۱۹۴۸ء کی جنگ کشمیر اور فرقان بٹالین
قیام پاکستان کے تیسرے مہینے اکتوبر ۱۹۴۷ء میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کا مطالبہ کیا اور ۱۹۴۸ء میں جنگ چھڑی تو قادیانی امت نے فرقان بٹالین کے نام سے ایک پلاٹون تیار کی جو جموں کے محاذ پر متعین کی گئی۔ اس سے پہلے اپنی طویل تاریخ میں مرزائیوں کو مسلمانوں کے کسی ابتلاء اور مصیبت میں حصہ لینے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ مگر آج وہ آزادیٔ کشمیر کے لئے فرقان بٹالین کے نام 2091سے جانیں پیش کرنے لگے۔ اس وقت پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل سرڈگلس گریسی تھے جو نہ تو کشمیر کی لڑائی کے حق میں تھے نہ پاکستانی فوج کو کشمیر میں استعمال کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ یہاں تک ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بعض جنگی معلومات بھارت کے کمانڈر انچیف جنرل سرآکسن لیگ تک پہنچاتے رہے۔ لیکن دوسری طرف وہی انگریز کمانڈر انچیف، پبلک سے تعلق رکھنے والی ایک آزاد فورس کو اس جنگ میں کھلی اجازت دیتا ہے۔ انہی جنرل گریسی نے بطور کمانڈر انچیف فرقان بٹالین کو داد وتحسین کا پیغام بھی بھیجا جو تاریخ احمدیت مؤلفہ دوست محمد شاہد قادیانی ص۶۷۴ اور نظارت دعوۃ وتبلیغ ربوہ کی شائع کردہ ٹریکٹ میں بھی ہے۔ فرقان فورس نے کشمیر کی اس جنگ کے دوران کیا خدمات انجام دیں۔ یہاں اس کے تفصیلات کی گنجائش نہیں۔ لیکن جب اس جہاد کے بعد اس تنظیم کے کارنامے خلوتوں اور جلوتوں میں زیربحث آنے لگے اور اخبارات میں کشمیری رہنماؤں اﷲ رکھا ساغر اور آفتاب احمد سیکرٹری جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے بیانات آئے۔ اس سے اس وقت کے فوجی سربراہوں اور حکومت میں کھلبلی مچ گئی۔ سردار آفتاب احمد کا اصل بیان یہ تھا: ’’اس فرقان بٹالین نے جو کچھ کیا اور ہندوستان کی جو خدمات سرانجام دیں مسلم مجاہدین کی جوانیوں کا جس طرح سودا چکایا اگر اس پر خون کے آنسو بھی بہائے جائیں تو کم ہیں جو سکیم بنتی ہندوستان پہنچ جاتی جہاں مجاہدین مورچہ بناتے دشمن کو پتہ چل جاتا جہاں مجاہدین ٹھکانا کرتے ہندوستان کے ہوائی جہاز پہنچ جاتے۔‘‘
(ٹریکٹ نظارت دعوت وتبلیغ انجمن احمدیہ ربوہ بحوالہ ٹریکٹ کشمیر اور مرزائیت)
الفضل ۲؍جنوری ۱۹۵۰ء ص۴ کالم۴ کے مطابق مرزابشیرالدین محمود نے ان بیانات اور تقریروں پر واویلا مچایا کہ اگر ہم غدار تھے تو حکومت نے ہمیں وہاں کیوں بٹھائے رکھا اور اس طرح اس وقت کی حکومت اور جنرل گریسی کی غداری کو بھی طشت ازبام کرانے کا سگنل مرزابشیرالدین نے دے دیا۔ چنانچہ اس وقت جنرل گریسی نے ایک تو فرقان فورس کو پراسرار اور فوری طور پر توڑ دیا اور دوسری طرف خود جنرل گریسی نے آفتاب احمد خان کے الزام کی تردید کی ضرورت محسوس کی۔ مگر 2092مرزابشیرالدین کے کہنے کے مطابق حکومت کے دباؤ سے الزام لانے والوں نے گول مول الفاظ میں تردید کر دی۔ مگر ایک ماہ ہوا کہ پھر وہی اعتراض شائع کر دیا۔
(ملاحظہ ہو الفضل ۲؍جنوری ۱۹۵۰ء ص۴، مرزابشیرالدین کی تقریر)
سوال یہ ہے کہ ایسے الزامات اگر غلط تھے تو اتنی جلدی میں فرقان فورس کو توڑ دینے کی ضرورت کیا تھی؟ اور یہ الزامات اگر غلط تھے تو الزام لگانے والے مدتوں برسرعام اس کو دہراتے چلے گئے۔ مگر اس وقت کی حکومت اور کمانڈر انچیف نے اس کی عدالتی انکوائری کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی۔ پاکستانی افواج کے ہوتے ہوئے متوازی فوج کیسے اور کیوں؟ یہ سوالات اب تک جواب طلب ہیں۔ مگر اس وقت آفتاب احمد صاحب سیکرٹری جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے کہے گئے یہ الفاظ اب بھی حقیقت کی غمازی کر رہے ہیں کہ مرزائی ۳۰سال سے (اور اب تو ۵۶سال) آزاد کشمیر کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