2020مرزاصاحب کے نشوونما کا دور اور عالم اسلام کی حالت
انیسویںصدی کا نصف آخر جو مرزاصاحب کے نشوونما کا دور ہے۔ اکثر ممالک اسلامیہ جہاد اسلامی اور جذبہ آزادی کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ برصغیر کے حالات تو مختصراً معلوم ہو چکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی زمانہ ہے جب برصغیر کے باہر پڑوسی ممالک افغانستان میں ۱۸۷۸، ۱۸۷۹ء میں برطانوی افواج کو افغانوں کے جذبہ جہاد وسرفروشی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو بالآخر انگریزوں کی شکست اور پسپائی پر ختم ہو جاتا ہے۔
ترکی میں ۱۸۷۶ء سے لے کر ۱۸۷۸ء تک انگریزوں کی خفیہ سازشوں اور درپردہ معاہدوں کو دیکھ کر جذبہ جہاد بھڑکتا ہے۔ طرابلس الغرب میں شیخ سنوسی، الجزائر میں امیر عبدلقادر (۱۸۸۰ئ) اور روس کے علاقہ داغستان میں شیخ محمد شامل (۱۸۷۰ئ) بڑی پامردی اور جانفشانی سے فرانسیسی اور روسی استعمار کو للکارتے ہیں۔ ۱۸۸۱ء میں مصر میں مصری مسلمان سربکف ہوکر انگریزوں کی مزاحمت کرتے ہیں۔
سوڈان میں انگریز قوم قدم جمانا چاہتی ہے تو ۱۸۸۱ء میں مہدی سوڈانی اور ان کے درویش جہاد کا پھریرا بلند کر کے بالآخر انگریز جنرل گارڈن اور اس کی فوج کا خاتمہ کرتے ہیں۔
اسی زمانہ میں خلیج عرب، بحرین، عدن وغیرہ میں برطانوی فوجیں مسلمانوں کے جہاد اور استخلاص وطن کے لئے جان فروشی اور جان نثاری کے جذبہ سے دوچار تھیں۔
مسلمانوں کی ان کامیابیوں کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے ایک انگریز مصنف لکھتا ہے کہ مسلمانوں میں دینی سرگرمی بھی کام کرتی تھی، کہتے تھے کہ فتح پائی تو غازی مرد کہلائے، حکومت حاصل کی، مر گئے تو شہید ہوگئے۔ اس لئے مرنا یا مارڈالنا بہتر ہے اور پیٹھ دکھانا بیکار۔
(تاریخ برطانوی ہند ص۳۰۲، مطبوعہ ۱۹۳۵ئ)