2019انگریز اور برصغیر
انگریز نے جب برصغیر اور عالم اسلام میں اپنا پنجہ استبداد جمانا شروع کیا تو اس کی راہ میں دو باتیں رکاوٹ بننے لگیں۔ ایک تومسلمانوں کی نظریاتی وحدت دینی معتقدات سے غیر متزلزل وابستگی اور مسلمانوں کا وہ تصور اخوت جس نے مغرب ومشرق کو جسد واحد بنا کے رکھ دیا تھا۔ دوسری بات مسلمانوں کا لافانی جذبہ جہاد جو بالخصوص عیسائی یورپ کے لئے صلیبی جنگوں کے بعد وبال جان بنا ہوا تھا اور آج ان کے سامراجی منصوبوں کے لئے قدم قدم پر سدراہ ثابت ہورہا تھا اور یہی جذبہ جہاد تھا جو مسلمانوں کی ملی بقاء اور سلامتی کے لئے گویا حصار اور قلعہ کا کام دے رہا تھا۔ انگریزی سامراج ان چیزوں سے بے خبر نہ تھی۔ اس لئے اپنی معروف ابلیسی سیاست لڑاؤ اور حکومت کرو (Divide and Rule) سے عالم اسلام کی جغرافیائی اور نظریاتی وحدت کو ٹکڑے کرنا چاہا۔ دوسری طرف عالم اسلام بالخصوص برصغیر میں نہایت عیاری سے مناظروں اور مباحثوں کا بازار گرم کر کے مسلمانوں میں فکری انتشار اور تذبذب پیدا کرنا چاہا اور اس کے ساتھ ہی انگریزوں پر سلطان ٹیپو شہیدؒ، سید احمد شاہ شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے بعد جماعت مجاہدین کی مجاہدانہ سرگرمیاں علماء حق کا ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر جہاد کا فتویٰ دینا اور بالآخر ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی نہ صرف ہندوستان بلکہ باہر عالم اسلام میں مغربی استعمار کے خلاف مجاہدانہ تحریکات سے یہ حقیقت اور بھی عیاں ہوکر سامنے آگئی کہ جب تک مسلمانوں کے اندرجذبہ جہاد قائم ہے، سامراج کبھی بھی اور کہیں بھی اپناقدم مضبوطی سے نہیں جما سکے گا۔ مسلمانوں کی یہ چیز نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں یورپ کے لئے وبال جان بنی ہوئی تھی۔