1885محرکین قرارداد
- دستخط مولوی مفتی محمود
- ؍؍ مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری
- ؍؍ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی
- ؍؍ پروفیسر غفور احمد
- ؍؍ مولانا سید محمد علی رضوی
- ؍؍ مولانا عبدالحق (اکوڑہ خٹک)
- ؍؍ چوہدری ظہور الٰہی
- ؍؍ سردار شیر باز خان مزاری
- ؍؍ مولانا محمد ظفر احمد انصاری
- ؍؍ جناب عبدالحمید جتوئی
- ؍؍ صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری
- ؍؍ جناب محمود اعظم فاروقی
- ؍؍ مولانا صدر الشہید
- ؍؍ مولوی نعمت اﷲ
- ؍؍ جناب عمرہ خاں
- ؍؍ مخدوم نور محمد
- ؍؍ جناب غلام فاروق
- ؍؍ سردار مولا بخش سومرو
- ؍؍ سردار شوکت حیات خان
- دستخط حاجی علی احمد تالپور
- ؍؍ راؤ خورشید علی خان
- ؍؍ رئیس عطاء محمد خان مری
- ؍؍ نوابزادہ میاں محمد ذاکر قریشی
- ؍؍ جناب غلام حسن خاں دھاندلا
- ؍؍ جناب کرم بخش اعوان
- ؍؍ صاحبزادہ محمد نذیر سلطان
- ؍؍ مہر غلام حیدر بھروانہ
- ؍؍ میاں محمد ابراہیم برق
- ؍؍ صاحبزادہ صفی اﷲ
- ؍؍ صاحبزادہ نعمت اﷲ خان شنواری
- ؍؍ ملک جہانگیر خان
- ؍؍ جناب عبدالسبحان خان
- ؍؍ جناب اکبر خاں مہمند
- ؍؍ میجر جنرل جمالدار
- ؍؍ حاجی صالح خاں
- ؍؍ جناب عبدالمالک خان
- ؍؍ خواجہ جمال محمد کوریجہ
الحمدﷲ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ خاتم النّبیین وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین وعلیٰ من تبعہم باحسان الیٰ یوم الدین
اسلام کی بنیاد توحید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدے پر ہے، وہ یہ ہے کہ نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہوگئی اور آپﷺ کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں بن سکتا اور نہ آپﷺ کے بعد کسی پر وحی آسکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو۔ اسلام کا یہی عقیدہ ’’ختم نبوت‘‘ کے نام سے معروف ہے اور سرکار دوعالمﷺ کے وقت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کسی ادنیٰ اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزو ایمان قرار دیتی آئی ہے۔ قرآن کریم کی بلامبالغہ بیسیوں آیات اور آنحضرتﷺ کی سینکڑوں احادیث اس کی شاہد ہیں۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہے اور اس موضوع پر بے شمار مفصل کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
یہاں ان تمام آیات اور احادیث کو نقل کرنا غیرضروری بھی ہے اور موجب تطویل بھی۔ البتہ یہاں جس چیز کی طرف بطور خاص توجہ دلانا ہے وہ یہ ہے کہ سرکار دوعالمﷺ نے عقیدہ ختم نبوت کی سینکڑوں مرتبہ توضیح کے ساتھ یہ پیشگی خبر بھی دی تھی کہ:
لا تقوم الساعۃ حتیٰ یبعث دجالون کذابون قریباً من ثلاثین کلہم یزعم انہ رسول اﷲ۰
(صحیح بخاری ج۲ ص۱۰۵۴، کتاب الفتن، صحیح مسلم ج۲ ص۳۹۷، کتاب الفتن)
’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تیس کے لگ بھگ دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں۔ جن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اﷲکا رسول ہے۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا تھا کہ:
انہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلہم یزعم انہ نبی، وانا خاتم النّبیین لا نبی بعدی۰
(ابوداؤد ج۲ ص۱۲۷، باب الفتن، ترمذی ج۲ ص۴۵، ابواب الفتن)
1887’’قریب ہے میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النّبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس حدیث میں آپﷺ نے اپنے بعد پیدا ہونے والے مدعیان نبوت کے لئے ’’دجال‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس کے لفظی معنی ہیں، ’’شدید دھوکہ باز‘‘ اس لفظ کے ذریعہ سرکار دوعالمﷺ نے پوری امت کو خبردار فرمایا ہے کہ آپﷺ کے بعد جو مدعیان نبوت پیدا ہوں گے وہ کھلے لفظوں میں اسلام سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے بجائے دجل وفریب سے کام لیں گے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے نبوت کا دعویٰ کریں گے اور اس مقصد کے لئے امت کے مسلمہ عقائد میں ایسی کتربیونت کی کوشش کریں گے جو بعض ناواقفوں کو دھوکے میں ڈال سکے۔ اس دھوکے سے بچنے کے لئے امت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ میں خاتم النّبیین ہوں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
