(۱)…مسیلمہ کذاب
اسلام میں سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ ختم نبوت پر ہوا۔ جب کہ تمام مسلمانوں نے مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کے مقابلے میں خلافت صدیقیہ میں جہاد بالسیف کیا۔ چونکہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اپنے گرد ربیعہ قوم کی چالیس ہزار جماعت جمع کر دی تھی۔ تمام صحابہ کرامؓ انصار ومہاجرین نے اس سے جہاد کرنے پر اتفاق کیا اور ہزاروں صحابہؓ نے جام شہادت نوش کر کے مسیلمہ کذاب کی جھوٹی نبوت کا قلعہ مسمار کر دیا۔ نیز مسیلمہ کذاب کے علاوہ دوسرے مدعیان نبوت کے ساتھ بھی جہاد کیاگیا اور ہمیشہ کے لئے اہل اسلام کو عملی طور سے یہ تعلیم دی گئی کہ اسلام کا منشاء ہی یہی ہے کہ ان کے حدود اقتدار میں کوئی شخص دعویٰ نبوت نہیں کر سکتا اور یہ دعویٰ کفر صریح اور موجب جہاد ہے۔ چنانچہ بعد کے کسی زمانے میں بھی جس کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کے دعویٰ کو برداشت نہیں کیاگیا۔ بلکہ اس کو سخت سزا دی گئی۔ کسی وقت کسی حاکم اور کسی عالم نے 2391مدعی نبوت سے یہ دریافت نہیں کیا کہ تمہارا دعویٰ کس قسم کی نبوت کا ہے۔ نبوت مستقلہ ہے یا غیرمستقلہ۔ تشریعی یا غیرتشریعی۔ مستقل نبی یا غیرمستقل، تابع نبی یا امتی نبی ہونے کا۔ بلکہ اس کا دعویٰ نبوت ہی اس کے مجرم ہونے کے لئے کافی تھا۔
اس وقت سے یہ تفریق کسی کے ذہن میں نہ تھی کہ بروزی نبی آسکتے ہیں یا تشریعی یا غیرمستقل یا تابع نبی یا امتی نبی۔ یہ سب الفاظ دعویٰ نبوت کو ہضم کرنے کے لئے ہیں۔ جس کو امت نے تیرہ سو سال تک ناقابل برداشت قرار دیا اور ہر دور کی اسلامی حکومت نے ان کو سزائے موت دی۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi)]
(اس موقع پر مسٹر چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
مولانا عبدالحکیم: