1900آنحضرتﷺ ہونے کا دعویٰ
’’اور آنحضرتﷺ کے نام کا مظہر اتم ہوں یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘‘
(حاشیہ حقیقت الوحی ص۷۳، خزائن ج۲۲ ص۷۶)
’’میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔‘‘
(نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱ حاشیہ)
’’میں بموجب آیت واخرین منہم لما یلحقوا بہم بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے آنحضرتﷺ کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرتﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ہوں۔ پس اس طور سے خاتم النّبیین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمدﷺ کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی۔ یعنی بہرحال محمدﷺ ہی نبی رہا نہ اور کوئی۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرتﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۱۲)
ان الفاظ کو نقل کرتے ہوئے ہر مسلمان کا کلیجہ تھرائے گا۔ لیکن انہیں اس لئے نقل کیاگیا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ ہے خود مرزاصاحب کے الفاظ ’’ظلی‘‘ اور ’’بروزی‘‘ نبوت کی تشریح، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے مستقل بالذات نبوت کا دعویٰ لازم نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ جب اس ظل اور بروز کے گورکھ دھندے کی آڑ میں مرزاصاحب نے (معاذ اﷲ) ’’تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدی کے‘‘ اپنے دامن میں سمیٹ لئے تو اب کون سا نبی ایسا رہ گیا جس سے اپنی افضیلت ثابت کرنے کی ضرورت رہ گئی ہو؟ اس کے بعد بھی اگر ظلی بروزی نبوت کوئی 1901ہلکے درجے کی نبوت رہتی ہے اور اس کے بعد بھی عقیدہ ختم نبوت نہیں ٹوٹتا تو پھر یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ عقیدہ ختم نبوت (معاذ اﷲ) ایسا بے معنی عقیدہ ہے جو کسی بڑے سے بڑے دعویٰ نبوت سے بھی نہیں ٹوٹ سکتا۔