی جو چھپی ہیں۔ ہمارے ’’روحانی خزائن‘‘ کے نام سے، اس میں ۱۲۹ سے یہ شروع ہوئی ہے کتاب، اور یہ881 یہاں ختم ہوگئی ۱۴۴ پر ۔ یہ وہ میں نے … یہ جلد ۲۰ ، اس میں بھی نہیں ہے۔ اچھا! رہے وہ ۱۶ صفحے جو کتاب میں ہیں تو اس میں وہ حوالہ نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں ہے بالکل؟
مرزا ناصر احمد: نہیں ہے۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے، ہم دیکھ لیں گے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، وہ دیکھ لیں۔ (Pause)
ایک سوال تھا قاضی محمد اکمل صاحب کی ایک نظم کے ایک شعر پر…
جناب یحییٰ بختیار: یہ سوال ختم ہوگیا ہے۔
مرزا ناصر احمد: وہ پہلا جو ہے ’’دافع البلائ‘‘ والا، وہ ختم ہوگیا؟
جناب یحییٰ بختیار: کونسا؟ نہیں جی، یہ اس پر آپ نے کہا کہ ’’نہیں، یہ بات کہی تھی کہ وہ … ان کو جماعت سے نکال دیتے۔‘‘ پھر آپ کے سامنے پڑھ کر سنایا گیا، یہ تو ختم ہوگیا تھا، اس کے بعد تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، اس میں کچھ حوالے اور ملے ہیں۔