1946قرآن کریم کی تحریف اور گستاخیاں
مرزاصاحب نے قرآن کریم میں اس قدر لفظی اور معنوی تحریفات کی ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ یہاں تک کہ اس شخص نے یہ جسارت بھی کی ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات جو صراحۃً آنحضرتﷺ کی شان میں نازل ہوئی تھیں۔ ان کو اپنے حق میں قرار دیا اور جو القاب اور امتیازات قرآن کریم نے سرکار دوعالمﷺ کے لئے بیان فرمائے تھے تقریباً سب کے سب اس نے اپنے لئے مخصوص کر لئے اور یہ کہا کہ مجھے بذریعہ وحی ان القاب سے نوازا گیا ہے۔ مثلاً مندرجہ ذیل آیات قرآنی۔
۱… ’’وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمن‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۲۳، خزائن ج۱۷ ص۴۱۰)
۲… ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحیٰ‘‘
(اربعین نمبر۲ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۴۲۶)
۳… ’’داعیاً الیٰ اﷲ باذنہ وسراجاً منیرا‘‘
(حقیقت الوحی ص۷۵، خزائن ج۲۲ ص۷۸)
۴… ’’قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ‘‘
(حقیقت الوحی ص۷۹، خزائن ج۲۲ ص۸۲)
۵… ’’ان الذین یبایعونک انما یبایعون اﷲ ید اﷲ فوق ایدیہم‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۰، خزائن ج۲۲ ص۸۳)
۶… ’ ’انا فتحنالک فتحاً مبیناً لیغفرلک اﷲ ماتقدم من ذنبک وما تأخر‘‘
(حقیقت الوحی ص۹۴، خزائن ج۲۲ ص۹۷)
۷… ’’یٰس والقرآن الحکیم انک لمن المرسلین‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۰۷، خزائن ج۲۲ ص۱۱۰)
۸… ’’انا ارسلنا الیکم رسولاً شاہداً علیکم‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۰۱، خزائن ج۲۲ ص۱۰۵)
۹… ’’ سورۂ انا اعطینک الکوثر ‘‘ کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ یہ سورت بطور خاص آنحضرتﷺ کا امتیاز بتانے کے لئے نازل ہوئی تھی اور اس میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا تھا کہ:
’’ہم نے آپﷺ کو کوثر عطاء کی ہے۔‘‘
لیکن مرزاصاحب نے اس سورت کو اپنے حق میں قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ انا شانئک ہو الابتر (بے شک آپ کا دشمن مقطوع النسل ہے) میں شانی ٔ یعنی بدگو اور دشمن سے مراد ان کا ایک ’’شقی، خبیث، بدطینت، فاسد القلب، ہندو زادہ، بدفطرت‘‘ مخالف یعنی نو مسلم سعد اﷲ ہے۔
(انجام آتھم ص۵۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
----------
1947[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi.)]
(اس موقعہ پر جناب چیئرمین صاحب نے صدارت چھوڑ دی۔ جسے ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
مولوی مفتی محمود:
۱۰… آنحضرتﷺ کے خصوصی اعزاز یعنی معراج کو بھی مرزا نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا کہ یہ میرے بارے میں کہاگیا ہے کہ:
’’ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ ‘‘
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گئی۔
(حقیقت الوحی ص۷۸، خزائن ج۲۲ ص۸۱)
۱۱… اسی معراج کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ:
’’ ثم دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنیٰ ‘‘
(حقیقت الوحی ص۷۶، خزائن ج۲۲ ص۷۹)
’’پھر قریب ہوا تو بہت قریب ہوگیا، دو کمانوں یا اس سے بھی قریب تر۔‘‘
مرزاغلام احمد نے یہ آیت بھی اپنی طرف منسوب کی ہے۔
۱۲… قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو آنحضرتﷺ کی تشریف آوری کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا تھا۔
’’ ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ اور میں ایک رسول کی خوشخبری دینے کے لئے آیا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد(ﷺ) ہوگا۔
مرزاغلام احمد نے انتہائی جسارت اور ڈھٹائی سے دعویٰ کیا کہ اس آیت میں میرے آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے اوراحمد سے مراد میں ہوں۔
(ازالہ اوہام ص۶۷۳، خزائن ج۳ ص۴۶۳)
چنانچہ مرزائی صاحبان اسی پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس آیت میں احمد سے مراد آنحضرتﷺ کے بجائے (معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ) مرزاغلام احمد ہے۔ قادیانیوں کے خلیفۂ دوم مرزا 1948بشیرالدین محمود نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ۲۷؍دسمبر ۱۹۱۵ء کو ایک مستقل تقریر کی جو انوار خلافت میں ان کی نظر ثانی کے بعد چھپی ہے۔ اس کے آغاز میں وہ کہتے ہیں:
’’پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آیا حضرت مسیح موعود کا نام احمد تھا۔ یا آنحضرتﷺ کا، اور کیا سورۂ صف کی آیت جس میں ایک رسول کی جس کا نام احمد ہوگا۔ بشارت دی گئی ہے۔ آنحضرتﷺ کے متعلق ہے۔ یا حضرت مسیح موعود کے متعلق؟ میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں۔ لیکن اس کے خلاف کہا جاتا ہے کہ احمد نام رسول کریمﷺ کا ہے اور آپ کے سوا کسی اور شخص کو احمد کہنا آپﷺ کی ہتک ہے۔ لیکن میں جہاں تک غور کرتا ہوں میرا یقین بڑھتا جاتا ہے اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (یعنی مرزاغلام احمد) کے متعلق ہی ہے۔‘‘
(انوار خلافت ص۱۸، مطبوعہ امرتسر ۱۹۱۶ئ)
یہ شرمناک، اشتعال انگیز، جگر سوز اور ناپاک جسارت اس حد تک بڑھی کہ ایک قادیانی مبلغ سید زین العابدین ولی اﷲ شاہ نے ’’اسمہ احمد‘‘ کے عنوان سے ۱۹۳۴ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں ایک مفصل تقریر کی جو الگ شائع ہوچکی ہے، اس میں اس نے صرف یہی دعویٰ نہیں کیا کہ مذکورہ آیت میں احمد سے مراد آنحضرتﷺ کے بجائے مرزاغلام احمد ہے۔ بلکہ یہ بھی ثا بت کرنے کی کوشش کی کہ سورۃ صف میں صحابہ کرامؓ کو فتح ونصرت کی جتنی بشارتیں دی گئی ہیں وہ صحابہ کرامؓ کے لئے نہیں قادیانی جماعت کے لئے تھیں۔ چنانچہ اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے وہ کہتا ہے: ’’پس یہ اُخریٰ۱؎ کتنی بے بہا نعمت ہے جس کی صحابہؓ تمنی کرتے رہے مگر وہ اسے حاصل نہ کر سکے اور آپ کو مل رہی ہے۔‘‘
(اسمہ احمد ص۷۴، مطبوعہ قادیان ۱۹۳۴ئ)
غور فرمائیے کہ سرکار دوعالمﷺ اور آپﷺ کے اصحاب کرامؓ کی یہ توہین اور قرآن کریم کی آیات کے ساتھ یہ گھناؤنا مذاق مسلمانوں جیسا نام رکھنے کے بغیر ممکن تھا؟