1893مرزاصاحب کا دعویٰ نبوت تشریعی
حقیقت تو یہ ہے کہ مرزاصاحب کے روزافزوں دعاوی کے دور میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا ہے جب انہوں نے غیرتشریعی نبوت سے بھی آگے قدم بڑھا کر واضح الفاظ میں اپنی وحی اور نبوت کو تشریعی قرار دیا ہے اور اسی بناء پر ان کے متبعین میں سے ظہیرالدین اروپی کا فرقہ انہیں کھلم کھلا تشریعی نبی مانتا تھا۔ اس سلسلہ میں مرزاصاحب کی چند عبارتیں یہ ہیں۔ اربعین نمبر۴ میں لکھتے ہیں: ’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے؟ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام
قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم ذلک ازکیٰ لہم
یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تیئس برس کی مدت گزر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے۔ جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ان ہذا لفی الصحف الاولیٰ صحف ابراہیم وموسیٰ یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر اور نہی کا ذکر ہو تو یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵،۴۳۶)
مذکورہ بالا عبارت میں مرزاصاحب نے واضح الفاظ میں اپنی وحی کو تشریعی وحی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ دافع البلاء میں مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
1894ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام تشریعی نبی تھے اور جو شخص آپ سے تمام شان میں یعنی ہر اعتبار سے بڑھ کر ہو تو وہ تشریعی نبی کیوں نہیں ہوگا؟ اس لئے یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ مرزاغلام احمد صاحب نے کبھی اپنی تشریعی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔
اس کے علاوہ مرزائی صاحبان عملاً مرزاصاحب، کو تشریعی نبی ہی قرار دیتے ہیں۔ یعنی ان کی ہر تعلیم اور ان کے ہر حکم کو واجب الاتباع مانتے ہیں۔ خواہ وہ شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا السلام کے خلاف ہو، چنانچہ مرزاصاحب نے اربعین نمبر۴ پر لکھا ہے: ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبیﷺ کے وقت میں بچوں اور بوڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے بچانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۳ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)
حالانکہ نبی کریمﷺ کا واضح اور صریح ارشاد موجود ہے کہ الجہاد ماض الیٰ یوم القیامۃ یعنی جہاد قیامت کے دن تک جاری رہے گا۔ مرزائی صاحبان شریعت محمدیہؐ کے اس صریح اور واضح حکم کو چھوڑ کر مرزاصاحب کے حکم کی اتباع کرتے ہیں۔ اس طرح شریعت محمدیہ میں جہاں خمس، فی ٔ، جزیہ اور غنائم کے تمام احکام جو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں سینکڑوں صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان سب میں مرزاصاحب کے مذکورہ بالا قول کے مطابق تبدیلی کے قائل ہیں۔ اس کے بعد تشریعی نبوت میں کون سی کسر باقی رہ جاتی ہے؟