1942لاہوری جماعت کی وجوہ کفر
مذکورہ بالا تشریحات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت کے درمیان بنیادی عقائد کے اعتبار سے کوئی عملی فرق نہیں۔ فرق اگر ہے تو وہ الفاظ واصطلاحات اور فلسفیانہ تعبیروں کا فرق ہے اور ان کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ فرق لاہوری جماعت نے ضرور تہً اور مصلحتاً پیدا کیا ہے۔ اسی لئے ۱۹۱۴ء کے تنازعۂ خلافت سے پہلے اس کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ اب منقّح طور پر ان کے کفر کی وجوہ درج ذیل ہیں:
۱… قرآن وحدیث، اجماع امت، مرزاغلام احمد کے عقائد اور ذاتی حالات کی روشنی میں یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ مرزاغلام احمد ہرگز وہ مسیح نہیں جس کا قرب قیامت میں وعدہ کیاگیا ہے اور ان کو مسیح موعود ماننا قرآن کریم، متواتر احادیث اور اجماع امت کی تکذیب ہے۔ لاہوری مرزائی چونکہ مرزاغلام احمد کو مسیح موعود مانتے ہیں۔ اس لئے کافر اور دائرۂ اسلام سے اسی طرح خارج ہیں جس طرح قادیانی مرزائی۔
۲… مرزاغلام احمد قادیانی کا دعوائے نبوت قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس کو کافر کہنے کی بجائے اپنا دینی پیشوا قرار دینے والا مسلمان نہیں ہوسکتا۔
۳… پیچھے بتایا جاچکا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی سینکڑوں کفریات کے باوجود لاہوری جماعت اس بات کی قائل ہے کہ (معاذ اﷲ) وہ آنحضرتﷺ کا بروز تھا اور آنحضرتﷺ کی نبوت اس میں منعکس ہوگئی تھی اور اس اعتبار سے اسے نبی کہنا درست ہے، یہ عقیدہ دائرۂ اسلام میں کسی طرح نہیں کھپ سکتا۔
۴… دعوائے نبوت کے علاوہ مرزاغلام احمد قادیانی کی تصانیف بے شمار کفریات سے لبریز ہیں (جن کی کچھ تفصیل آگے آرہی ہیں) لاہوری جماعت مرزاصاحب کی تمام تحریروں کو حجت اور واجب الاطاعت قرار دے کر ان تمام کفریات کی تصدیق کرتی ہے۔ محمد علی لاہوری 1943صاحب لکھتے ہیں:
’’اور مسیح موعود کی تحریروں کا انکار درحقیقت مخفی رنگ میں خود مسیح موعود کا انکار ہے۔‘‘
(النبوۃ فی الاسلام ص۱۱۱، طبع دوم لاہور)
یہاں یہ واضح رہنا بھی ضروری ہے کہ اسلام میں ’’مجدد‘‘ کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ جب اسلام کی تعلیمات سے روگردانی عام ہوجاتی ہے تو اﷲتعالیٰ کا کوئی بندہ پھر سے لوگوں کو اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان مجدددین کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ نہ ان کی کسی بات کو شرعی حجت سمجھا جاتا ہے۔ نہ وہ اپنے مجدد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ لوگوں کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ انہیں ضرور مجدد مان کر ان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ لوگ انہیں مجدد کی حیثیت سے پہچان بھی جائیں۔ چنانچہ چودہ سو سالہ تاریخ میں مجددین کے ناموں میں بھی اختلاف رہا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص انہیں مجدد تسلیم نہ کرے تو شرعاً وہ گنہگار بھی نہیں ہوتا، نہ وہ اپنے تجدیدی کارنامے الہام کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں اور نہ ان کے الہام کی تصدیق شرعاً واجب ہوتی ہے۔ اس کے بالکل برخلاف لاہوری جماعت مرزاصاحب کے لئے ان تمام باتوں کی قائل ہے۔ لہٰذا اس کا یہ دعویٰ کہ ’’ہم مرزاصاحب کو صرف مجدد مانتے ہیں۔‘‘ مغالطے کے سوا کچھ نہیں۔
----------