چنانچہ آپﷺ کے ارشاد گرامی کے مطابق تاریخ میں آپﷺ کے بعد جتنے مدعیان نبوت پیدا ہوئے انہوں نے ہمیشہ اسی دجل وتلبیس سے کام لیا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے اپنے دعوائے نبوۃ کو چمکانے کی کوشش کی۔ لیکن چونکہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام قرآن کریم اور سرکار دوعالمﷺ کی طرف سے اس بارے میں مکمل روشنی پاچکی تھی۔ اس لئے تاریخ میں جب کبھی کسی شخص نے اس عقیدے میں رخنہ اندازی کر کے نبوت کا دعویٰ کیا تو اسے باجماع امت ہمیشہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ قرون اولیٰ کے وقت سے جس کسی اسلامی حکومت یا اسلامی عدالت کے سامنے کسی مذہبی نبوت کا مسئلہ پیش ہوا تو حکومت یا عدالت نے کبھی اس تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ وہ اپنی نبوت پر کیا دلائل وشواہد پیش کرتا ہے؟ اس کے بجائے صرف اس کے دعوائے نبوت کی بناء پر اسے کافر قرار دے کر اس کے ساتھ کافروں ہی کا سا معاملہ کیا۔ وہ مسیلمہ کذاب ہو یا اسود عنسی یا سجاح یا طلیحہ یا حارث یا دوسرے مدعیان نبوت، صحابہ کرامؓ نے ان کے کفر کا فیصلہ کرنے سے پہلے کبھی یہ تحقیق نہیں فرمائی کہ وہ عقیدہ ختم نبوت میں کیا تاویلات کرتے ہیں۔ بلکہ جب ان کا دعوائے نبوت ثابت ہوگیا تو 1888انہیں باتفاق کافر قرار دیا اور ان کے ساتھ کافروں ہی کا معاملہ کیا۔ اس لئے کہ ختم نبوت کا عقیدہ اس قدر واضح، غیرمبہم ناقابل تاویل اور اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہے کہ اس کے خلاف ہر تاویل اسی دجل وفریب میں داخل ہے جس سے آنحضرتa نے خبردار کیا تھا۔ کیونکہ اگر اس قسم کی تاویلات کو کسی بھی درجے میں گوارا کر لیا جائے تو اس سے نہ عقیدۂ توحید سلامت رہ سکتا ہے نہ عقیدۂ آخرت اور نہ کوئی دوسرا بنیادی عقیدہ۔ اگر کوئی شخص عقیدہ ختم نبوت کا مطلب یہ بتانا شروع کر دے کہ تشریعی نبوت تو ختم ہوچکی لیکن غیرتشریعی نبوت باقی ہے تو اس کی یہ بات بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ عقیدۂ توحید کے مطابق بڑا خدا تو صرف ایک ہی ہے۔ لیکن چھوٹے چھوٹے معبود اور دیوتا بہت سے ہوسکتے ہیں، اور وہ سب قابل عبادت ہیں۔ اگر اس قسم کی تاویلات کو دائرہ اسلام میں گوارا کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کا اپنا کوئی عقیدہ، کوئی فکر، کوئی حکم اور کوئی اخلاقی قدر متعین نہیں ہے۔ بلکہ (معاذ اﷲ) یہ ایک ایسا جامہ ہے جسے دنیاکا بدتر سے بدتر عقیدہ رکھنے والا شخص بھی اپنے اوپر فٹ کر سکتا ہے۔ لہٰذا امت مسلمہ قرآن وسنت کے متواتر ارشادات کے مطابق اپنے سرکاری احکام، عدالتی فیصلوں اور اجتماعی فتاویٰ میں اسی اصول پر عمل کرتی آئی ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد جس کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا، خواہ وہ مسیلمہ کذاب کی طرح کلمہ گو ہو، اسے اور اس کے متبعین کو بلاتامل کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ چاہے وہ عقیدہ ختم نبوت کا کھلم کھلا منکر ہو، یامسیلمہ کی طرح یہ کہتا ہو کہ آپﷺ کے بعد چھوٹے چھوٹے نبی آسکتے ہیں۔ یا سجاح کی طرح یہ کہتا ہو کہ مردوں کی نبوت ختم ہوگئی اور عورتیں اب بھی نبی بن سکتی ہیں، یا مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح اس بات کا مدعی ہوکہ غیرتشریعی ظلی اور بروزی اور امتی نبی ہوسکتے ہیں۔
امت مسلمہ کے اس اصول کی روشنی میں جو قرآن وسنت اور اجماع امت کی رو سے قطعی طے شدہ اور ناقابل بحث وتاویل ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے مندرجہ ذیل دعوؤں کو ملاحظہ فرمائیے:
’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
1889’’میں رسول اور نبی ہوں، یعنی باعتبار ظلّیت کاملہ کے، میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔‘‘
(نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱ حاشیہ)
’’میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)
’’میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیش گوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے، کیونکر انکار کر سکتا ہوں اور جب کہ خود خداتعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو میں کیونکر رد کردوں یا اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰)
’’خداتعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم ہوں، میں شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں عیسیٰ ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں اور آنحضرتﷺ کے نام کا میں مظہر اتم ہوں۔ یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘
(حاشیہ حقیقت الوحی ص۷۳، خزائن ج۲۲ ص۷۶)
’’چند روز ہوئے ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیاگیا۔ حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے۔ اس میں سے ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں۔ نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا بار، پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۱، خزائن ج۱۸ ص۲۰۶)
’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘
(اخبار بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
1890انبیاء گرچہ بودہ اندبسے
من بہ عرفان نہ کمترم زکسے
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
یعنی ’’انبیاء اگرچہ بہت سے ہوئے ہیں مگر میں معرفت میں کسی سے کم نہیں ہوں۔‘‘
یہ صرف ایک انتہائی مختصر نمونہ ہے۔ ورنہ مرزاغلام احمد قادیانی کی کتابیں اس قسم کے دعووؤں سے بھری پڑی ہیں۔